مقالات

نہج البلاغہ اور اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)

نہج البلاغہ جو خود حضرت علی  کی عظیم شخصیت کی طرح ایک عظیم کلام ہے اور ایک ایسے بے کراں سمندر کی مانند ہے جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ دیگر موضوعات کی طرح مولائے کائنات نے اطاعت رسول (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے سلسلہ میں بھی ایسے گراں بہا جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز ہوسکتا ہے

مقدمہ

اس موضوع کا انتخاب کیوں؟

میں نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا کہ :

١:۔اطاعت رسول ایک ایسا موضوع ہے جس کو قرآن مجید نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور ایک باایمان شخص کی زندگی کی سعادت کا دارومدار ،پیغمبر کی اطاعت کو قرار دیا ہے ۔قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوا (وما ارسلنا من رسول الا لیطاع بذن اللہ )ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگراس واسطے کے خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں ۔١

٢:۔قرآن کے اس واضح حکم پر جس شخصیت نے کما حقہ عمل کیا وہ علی ابن ابی طالب کی ذات اقدس ہے ۔

٣:۔مولائے کائنات کی عظیم شخصیت سے محبت کا دم بھرنے والے شیعہ اثنا عشری افراد پر ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ حضرات حضرت علی کو پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کا مقام دیتے ہیں اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اس قدر ومنزلت کے قائل نہیں جو خدا نے ان کو عطا کی ہے ۔لہذا اس مختصر سی تحریر کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اہل فکر کو یہ بتائیں کہ ہم حضرت علی  ابن ابی طالب کو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے بعد اسلام کی دوسری عظیم شخصیت سمجھتے ہیں اور خود علی ابن ابی طالب پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے کس قدر مطیع اورفرمانبردار تھے اور انہوں نے اپنے ماننے والوں کو پیغمبر کی کیسے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے دوسرے الفاظ میں اگریوں کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ہم علی کی اس عظیم قدر ومنزلت کے بھی اس لئے قائل ہیں کیونکہ پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی ذات اقدس نے ان کا یہ مقام بیان فرمایا لہذا ہم (من یطع الرسول فقد اطاع اللہ)کے مصداق کہلاتے ہیں ۔

                 علی کی ذات اقدس عقیدہ رسالت کی ایک عملی تصویر ہے ،اگر کوئی شخص عقیدہ رسالت کو عملی صورت میں دیکھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ علی کی سیرت کا مطالعہ کرے ۔ ضمنا لازم الذکر سمجھتی ہوں کہ اگر یہ موضوع ”علی مطیع رسول ”ہوتا تو یہ ایک نہایت وسیع و گستردہ موضوع تھا کیونکہ علی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت میں گذرا جیسا کہ خود مولائے کائنات نے فرمایا: اصحاب پیغمبر محمد (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)میں سے شریعت کے امانتدار افراد جانتے ہیں کہ میں نے ایک لحظہ بھی خدا اوررسول کے فرمان کی مخالفت نہیں کی ٢

                اس طرح مولائے کائنات کی پوری زندگی کو مختلف پیرائوں میں بیان کیا جاسکتا تھا لیکن میرا موضوع علی مطیع رسول نہج البلاغہ کی روشنی میں تھا لہذا میں نے کوشش کی کہ پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کے سلسلہ میں علی  کے اس گوشہ حیات کو ذکر کروں جس کا نہج البلاغہ میں ذکر ہواہے. لہذا اس حوالے سے یہ موضوع مجھ جیسی ناتوان طالبہ کیلئے مشکل تھا۔بہر حال خداوند متعال سے دعا ہے کہ خدا میری اس ناچیز سی سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اسی طرح اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح علی نے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کی ۔اور یہی سب سے بڑی کامیابی اور سعادت و خوشبختی ہے ۔

نہج البلاغہ اور اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)

  نہج البلاغہ جو خود حضرت علی  کی عظیم شخصیت کی طرح ایک عظیم کلام ہے اور ایک ایسے بے کراں سمندر کی مانند ہے جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ دیگر موضوعات کی طرح مولائے کائنات نے اطاعت رسول (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے سلسلہ میں بھی ایسے گراں بہا جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز ہوسکتا ہے ۔جیسا کہ حضرت امیر المومنین نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں رسول اعظم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کے سلسلہ میں یوں رطب اللسان ہیں: ”فتس بنبیّک الاطیب الاطہرصلی اللہ علیہ وآلہ فن فیہ سوة لمن تسیٰ و عزاً لمن تعزی…” یعنی” تم  لوگ اپنے طیب اور طاہر پیغمبر کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کیلئے بہترین نمونہ اور صبر اور سکون کے طلبگاروں کیلئے بہترین سامان صبر و سکون ہے .اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کا اتباع کرے اور اس کے نقش قدم پر چلے ۔” ٣

ایک اور جگہ پر فرمایا:  ”جعلہ اللہ بلاغا لرسالتہ’ و کرامة لامتہ …”یعنی ”اللہ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ،امت کی کرامت ،اہل زمانہ کی بہار ،اعوان وانصار کی بلندی کا ذریعہ اور یارو مددگار افراد کی شرافت کا واسطہ قرار دیا ہے ”۔٤

