حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا
آج کی دنیا میں اکثر ہی ایسے انسان نظر آتے ہیں جو کسی اور ہی دنیا میں گم دکھائی پڑتے ہیں بجائے اسکے کہ وہ ایک انسان ہونے کے ناطے معاشرے میں اور انسانیت کے لئے اپنے فرائض کو سمجھیں اپنی راہ گم کئے ہوئے ہیں اور کسی اور ہی راستے کے مسافر بن بیٹھے ہیں، اگر ہم اپنی دینی شخصیات کو لوگوں کے سامنے بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ممکن ہے کہ انسانوں کے لئے انسان بننے کا راستہ مزید ہموار ہوجائے، حضرت معصومه سلام الله علیها جیسی عظیم شخصیت کو پہچنوانے کے لئے ہمیں اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنا نہایت ضروری ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی ساری بیٹیوں کے درمیان آپ کو ہی اتنی بڑی منزلت حاصل ہوئی، تحقیق کرنے پر پتہ چلے گا کہ وہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ حضرت معصومه سلام الله علیها کا ولایت کے سلسلے میں محبتوں سے سرشار وہ جذبہ تھا جو آپ کے علم و معرفت کے ہمراہ ہمیشہ رہا۔
مقدمہ:
آج لوگ ظاہری چیزوں اور مادّیات کے اتنے دلدادہ ہوچکے ہیں جسمیں انسانیت کہیں گم ہوچلی ہے اور ایک اچھا انسان ہونے کی اہمیت نے اپنا رنگ کُھو دیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے والدین کی اطاعت اور انکی فرمانبرداری نے اپنا وقار گم کردیا ہے ، بُھلا دیا گیا ہے کہ صحیح راستہ کیا ہے اور غلط راستہ کونسا، بُھول بیٹھے ہیں کہ انسان کسے کہتے ہیں اور انسانیت کیا ہے ،اب چونکہ انسان ہونا اور انسان رہنے کا تعلق کسی خاص فرد سے متعلق نہیں ہے اور ہر ایک اسمیں شامل ہے اسلئے دنیا کو بہتر زندگی گذارنے کے راستے میں کچھ خاص افراد کی بھی ضرورت نظر آتی ہے۔
ایسی صورت میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے دین کی عظیم شخصیات کو دنیا کے سامنے پہچنوائیں اور انہیں دنیا والوں کے سامنےروشناس کریں جس میں ہم انکی ذاتی زندگی اور معاشرے میں گذارے انکے لمحات اور انکی زندگی گذارنے کا معیار کیا تھا اس سے لوگوں کو روبرو کروائیں ،ہم اس مقالے کے ذریعہ حضرت معصومه سلام الله علیها کی زندگی کے گوشوں سے روشناس ہونگے جو کہ خواتین اور آج کی لڑکیوں کے لئے بہترین آئیڈیل بننے کے لائق ہیں۔
۱۔ زندگی نامہ
حضرت امام موسی کاظم علیه السلام اور جناب نجمہ خاتون کے لئے ذیقعد کے مہینہ کا آغاز اپنے ہمراہ خوشی اور ایک طویل انتظار کے خاتمہ کی نوید لیکر آیا، جناب نجمہ خاتون، امام رضا علیہ السلام کی والدہ ۲۵ سال کے بعد آسمان ولایت و امامت کے صحن میں ایک بیٹی کی ماں بنیں ایک ایسی بیٹی جسکے ہونے کی بشارت خود امام صادق علیہ السلام نے دی تھی (مهتاب اهل بیت، اسحاقی، ص 17)
حضرت معصومه سلام الله علیها نے پہلی ذیقعد ۱۷۳ ہجری کو مدینہ میں اپنی آنکھیں کھولیں(علی نمازی، مستدرک سفینۃ البحار، ج8، ص 257)
آپ بچپن سے لیکر جوانی تک اپنے والد بزرگوار اور اپنے برادر مکرّم حضرت امام رضا علیہ السلام کی تربیت کے زیر سایہ رہیں،امام رضا علیہ السلام کے مَرو آجانے اور مامون کی ولیعہدی کے بعد امام رضا علیہ السلام نے اپنے ایک خادم کے ذریعہ اپنی بہن کو ایک خط روانہ کیا اور خادم کو اس بات کی تاکید کی کہ وہ کہیں بھی قیام نہ کرے تاکہ وہ خط جلد سے جلد بہن تک پہنچ جائے،خط ملتے ہی فوراً حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیهاسفر کے لئے آمادہ ہوگئیں، آپ ۲۰۱ ہجری میں اپنے پانچ بھائیوں (فضل، جعفر، ہادی، قاسم، زید)اور کچھ بھتیجوں اور کنیزوں کے ساتھ خراسان کی جانب راہئ سفر ہوئیں۔
جب حضرت فاطمہ معصومه کا قافلہ ’’ساوہ ‘‘پہنچا تو مامون عباسی کے اشارے پر اہلبیت علیہم السلام کے دشمنوں نے آپ کا راستہ روک دیااور قافلے پر حملہ کردیا جسمیں آپکے سارے بھائیوں اور قافلہ کے اکثر مردوں کو شہید کردیا گیا جسکے صدمہ سے اور ایک قول کے مطابق زہر دیئے جانے کی وجہ سے آپ بیمار پڑ گئیں(مهتاب اهل بیت علیهم السلام، اسحاقی، ص 28-29 به نقل از مرتضی عاملی، الحیاه السیاسه للامام الرضا، ص 428)
