زہد اور نہج البلاغہ
زہد اور نہج البلاغہ
مکتب نہج البلاغہ میں مال و متاع اور مقام کی لمبی لمبی آرزو کرنا جسمانی لذتوں اور ہوای نفسانی کی خاطر دنیا سے وابستہ رہنے کی مذمت کی گئی ہے اور جس زہد سے مکتب اسلام اور نہج البلاغہ میں تمجید و تعریف کی گئی ہے وہ مسیحیت کی رہبانیت یا صوفیوں کی طرح گوشہ نشینی نہیں ہے کیونکہ ایسا زہد ترک دنیا اور معاشرے سے دوری اختیا ر کرنے اور اپنے روز مرہ کے کام و کاج سے دستبردار ہو نے کے مرادف ہے جسے اسلام ہرگز پسند نہیں کر تا ہے.
نہج البلاغہ کے مکتب اخلاق سے پروان چڑھا ہوانسان باوجود اسکے کہ ناپائدار اور فانی دنیا کا عاشق نہیں ہو تا اور مادی دنیا کا اس پہ تأثیر نہیں پڑتا بلکہ کبھی بھی اپنی کوشش،جدو جہد اور روز مرہ کی کا م سے ہا تھ نہیں کھینچتا بلکہ اپنی انفرادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی امور کو انجام دینے سے غافل نہیں رہتا اس دنیا میںرہ کر اپنے حصے کو فرامو ش نہیں کر تابلکہ اس مادی دنیا کو وسیلہ قرار دے کے اپنی آخرت کو سنوار تا ہے یوں تو نہج البلاغہ زہد حقیقی کی مدح وثنا سے بھرا پڑا ہے لیکن یہاں اختصا ر کے ساتھ چند اقوال پہ اکتفا کرتے ہیںامام الزاہدیں فرماتے ہیں:
الف۔’ اے لوگو!زہد امیدوں کو کم کونے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کر نے اور محرمات سے پرہیز کر نے کا نام ہے اب اگر یہ کا م تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرنا کہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کا فراموش نہ کر دینا کہ پر ور دگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کر نے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کر دیا ہے ‘(خطبہ٨١ )
ب۔ امام علی عليه السلام زاہدوں کی کچھ اسطرح توصیف کر تے ہیں : ‘یہ۔زاہدین۔ انہی دنیا والوں میںسے تھے اہل دنیا نہیں تھے ۔ایسے تھے جیسے اس دنیا کے نہ ہوں دیکھ بال کر عمل کیا اور خطرات سے آگے نکل گئے ۔گویا انکے بدن اہل آخرت کے درمیان کروٹیں بدل رہے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل دنیا انکی موت کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ وہ خود ان زندوں کے دلوں کی موت کو زیادہ بڑا حادثہ قرار دے رہے ہیں'(خطبہ٢٣٠)
ج۔دوسری جگہ فرماتے ہیں:”الزھد کلہ بین کلمتین فی القرآن ۔لکیلاتأسو ا علی ما فا تکم ولا تفرحوا علی ما آتا کم ۔”(حکمت٤٣٩)
‘زہد کا مفہوم خدا وند عالم کے ان دو جملوں میں تما م ہو تاہے جو قرآن مجید میں آیا ہے ۔ہرگز اس چیز پہ افسوس مت کرنا جو تمہا رے ہا تھ سے نکل جائے اور جو کچھ تمہیں ملے اس پر خوشحال نہ ہو نا ۔’
پس ان بیانا ت سے یہ با ت صاف ظاہر ہو تی ہے کہ ایک حقیقی زاہد اپنی زندگی میں معتدل ہے وہ دنیا میں رہ کربھی نہ ہی دنیا وی ذمہ داریوں کو بھول جا تا ہے اور نہ آخرت سے غفلت برتتا ہے اور اسے حزن و ملال اور خوشحالی یا د خدا سے غافل نہیں کر تی اگر آج کا انسان اس معنی میں زاہد بنے کبھی بھی اسکی زندگی میں اختلال پیدا نہیں ہو گا آج کے دور میں یہ لوٹ ،مار ،چوری ،ڈکیٹی حتی ایک فرد کی لوٹ مار سے لیکر ملکوں کے ما بین کا ٹکراؤ بھی اسی کا نتیجہ ہے کہ زہد ان زندگی کے کسی بھی پہلوں میں داخل نہیں ہوا ہے آج کے انسان کو چاہیے کہ اس زہد کے لباس کو زیب تن کرے تاکہ ایک اطمئنان بخش زندگی پا سکے.