 اب مولائے کائنات جنہوں نے ہمیں اس عظیم پیغمبر کی اطاعت و پیروی کاحکم دیا ہے،سب سے پہلے خود آپ نے اس عظیم شخصیت کی لحظہ بہ لحظہ ،قدم بہ قدم اطاعت کی، جیسا کہ خود فرمایا: ” انی لم ارد علی اللہ و لا علی رسولہ ساعة قط… یعنی میں نے ایک لمحہ کیلئے بھی خدا اور رسول کی نافرمانی نہیں کی ”۔٥

 اور یہ کیسے نہ ہوتا کیونکہ مولائے کائنات کے قول وفعل ،کردار و گفتار میںرسول سے مطابقت پائی جاتی ہے ۔خود نہج البلاغہ میں ایک جگہ پر فرمایا: ” ایھا الناس ، انی واللہ ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیھا…” یعنی ”اے لوگو!خدا کی قسم میں اس وقت تک تمہیں کسی نیک عمل کی تشویق و ترغیب نہیں دلاتا جب تک کہ میں خود اس پر عمل نہ کرلوںاور کسی گناہ سے نہیں روکتا مگر یہ کہ میں پہلے خوداس سے محفوظ رہوں ۔ ”٦

گود سے لیکر گور تک حضرت علی، اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) میں

ولادت سے بعثت پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) تک

1:۔زمانہ بچپن اور اتباع رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم):اس پاک مولود کی زندگی کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولادت کی اساس ہی پیغمبر اکرم(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان اور انکی مدد و نصرت اور و اطاعت پر استوار تھی ۔

حضرت ابو طالب کا گھر پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی تربیت کا مرکز تھا ،آپ کی تمام خصوصیات آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب میں منتقل ہوئیں ۔یہی وجہ تھی کہ مولائے کائنات ابھی چار سال کے نہ تھے کہ رسول اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) نے ان کو اپنے سے نسبت دی اور ان کو اپنا بھائی کہا۔ ان کی زندگی کا یہ اہم حصہ جس میں انسان کی شخصیت نشوونما پاتی ہے پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے زیر سایہ تربیت میں گذرا۔

جب مکہ میں ایک سال سخت قحط پڑا ،تو حضرت ابو طالب کے ایک بیٹے جناب جعفر کو پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے چچا حضرت عباس اور جناب علی کو آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) خود اپنے گھر میں کفالت کیلئے لے آئے اور حضرت علی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی بعثت تک آپ کے گھر میں رہے اور حضرت علی نے آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی سب سے پہلے تصدیق کی اور آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کی ٧

 اور شارح نہج البلاغہ محمد تقی تستری نے مقاتل ابی الفرج سے بھی اسی طرح کے کلام کو نقل کیا ہے ۔٨

جاتی ہے ۔خود نہج البلاغہ میں ایک جگہ پر فرمایا: ” ایھا الناس ، انی واللہ ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیھا…” یعنی ”اے لوگو!خدا کی قسم میں اس وقت تک تمہیں کسی نیک عمل کی تشویق و ترغیب نہیں دلاتا جب تک کہ میں خود اس پر عمل نہ کرلوںاور کسی گناہ سے نہیں روکتا مگر یہ کہ میں پہلے خوداس سے محفوظ رہوں ۔ ”٦

گود سے لیکر گور تک حضرت علی اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) میں

ولادت سے بعثت پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) تک

1:۔زمانہ بچپن اور اتباع رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم):

اس پاک مولود کی زندگی کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولادت کی اساس ہی پیغمبر اکرم(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان اور انکی مدد و نصرت اور و اطاعت پر استوار تھی ۔

حضرت ابو طالب کا گھر پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی تربیت کا مرکز تھا ،آپ کی تمام خصوصیات آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب میں منتقل ہوئیں ۔یہی وجہ تھی کہ مولائے کائنات ابھی چار سال کے نہ تھے کہ رسول اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) نے ان کو اپنے سے نسبت دی اور ان کو اپنا بھائی کہا۔ ان کی زندگی کا یہ اہم حصہ جس میں انسان کی شخصیت نشوونما پاتی ہے پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے زیر سایہ تربیت میں گذرا۔

جب مکہ میں ایک سال سخت قحط پڑا ،تو حضرت ابو طالب کے ایک بیٹے جناب جعفر کو پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے چچا حضرت عباس اور جناب علی کو آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) خود اپنے گھر میں کفالت کیلئے لے آئے اور حضرت علی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی بعثت تک آپ کے گھر میں رہے اور حضرت علی نے آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی سب سے پہلے تصدیق کی اور آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کی ٧

اور شارح نہج البلاغہ محمد تقی تستری نے مقاتل ابی الفرج سے بھی اسی طرح کے کلام کو نقل کیا ہے ۔٨

 جب پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)حضرت علی کو اپنے گھر لے آئے توفرمایا : ”میں نے علی کو ایسے ہی منتخب کیا ہے جیسے خدا نے اس کو میرے لئے منتخب کیا ہے”

  حضرت امیر المومنین نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں اپنی زندگی کے اس حصے کو اس طرح بیان کرتے ہیں: ” و قدعلمتم موضعی من رسول اللہ بالقرابة و المنزلة الخصیصة وضعنی فی حجرہ و انا ولد یضمنی الی صدرہ…تمہیں معلوم ہے مجھے رسول اکرم(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) سے کس قدر قرابت اور مخصوص منزلت حاصل ہے انہوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں جگہ دی کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے،اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے،اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے سرفراز فرمایا کرتے تھے،اور غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھے کھلاتے تھے ۔نہ انہوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی…”

یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:۔

”ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل ثر مہ …”

  میں ان کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح ناقہ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے، وہ روزانہ میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک درس پیش کرتے تھے (و یامرنی بالاقتداء بہ)اورپھر مجھے اپنی اقتداء اور اطاعت کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ٩

2:۔غار حرا میں پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اتباع اور ہمراہی :

حضرت محمد(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) مبعوث بہ رسالت ہونے کے پہلے سال میں ایک مہینہ غار حرا میں عبادت بجا لاتے تھے،ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد آپ گھر تشریف لے جانے سے پہلے مسجد الحرام میں سات مرتبہ یا جتنا خدا چاہتا ،خانہ خدا کاطواف بجا لاتے تھے١٠

 مختلف شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی حضرت علی سے ایک خاص قسم کی وابستگی اور توجہ کے نتیجے میں اس ایک ماہ کی مدت میں بھی حضرت علی ،پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اقتداء و اطاعت میں ان کے ہمراہ رہتے تھے ۔جب جبرائیل امین پہلی دفعہ غار حرا میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)پر نازل ہوئے اور آپ کو مبعوث بہ رسالت ہونے کی خوشخبری دی تو حضرت علی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے جوار میں موجود مختلف شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی حضرت علی سے ایک خاص قسم کی وابستگی اور توجہ کے نتیجے میں اس ایک ماہ کی مدت میں بھی حضرت علی ، پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اقتداء و اطاعت میں ان کے ہمراہ رہتے تھے ۔جب جبرائیل امین پہلی دفعہ غار حرا میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)پر نازل ہوئے اور آپ کو مبعوث بہ رسالت ہونے کی خوشخبری دی تو حضرت علی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے جوار میں موجود تھے اور یہ دن اسی مہینے کا ایک روز تھا جس میں آپ غار حرا میں عبادت کیا کرتے تھے ۔

 حضرت علی نہج البلاغہ کے خطبہ میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ اپنی اس ہمراہی اور اتباع کو ذکر کرتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں: ” و لقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فراہ ولا یراہ غیری…وہ سال میں ایک زمانہ غار حرا میں گذارا کرتے تھے جہاں صرف میں انہیں دیکھتا تھا اور کوئی دوسرا نہ ہوتا تھا۔”

یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ” ولقد سمعت رنة الشیطان حین نزل الوحی علیہ…میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آواز سنی اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ چیخ کیسی ہے ؟تو فرمایا یہ شیطان کی چیخ ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے ،تم وہ سب دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں، اور وہ سب سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں صرف فرق یہ کہ تم نبی نہیں ہو۔لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو”١١

اگرچہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی یہ عبادت مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے تھی لیکن پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی تربیت واطاعت کا یہ نتیجہ تھا کہ علی کی پاک روح اس کمسنی کے عالم میں اپنے نورانی قلب اور پرتاثیر نگاہوں اور صاف و پاک قوت سماعت سے ایسے امور کا مشاہدہ اور ایسی صدائوں کو سن رہی تھے کہ جو کسی عام انسان کے بس کاروگ نہ تھا ۔اسی سلسلہ میں ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں یوں رقمطراز ہیں :

صحاح ستہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ جب جبرائیل امین پہلی دفعہ پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)پر نازل ہوئے اور بعثت کی خوشخبری دی تو حضرت علی ان کے جوار میں موجود تھے ۔ ١٢

اطاعت پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) بعثت سے ہجرت تک

                حضرت علی کی زندگی کا دوسرا مرحلہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی بعثت سے لیکر آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی مدینہ ہجرت تک کا زمانہ ہے جو زمانے کے لحاظ سے تیرہ سال بنتا ہے ۔ آئیے نہج البلاغہ کی رو سے ان کی اس مجاہدانہ اور مخلصانہ زندگی پر اطاعت رسول (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے حوالے سے ایک اجمالی نظر دوڑائیں ۔

ا۔ اطاعت پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)میں سب سے پہلے ایمان لانے والے:

 یہ صرف حضرت علی کا امتیاز ہے کہ آپ نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام قبول کیا. بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ نے سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کیا کیونکہ آپ بچپن ہی سے موحد تھے اور بت پرستی سے آپ کا دامن محفوظ و مصون تھا ١٣

 اس مطلب کی تائید کیلئے یہی کافی ہے کہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جسے (کرم اللہ وجہہ)کا لقب ملا یعنی ایسی ذات جو ایک لمحہ کیلئے بھی غیر خدا کے سامنے سر بسجود نہ ہوئی ہو ۔

 کتاب نہج الصباغہ میں خطیب سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کی سند میں یحی بن حسین نے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ”تین افراد ایسے ہیں جنہوں نے پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی کفر اختیار نہیں کیا۔ مومن آل یاسین٢:علی ابن ابی طالب٣:آسیہ زوجہ فرعون١٤

یہ ایک ایسا امتیاز اور کمال ہے جسے قرآن نے برتری کا ایک معیار اور کسوٹی قرار دیا اور ایک خاص اہمیت دی ہے ارشاد ہوا (والسابقون السابقون اولئک المقربون) ١٥