۲۳ ربیع الاول وہ دن تھا جب حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیهاوالہانہ استقبال کے ساتھ قم پہنچیں اور آپ کا ناقہ میدان میر پر ٹہر گیا اور اس طرح اشعریوں کے سردار موسی بن خزرج کو سترہ دن تک ایک امام کی بیٹی ایک امام کی بہن اور ایک امام کی پھوپھی کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا اور اس طرح آخر کار آپ دس ربیع الثانی ۲۰۱ ہجری کو رحلت فرما گئیں اور بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ قم والوں نے دو اجنبی افراد کے توسط سے آپ کو سپرد لحد کیا ۔(بحارالانوار ، ج 48، ص 290)
2۔ انسان کامل کے درجہ تک پہنچنا
انسان کا کمال ’’ولی اللہ‘‘ کے مقام و منزلت تک پہنچنے میں ہے اور یہ مقام عورت و مرد سے مخصوص نہیں ہے ، عظیم خواتین جیسے آسیہ ، مریم ، حضرت زہرا ، زینب کبریٰ، اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھن اجمعین کچھ ایسی ہی خاص خواتین میں سے ہیں جو یہ مقام و منزلت حاصل کرتے ہوئے مقام ولایت کی زینت بن گئیں(نسیم اندیشه، جوادی آملی، دفتر اول، ص84)
انسان کا کمال ہی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’’اصل‘‘ سے متصل کردے اور انسان کا اصل تک پہنچ پانا خود بینی کے ساتھ ہماہنگی نہیں رکھتا اسی لئے انسانی کمال کو ’’مقام فنا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، لہٰذا جو اپنی ذات کو چھوڑ دے اور خود کی فکر سے آزاد ہوجائے اور اپنے اصل کی معرفت میں لگ جائے اور اسکا مطیع و فرمانبردار بندہ بن جائے وہی کمال تک پہنچ سکتا ہے۔(مراحل اخلاق در قرآن، جوادی آملی، ص 93)
۳۔ اچھے نام کا انتخاب
’’فاطمہ‘‘ کے نام پر اہل بیت علیہم السلام کی خاص توجہ اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمائش ہےکہ اپنے بچوں کے لئے بہترین نام کا انتخاب کرو اسلئے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آپ کا نام ’’فاطمہ‘‘ انتخاب فرمایا، اگر تاریخ آئمہ علیہم السلام میں نام گذاری کی سیرت پر ایک سرسری نظرڈالی جائے تو ہمیں ہر ایک امام کی ایک یا کچھ بیٹیوں کے نام ’’ فاطمہ ‘‘ مل ہی جائیں گے۔(مهتاب اهل بیت، اسحاقی،ص 20)
امام رضا علیہ السلام نے اپنی بہن کو ’’معصومہ‘‘ کا لقب عنایت فرمایا جیسا کہ آپ کا فرمان ہے: ’’من زار المعصومه بقم کمن زارنی‘‘ ’’جس کسی نے معصومہ کی زیارت قم میں کی گویا ایسا ہی کے اس نے میری زیارت کی ہے‘‘(مهتاب اهل بیت، اسحاقی، ص 21 به نقل از بحارالانوار، ج 48، ص 317)
۴۔ بہترین زندگی (مظہر فضائل ، سرچشمۂ علم)
حضرت فاطمہ معصومه (س)نے ایک ایسے خاندان میں تربیت پائی جو علم و تقوا اور اخلاقی فضائل سے مالامال تھا ، آپکے والد گرامی کی شہادت کے بعد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند ارجمند یعنی امام رضا علیہ السلام اپنے بھائیوں اور بہنوں کی تعلیم و تربیت اور انکے اخرجات کے ذمہ دار ہوئے اسلئے آپ کی خاص توجہات کی بنا پر ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے سارے ہی بچے بلند و بالا مقام و منزلت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها ان عظیم اور جہان تشیع کی ایسی والامرتبت خواتین میں سے ایک ہیں جنکا مقام علمی بہت بلند ہے، منقول ہے کہ ایک دن شیعوں کا ایک گروہ حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے اور آپ سے اپنے کچھ سوالات پوچھنے کے لئے مدینہ منورہ آیا ، چونکہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سفر پر تھے اس لئے اپنے سوالات حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها جو کہ اس وقت ایک چھوٹی بچی تھیں سپرد کرکے دوسرے دن آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے چلے گئے وہ قافلے والے دوسرے دن امام کے گھر پر پہنچے لیکن پھر بھی امامؑ سفر سے واپس نہیں پلٹے تھے مایوس ہوکر انہوں نے اپنے سوالات مانگے تاکہ جب دوسری بار وہ زیارت کے لئے آئیں تو امام کی خدمت میں وہ سوالات پیش کرسکیں وہ اس بات سے غافل تھے کہ حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها نے انکے سوالات کے جوابات تحریر فرما دیئے ہیں لیکن جب انکی نظر جوابات پر پڑی تو قافلہ والے بہت خوش ہوئے اور شکریہ ادا کرتےہوئے مدینہ سے واپس چل پڑے ، حسن اتفاق کہ راستے میں ہی امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی انہوں نے ساری باتوں سے امام کو آگاہ کیا ، امامؑ نےجب سوالوں کے جوابات دیکھے تو تین بار ارشاد فرمایا ’’اس کا بابا اس پر قربان‘‘۔
