مقالات

حلم اور بردباری نہج البلاغہ کی نظر میں

حلم اور بردباری نہج البلاغہ کی نظر میں

مکتب نہج البلاغہ کی اخلاقیات کی فہرست میں حلم اور بردباری کی بہت تعریف کی گئی ہے گو اسے ایک انسان کی پہچان بتایا گیا ہے حلم اور بردباری سے کام لینے والے کو اچھے اور با اخلاق آدمی سے تعبیر کی گئی ہے اور اسے انفرادی اور اجتماعی کاموں میں کامیابی کا راز بتایا گیا ہے امام علی میں فرماتے ہیں :الف۔”اول عوض الحلیم من حلمہ ان النا س انصارہ علی الجاھل” (حکمت )

‘صبر کرنے والے کا اسکی قوت بر داشت پر پہلا اجر یہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلے میں اسکے مدد گار ہو جاتے ہیں ‘

ب۔ ‘‘ان لم تکن حلیما فتحلم، فانہ قل من تشبہ بقوم الا او شک ان یکون منھم” (حکمت ٢٠٧)

‘اگر تم واقعا برد بار نہیں بھی ہو تو بردباری کا اظہار کرو بہت کم ایسا ہو تا ہے کہ کسی قوم کی شباہت اختیا ر کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے ‘

ج ۔‘ امام سے پو چھا گیا نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نیکی یہ نہیں ہے کہ آپ کی اولاد اور ثروت زیادہ ہو جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ آپ کا علم زیادہ ہو آپ کا حلم بڑ ھ جائے اپنے پر ور دگار کی بندگی کی وجہ سے لو گو ں پہ مباھات کرو پس اگر نیکی کی خدا شکر کرو اور اگر بدی کی خدا کی بارگاہ میں استغفار کرو ‘(حکمت ٩٤)

د ۔ ‘حلم اور بردباری ایک چھپانے والا پردہ ہے اورعقل کاٹنے والی شمشیر ۔ پس اپنے عیوب کو بردباری سے چھپاؤ اور اپنی ھوای نفس کوعقل سے قتل کرو'(حکمت٤٢٤)

اور بھی بہت سارے اقوال زریں اس اخلاقی صفت کے متعلق امام علی سے صادر ہوئیں ہیں اختصا ر کے لئے یہاں پہ ان ہی چند نمو نوں پہ اکتفا کر تے ہیں پس حلم اور برد باری انسان کے لئے دوستی سازی کام کرتی ہے اسکے عیوب چھپا تی ہے اور سب سے بڑی نیکی مانی جاتی ہے مکتب نہج البلاغہ مکتب اخلاق ہے جو انسان کو حلم کے زیور میں آراستہ دیکھنا چاہتا ہے آج کے معاشرے میں اس زیور کی کمی ہے آج کے دور میں اس حلم اور بردباری کے فقدان کی وجہ سے بنی نوع انسان ایک دوسرے کا دشمن بنے ہوئے ہیں ایک دوسرے کا مزاق اڑاتے ہیں ایک دوسرے کی تباہی اور بربادی کے اسباب فراہم کرتے ہیں یہ صرف اسی لئے ہو رہا ہے کیونکہ وہ حلم اور بردباری کا دامن کہیں دور چھوڑ چکے ہیں اب بھی مو قع ہے انسان کو مکتب نہج البلاغہ کی اخلاقی روشنی میں آکر اپنے آپ کو ظلمت اور جہالت کے دلدل سے نجات دلانا چاہیے اپنے آپ کو حلیم بنانا چاہیے یا حد اقل حلم اور بردبار انسانوں کے مثل بنانا چاہیے.

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button