 جن لوگوں نے (اسلام قبول کرنے میں) سبقت کی ہے ان کا مقام خدا کی بارگاہ میں بلند وبرتر ہے ۔

 قرآن مجید نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے اور خدا کی راہ میں جان ومال کا انفاق کرنے والوں کو ان افراد سے افضل و برتر قرار دیا ہے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور جہاد کیا۔ (لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل…)(١٦) ”تم میں سے جس شخص نے فتح (مکہ)سے پہلے (اپنامال)خرچ کیا اور جہادکیا اور (جس)نے بعد (میں)وہ برابر نہیں، انکا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا ۔”

 جب معیار یہ ٹھہرا تو قابل غور ہے کہ پھر ان افراد کا مقام و منزلت کس قدر بلند ہے جو ہجرت سے پہلے اور ظہور اسلام کی ابتداء میں مسلمان ہوئے اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کی ، تو اس بنا پر علی ابن ابی طالب کا مقام و منزلت تو خداہی جانتا ہے کہ جس نے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا اس وقت اعلان کیا اور اس وقت ان کی تصدیق کی جب پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔

اسی اطاعت و ایمان کے بارے میں حضرت نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:  ”و لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول اللہ و خدیجہ و انا ثالثھما” اس وقت رسول اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)اور خدیجہ کے علاوہ کسی گھر میں اسلام کا گذر نہ تھا اور ان میں تیسرا میں تھا ،میں نور وحی و رسالت کا مشاہدہ کرتا تھا ،اور خوشبوئے رسالت سے دماغ کو معطر کرتا تھا۔١٧

اسی طرح ایک اور جگہ پر فرمایا: اللھم انی اول من اناب ،سمع و اجاب ، لم یسبقنی الا رسول اللّٰہ بالصلاة ” خدا یا تجھے معلوم ہے میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا اور تیرے پیغام کو سنا اور پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا ہے اور تیری بندگی میں رسول کے علاوہ کسی نے مجھ پر سبقت نہیں کی١٨

اسی لئے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ” اولکم ورودا علی الحوض و اولکم اسلاما علی ابن ابی طالب”  تم میں سب سے پہلے حوض کوثر پر جو شخص مجھ سے ملاقات کرے گا وہ علی ابن ابی طالب ہے جس نے تم سب سے پہلے اسلام کا اظہار کیا ۔١٩

  امیر المومنین  نے ایک اور مقام پر اسی سبقت کو یوں بیان کیا ”میں خد اکا بندہ ہوں اور اللہ کے رسول کا بھائی ،اور صدیق اکبر ہوں، میرے بعد یہ دعوی ، جھوٹا اور بہتان باندھنے والا ہی کرسکتا ہے میں نے لوگوں سے سات سال پہلے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کی ”(٢٠

دعوت ذوالعشیرہ اور اطاعت علی

بعثت کے تین سال بعد دعوت عام کے آغاز کا حکم دینے کیلئے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں جبرائیل امین آیہ انذار(  وانذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک)لیکر آئے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے علی کو جب کہ ان کی عمر مبارک تیرہ سال کی تھی ، حکم دیا کہ کھانے کا بندوبست کیا جائے اور حضرت عبد المطلب کی اولاد میں سے چالیس افراد(مرد و زن)کو دعوت دی جائے ۔حضرت علی نے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کرتے ہوئے کھانے کا انتظام کیا پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے اس بھرے مجمع میں کھانے کے بعد اپنی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : ”تم میں سے کون ہے جو میرا حامی و مددگار ہو ……”۔ سب نے سر جھکا لیا تین مرتبہ ایسے ہی ہو ا اور تینوں مرتبہ علی کے علاوہ کسی نے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت و حمایت کا اعلان نہ کیا تو بالآخر پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے اپنا ہاتھ علی کے ہاتھ پر مارتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ارشادفرمایا : ”اے میرے اقربائ! تمہارے درمیان یہ علی میرا بھائی ،و صی اور خلیفہ ہے ”(٢١

علی اپنے اس قول پر ثابت قدم رہے اور پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی ہمیشہ اطاعت اور حمایت کرتے رہے جیسا کہ

رہے جیسا کہ خود نہج البلاغہ میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”و لقد کنت معہ …صلی اللہ علیہ وآلہ لما تا ہ الملاء من قریش……میں اس وقت بھی حضرت محمد (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت میں ان کے ہمراہ تھا جب قریش کے سرداروں نے آکر کہا محمد (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) !تم نے بہت بڑادعوی کیا ہے جو تمہارے گھر خاندان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا”۔

امیر المومنین  آگے چل کر فرماتے ہیں: ”جب قریش والوں نے آپ سے (معجزہ کے طور پر) درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ کیاتو قسم ہے اس ذات کی جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ درخت جڑ سے اکھڑ گیا اور اس عالم میں حضور(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے سامنے آگیا کہ اس میں سخت کھڑکھڑاہٹ تھی اور پرندوں کی آوازوں جیسی پھرپھراہٹ بھی تھی اس کی ایک شاخ سرکار کے سر پر سایہ افگن تھی اور ایک میرے کاندھے پر، جب کہ میں آپ کے دائیں پہلو میں تھا ”۔ (٢٢)

پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اعلانیہ دعوت سے لیکر مدینہ ہجرت تک علی آنحضرت (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے قدم بہ قدم ان کی اقتدا میں رہے اور ہر مقام پر آپ کا تحفظ کیا۔جب قریش والوں نے بنی ہاشم کا اقتصادی بائیکاٹ کیا اور پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)چالیس افراد کے ساتھ شعب ابی طالب میں قیام پذیر ہوئے تو حضرت ابو طالب پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی حفاظت کے سلسلہ میں رات کے آخری حصہ میں آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کو مختلف جگہوں پر منتقل کردیتے تو علی،  پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کرتے ہوئے آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے بستر پر استراحت کرتے ،آپ نے اس مدت میں ایسی اطاعت اور فداکاری کا ثبوت دیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی ،جب کہ آپ کی عمر مبارک اس وقت سترہ سے بیس سال کے درمیان تھی۔(٢٣)

اسی طرح شہر طائف میں جب پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے دس دن یا تیس دن قیام کیا تاکہ طائف کے بزرگان و اشراف کو اسلام کی دعوت دیکر طائف کو اسلام کا مرکز بنایا جائے تو اس مدت میں بھی علی  پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی ہمراہی و اقتداء میں رہے بلکہ جب اس شہر والوں نے اسلام قبول نہ کیا اور آنحضرت(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کو شہر سے نکال دیا اور آپ پر پتھروں کی بارش کی توپیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے دفاع میں علی  کا سر بھی زخمی ہوگیا(٢٤)

اطاعت پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) میں علی  کی بت شکنی

 پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت میں آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے کندھوں پر کھڑ ے ہوکر کعبہ میں موجود بت کو چکنا چور کردینا بھی علی  ابن ابی طالب کی انفرادی خصوصیت ہے ۔ جس کی تفصیل معتبر منابع اہل سنت میں موجود ہے جس کے ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ۔ خود حضرت نے ابو بکر سے مخاطب ہوکر اسی ماجرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا وہ تم تھے جس نے پیغمبر کے شانوں پر سوار ہوکر کعبہ میں بتوں کو نیچے گرایا تھا اور ان کو توڑا تھا ،یا یہ کارنامہ انجام دینے والا میںتھا ؟ابو بکر نے جواب دیا:  یقینا آپ ہی تھے ۔(٢٥)

شب ہجرت ،اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی ایک جھلک

بعثت کے چودھویں سال دارالندوہ میں مشرکین نے میٹینگ کر کے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور خدا وند عالم نے مشرکین کے اس ناپاک عزم سے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کو آگاہ کردیا اور حکم دیا آپ مکہ کو یثرب روانہ ہونے کی نیت سے ترک کردیں ۔ پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے اس مسئلہ کو حضرت علی کے سامنے پیش کیا اور کہا مشرکین کو اس عز م میں ناکام کرنے کیلئے تم آج رات میرے بستر پر سو جائو اور فرمایا  یا علی تم کیا کہتے ہو؟

دیکھیے اطاعت علی  ! حضرت علی نے ایک ایسا جواب دیا جس کو تاریخ نے اپنے سنہری حروف میں قلم بند کیا ، آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر میں آپ کی جگہ پر سو جائوں تو کیا آپ محفوظ رہیں گے؟حضور (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے جواب دیا ہاں جبرائیل امین نے مجھے خبر دی ہے ۔ حضرت علی مسکرا دئیے اور سر سجدہ میں رکھ دیا اور شکر خدا بجا لائے ، علی کا سجدہ شکر اس وجہ سے ہے کہ علی  رسول (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت میں

آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)پر فدا ہورہے ہیں  ۔

            سجدہ شکر سے سر اٹھایا اور کہا اے اللہ کے رسول جو آپ چاہتے ہیں اس کو انجام دیجئے میرا تن من آپ پر قربان ہو، آپ مجھے جو بھی حکم دیں گے میں اطاعت کروں گا(٢٦)

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں حضرت فرماتے ہیں: ”فجعلت اتبع فاخذ رسول اللہ…میں مسلسل رسول اکرم(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے نقش قدم پر چلتا رہا اور ان کے ذکر کردہ خطوط پر قدم جماتا رہا یہاں تک کہ مقام عروج تک پہنچ گیا”۔ (٢٧)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) غار ثور میں تین دن قیام کرنے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے اور بارہ دن کے بعد مقام قبا پر پہنچ کر علی کا انتظار کرنے لگے ،یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب  آپ کی خدمت میں پہنچ گئے ۔  صاحب منہاج البراعہ نے تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو ذکر کیا ہے ۔(٢٨)

 اسی اطاعت و فداکاری کو خود حضرت نے چھ افراد پر مشتمل شوریٰ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے بتائو ، میرے علاوہ کون تھا جو اس پر خطر رات میں کہ جب پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) غار ثور تشریف لے گئے ،آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے بستر پر سویا اور خود کو مصیبتوں کے سپرد کیا ؟سب نے کہا آپ کے سوا کوئی نہ تھا (٢٩)

ہجرت سے وفات پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) تک

جنگ وجہاد میں اطاعت رسول (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی ایک جھلک