۵۔ مطیع ولایت
آپ کی تمام دوسری صفات میں سے ولایت کی اطاعت اور فرمانبرداری سب سے زیادہ مشہور تھی ، امام رضا علیہ السلام ۵۲ سال کے تھے جب انہوں نے ایران کا سفر کیا اور اسکے صرف تین سال بعد ہی درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے ، امامؑ کے ایران میں ایک سال گزنے کے بعد سے ہی حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها بھائی کے فرمان پر ایران کی جانب روانہ ہونے پر فوراً آمادہ نظر آئیں ، آپ کے ساتھ آپ کے دوسرے سترہ بھائی ہونے کی باوجود صرف امام کے حکم کی تعمیل میں سفر کی زحمتیں برداشت کرتے ہوئے فوراً اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ آئیں جو اس بات کو روشن کرنے کے لئے کافی ہے کہ آپ کس قدر ولایت کی مطیعہ تھیں۔
۶۔اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک خواتین کی اہمیت
تاریخ و ادیان کے صفحات پلٹ کردیکھ لیجئے آپ کو ہر جگہ خواتین پر ظلم و ستم ہوتا مل جائے گا سوائے اسلام کےکیونکہ دین اسلام نے خواتین کے پورے حقوق انہیں عطا کئے ہیں اور انہیں دنیا کی بنائی ہر پستی سے نجات دی ہے جسکی ایک روشن حقیقت حضرت خدیجه، حضرت فاطمه، حضرت زینب، حضرت معصومه – علیهن السلام – کی ذات والا صفات ہیں جنکے مسلمان قصیدے پڑھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے عزت و احترام کرتے ہیں اور انکے سامنے اپنے احساسات کی داستان بیان کرتے ہیں اور اپنی اس روش سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مقامات عالیہ پر فائز ہونے کا معیار تقویٰ اور عمل صالح ہے جسمیں عورت و مرد سیاہ و سفید و۔۔۔۔ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها کی شہر قم میں نگینہ کی طرح موجود نورانی بارگاہ اور اسکے گردا گرد زائرین کا پروانوں کی طرح منڈراتا ہجوم اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ دین اسلام خواتین کی کس قدر بلند و بالا توقیر کا قائل ہےاور یہی عملی نمونہ ان لوگوں کے لئے دندان شکن جواب ہے جو یہ تہمت لگاتے نظر آتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
۷۔ حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها نے شادی کیوں نہیں کی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: "ما بُنِیَ فِی الْاِسْلامِ بَناءٌ اَحَبَ اِلَی اللهِ عَزَوَجَلَ، وَاَعَزَ مِنَ التَزویجِ‘‘ ’’اسلام میں اور بارگاہ خداوندی کے نزدیک کوئی رسم نہیں بنائی گئی جو کہ شادی کی رسم سے زیادہ عزیز تر اور محبوب تر ہو۔(وسایل الشیعه، ج 14، ص3)
اور یہ بھی فرمایا: "اَلنِکاحُ سُنَتِی، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَتِی فَلَیْسَ مِنِی‘‘
’’شادی کرنا میری سنت ہے اس لئے جو بھی میری سنت سے دوری اختیار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘(وسایل الشیعه، ج14، ص 7 و 8)
اس بنیاد پر اور سنت پیغمبر(ص) کو اساس مانتے ہوئے آپ کو شادی کرنا ہی چاہیئے تھی؛ جبکہ یقینی دستاویزات اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها نے شادی نہیں کی ، ایسی صورت میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ جب شادی مستحب مؤکد ہے تو حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها نے شادی کیوں نہیں کی؟ اس کی اہم ترین دلیل یہی ہے کہ آپ کا کوئی کفو نہیں تھا اور اس زمانے کے سیاسی حالات کی وجہ سے بھی آپ کی شادی میں بہت ہی زیادہ رکاوٹیں تھیں۔
نتیجہ:
آج کے دور میں جب کہ ہمارا معاشرہ اقتصادی ، دینی اور سیاسی دباؤ سے لرز رہا ہے یہی بہترین موقع ہے جب ہمیں دینی شخصیات سے لوگوں کو آشنا کرانا چاہیئے اور انکے سامنے ان عظیم شخصیات کا کردار پیش کرنا چاہیئے جسکی بہترین مثال حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها ہیں۔
مرضیه مردانی، کارشناس ارشد فلسفه