جنگی میدانوں میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت میں آپ کی عظیم فداکاریاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ پیغمبراکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ ٢٧ غزوں میں سے ٢٦ میں علی نے شرکت کی فقط غزوہ تبوک میں کچھ خاص شرائط کی بنا پر پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے حکم سے مدینہ میں رہے ۔اس مختصر مقالہ میں تمام غزوات میں اتباع رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) میں علی کے کارناموں کو تفصیل سے بیان کرنے کی گنجائش نہیں فقط حضرت علی کے نہج البلاغہ میںموجود فرامین کی روشنی میں ان کارناموں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔

 نہج البلاغہ میں پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت میں جنگ و جہاد کے سخت لمحات کو حضرت نے ان الفاظ میں بیان کیا” و لقد کنا مع رسول اللّہ ، نقتل آبائنا و ابنائنا و اخواننا…”ہم رسول اللہ کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگوں ،بچوں،بھا ئیوں اور چچائوں کو قتل کردیا کرتے تھے اور اس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم واطاعت میں اضافہ ہوتا تھا ۔اور ہم برابر سیدھے راستے پر بڑھتے ہی جارہے تھے…الخ ،یہاں تک کہ فرمایا: مجھے میری جان کی قسم ! اگر ہمارا کردار بھی تمہارے جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی (٣٠)

جنگ بدر جو کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا ، جس میں مسلمانوں کی تعداد تین سوتیرہ جبکہ مشرکین نو سو پچاس سے لیکر ایک ہزار کی تعداد میں تھے فقط اس جنگ میں علی کی تلوار سے مشرکین کے آدھے سے زیادہ افراد واصل جہنم ہوئے ۔شیخ مفید نے ٣٦ افراد کے نام ذکر کئے ہیں جو امیر المومنین کی تلوار سے قتل ہوئے ۔شیخ مفید کہتے ہیں شیعہ اور سنی محدثین کا اتفاق ہے کہ ان افراد کوبہ نفس نفیس حضرت علی نے قتل کیا ۔(٣١)

 نہج البلاغہ میں ایک خط میں جو آپ نے معاویہ کولکھا تھا ، اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :و عندی سیف الذی اعضضتہ بجدک و خالک واخیک فی مقام واحد”اور میرے پاس وہ تلوار ہے جس سے تمہارے نانا ،ماموں ،اوربھائی کو ایک ٹھکانے تک پہنچا چکاہوں ۔

اسی جنگ بدر کے بارے میں ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا :فنا ابوالحسن قاتل جدک…میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ)ماموں(ولیدبن عتبہ)اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کا سرتوڑ کر خاتمہ کردیا ۔(٣٢)

 آپ  نے جنگ احد میں بھی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت میں ایمان کے جذبہ سے سرشار مشرکین کی سپاہ کے نو پرچمداروں کو اپنی تلوار سے واصل جہنم کیا اور خود اسی موضوع کی طرف چھ نفری شوری میں اپنے حق کے لئے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا :میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوںکیا تمہارے درمیان میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے (جنگ احد میں) بنی عبدار کے نو پرچم داروں کو واصل جہنم کیا ہو؟(٣٣)اور اس جنگ میں ابو دجانہ اور سہل بن حنیف جیسے اصحاب بھی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہو گئے لیکن علی پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ فرشتوں نے علی کی اس فدا کاری پر تعجب کیا  اور”لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار ” کی صدا بلند ہوئی اور جب صدا بلند کرنے والانظر نہ آیا تو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)سے سوال کیا گیا کہ یہ کون ہے ؟ آپ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) نے تو فرمایا یہ جبرائیل امین ہے(٣٤)

 اسی بارے میں نہج البلاغہ میں فرمایا: ولقد واسیتہ بنفسی فی المواطن التی ……میں نے پیغمبر اکرم(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) پر اپنی جان ان مقامات پر قربان کی جہاں بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے تھے یہ صرف اس بہادری کی بنا پر تھا جس سے پروردگار نے مجھے سرفراز فرمایا تھا۔(٣٥)

 شارح نہج الصباغہ فرماتے ہیں مواطن سے مراد فقط احد ،حنین،اور خیبر نہیں بلکہ سب غزوات مراد ہیں جن میں علی کی بدولت فتح نصیب ہوئی (٣٦)اور جنگ خندق میں آپ کے مخلصانہ جھاد کی ایک ضربت ، جن و انس کی عبادت سے افضل قرار پائی ۔

 آپ خود اپنی شجاعت کے بارے میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :”انا وضعت فی الصغر بکلاکل العرب و کسرت نواجم قرون ربیعة و مضر…مجھے پہچانو میںنے کمسنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ اور مضر کے سینگوں کو توڑ دیا تھا” ۔(٣٧)

 آپ نے  ایک جگہ پر پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اتباع اور اطاعت اور اپنے جہادکی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا: وذلک السیف معی ، بذلک القلب القی عدوی مااستبدلت دینا ولا استحدثت نبیّا…”اور ابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اور اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا ،میں نے نہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے ۔میں اس راستے پر چل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا پھر مجبوراً داخل ہوگئے تھے ۔(٣٨)

وفات پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) سے ضربت تک

 زہد و ورع میں اطاعت،

نہج البلاغہ میں امام نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی سیرت طیبہ کی پیروی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا :”ولقد کان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم … یاکل علی الارض، و یجلس جلسة العبی۔۔۔” پیغمبر اسلام فرش زمین پر بیٹھ کر غذا نوش فرماتے ، غلاموں کے انداز میں بیٹھتے تھے ، اپنی جوتیوں کو اپنے ہاتھوں سے سیتے اور لباس میں اپنے دست مبارک سے پیوند لگاتے…

 پھر آپ نے تفصیل کے ساتھ پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے زہد اور دنیا سے ان کی بے نیازی پر روشنی ڈالتے ہوئے اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت وپیروی پر فخر ومباہات کرتے ہوئے اپنے زہد وتقوی کو یوں بیان کیا: واللہ لقد رقعت مدرعتی ھذہ حتی … خدا کی قسم یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں اس میں ، میں نے اس قدر پیوند لگائے ہیں کہ اب پیوند لگاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے ، ایک شخص نے مجھ سے کہاکہ آپ اس لباس کیوں نہیں اتار دیتے ، میں نے جواب دیا: میرینظروں سے دور ہوجائو کیونکہ صبح ہونے کے بعدقوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر معلوم ہوتی ہے ۔ (٣٩)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کے بارے میں فرمایا:قضم الدنیا قضمًا … انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں ،ساری دنیا سے سب سے زیادہ خالی شکم زندگی گذارنے والے وہی تھے ۔ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا …(٤٠)

آپ نے عثمان بن حنیف کو جو خط لکھا اس میں تحریر کیا کہ تمہارے امام نے اس دنیا میں سے صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر اکتفاء کیا ہے …پھر پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی سنّت کی اطاعت کے سلسلے میں اپنے بارے میں فرمایا :ولو شئت لا ھتدیت الطریق، الی مصفّٰی ھذا العسل…”میں اگر چاہتا تو اس خالص شہد ،بہترین صاف شدہ گندم اور ریشمی کپڑوں کے راستے بھی پیدا کرسکتا تھا ، لیکن خدا نہ کرے مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہوجائے…(٤١)

 اسی خط میں ایک اور جگہ پر فرمایا :گویا میں دیکھ رہا ہوں تم میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں جب ابو طالب کے فرزند کی غذا ایسی معمولی ہے تو انہیں ضعف نے دشمن سے جنگ کرنے اوربہادروں کے ساتھ میدان میں اترنے سے بٹھادیا ہوگا  ، یاد رکھنا جنگل کے درختوں کی لکڑی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور تروتازہ درختوں کی چھال کمزور … میرا رشتہ رسول سے وہی ہے جو نور کا رشتہ نور سے ہوتا ہے یا ہاتھ کا رشتہ بازئووں سے ہوتا ہے ۔(٤٢)یوں دو ٹوک الفاظ میں زہد وورع اور دنیا سے بے توجہی میں پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کو بیان کیا

سیاسی کردار میں اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)

قانون کی یکسانیت ،اصول اخلاق کی پاسداری اور حکومت اور طاقت کو خدمت کا ذریعہ سمجھنے میں آپ پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت کا سراپا تھے ۔ حکومت کو حاصل کرنے کیلئے کسی کے ساتھ خیانت یا دھوکہ کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے جیسے پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)نے مدینہ میں حکومت کے ذریعہ عدالت کو قائم کرنے کی حتی المکان سعی و کوشش کی آپ نے بھی پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اس سنّت کوزندہ کیا اس لئے نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: لو لا حضور الحاضر و قیام الحجة بوجود الناصر… اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا ، تو میں آج بھی اس ناقہ خلافت کی رسی کو اس کے کوہان پر ڈال کر اسے ہنکادیتا …(٤٣)

  آپ نے حکومت حاصل کرنے کیلئے کبھی بھی ناجائز وسیلہ کا سہار ا نہ لیا۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: واللّہ ما معاویہ بدھی منی و لکنہ یغدرو و یفجر…خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں لیکن کیا کروں وہ مکروفریب اور فسق و فجور بھی کرلیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے ناپسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ کوئی ہوشیار نہ ہوتا…(٤٤)

صبر و شکیبائی میں اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)

 آپ نے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی اطاعت میں صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اس  بارے میں آپ نے فرمایا : ”کہ یہ صبر اور سکون کے طلب گاروں کیلئے بہترین سامان صبر و سکون ہے” ۔ (٤٥)

 لہذا اسی سنت کی اتباع کرتے ہوئے حتی اس وقت بھی جب آپ کی خلافت کو چھین لیا گیا ، آپ نے تو صبر کیا اور اس بارے میں فرمایا :فسدلت دونھا ثوبا وطویت عنھا …میں نے کنارہ کشی اختیار کی اور سوچا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس بھیانک اندھیرے میں صبر کرلوں، میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں …(٤٦)

پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت جیسی عظیم مصیبت میں بھی آپ نے اتباع کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، رسول اللہ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے جسد اطہر کو غسل وکفن دیتے وقت ارشاد فرمایا :ببی انت وامی یا رسول اللہ……میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوںآپ کے انتقال سے وہ الہی احکام ،آسمانی اخبار کا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا…یہاں تک کہ فرمایا :اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اورنالہ وفریاد سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کردیتے اور یہ درد بھی کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج والم ہمیشہ ساتھ رہ جاتا(٤٧)

ضربت کے وقت اطاعت رسول(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)

 پیغمبر اکرم(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی سنت تھی کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے آپ کو دکھ درد دئیے لیکن آپ نے ان کیلئے بددعا نہ کی، امیر المومنین  نے بھی پیغمبر(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی اسی سنت کی اطاعت کی ۔آپ  نہج البلاغہ کے خطبہ میں فرمایا: ملکتن عینی و انا جالس، فسنح لی رسول اللّہ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) … میں بیٹھا ہوا تھا، اچانک آنکھ لگ گئی ایسا محسوس ہوا کہ رسول اللہ(صلی الله علیہ و آلہ وسلم) میرے سامنے تشریف فرما ہیں ، میں نے عرض کی میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کج روی اور دشمنی کا مشاہدہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا: بددعا کرو ، میں نے یہ دعا کی :خدا مجھے ان سے بہتر قوم دے دے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دے دے ۔(٤٨)

________________________________________

حوالہ جات

١:۔ سورہ نساء آیة ،٦٤

٢:۔نہج البلاغہ ترجمہ و تشریح ذیشان حیدر جوادی ،خطبہ ١٩٧ ،ص ٤١٠

٣:۔نہج البلاغہ ،ترجمہ :جوادی، خطبہ /١٦٠ ص/٣٠٠

٤:۔ایضا ،خطبہ/ ١٩٨،ص/٤١٦

٥:۔ایضا خطبہ قاصعہ /١٩٧ ص/٤١٠

٦:۔ایضا ،خطبہ/ ١٧٥ ص/٣٣٢

٧:۔ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ج/٢ ص/٥٨،ابن ہشام عبد الملک ،السیرة النبویہ  ج/٢ ص/٢٦

٨:۔نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ ،شیخ محمد تقی تستری ج/٤ ص/١٠٩

٩:۔ترجمہ نہج البلاغہ ،جوادی خطبہ/ ١٩٢،ص/٣٩٦

١٠:۔السیرة النبویہ ،ابن ہشام،ج١ ص٢٥٢

١١:۔نہج البلاغہ ترجمہ ،جوادی،خطبہ ١٩٢،ص٣٩٦

١٢:۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج١٣ ص٢١٨

١٣:۔احطب حوارزم المناقب ص١٨

١٤:۔نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ ج٤ ص١١٨

١٥:۔سورہ واقعہ ١٠۔١١

١٦:۔سورہ حدید آیة ١٠

١٧:۔نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢ ص٣٩٦

١٨:۔ایضا خطبہ ١٣١ ص٢٥٢

١٩:۔استیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبد البر ج٣ ص٢٨،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٣ ص١١٩

٢٠:۔تاریخ الامم و الملوک ،محمد بن جریر طبری ج٢ ص٣١٢

٢١:۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج٣ ص٢١١                      

٢٢:۔نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢ ص٣٩٨

٢٣:۔شرح ابن ابی الحدید،ج١٣ص٢٥٦

٢٤:۔اسد الغابة ،ابن اثیر ج٥ ص١٨٦

٢٥:۔طبرسی ،الاحتجاج ج١ص٣١١،الخصال شیخ صدوق ص ٥٥٢             

٢٦:۔ابن ہشام سیرة النبویہ ج٢ ص١٢٣

٢٧:۔نہج البلاغہ خطبہ ٢٣٦،ص ٤٧٠ ترجمہ جوادی

٢٨:۔منہاج البراعة فی الشرح نہج البلاغہ حبیب اللہ ہاشمی خوئی ج١٥ ص١١٤

٢٩:۔سیرة النبویة ابن ہشام ج/٢ ص/١٨٩

٣٠:۔ترجمہ نہج البلاغہ ،جوادی خطبہ/٥٦،ص/١٠٦

٣١:۔ارشاد ،شیخ مفید /٣٩

٣٢:۔ترجمہ ،نہج البلاغہ ،جوادی،نامہ /١٠،ص/٢٩٢۔

٣٣:۔الخصال ،شیخ صدوق، تصحیح علی اکبر غفاری ؛ص/٥٦٠

٣٤:۔شرح ابن ابی الحدید ج/١٤ ص/٢٥٣

٣٥:۔نہج البلاغہ ترجمہ جوادی ،خطبہ /١٩٧ ص/٤١١

٣٦:۔نہج الصباغہ ،ج/٤ ص/٨١

٣٧:۔نہج البلاغہ ترجمہ جوادی خطبہ ١٩٢ ص٣٩٦

٣٨:۔نامہ نہج البلاغہ ١٠ ص٤٩٤

٣٩:۔خطبہ نہج البلاغہ ،١٦٠ ترجمہ جوادی ٣٠٢

٤٠:۔خطبہ ١٦٠ ص٣٠٠

٤١:۔نہج البلاغہ ترجمہ جوادی،نامہ ٤٥ ص٥٥٦

٤٢:۔ایضا

٤٣:۔ایضا ،خطبہ ٣ ص٤٢

٤٤:۔ایضا خطبہ ٢٠٠ ص ٤٢٠

٤٥:۔ایضا خطبہ ١٦٠ ص ٣٠٠

٤٦:۔نہج البلاغہ ترجمہ جوادی خطبہ ٣ ص٣٨

٤٧:۔ایضا خطبہ ٢٣٥ ص٤٧٠

٤٨:۔ایضا خطبہ ٧٠ ص١١٨

balaghah.net

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button