قناعت نہج البلاغہ کی نظر میں
قناعت
قناعت یعنی انسان جس حال میں ہے اس سے راضی ہو خدا کی طرف سے مقرر کے گئے رزق و روزی پہ ہر حال میں راضی اور خوشنود ہو مکتب نہج البلاغہ قناعت کے مجسمے کے نورانی کلمات سے منور ہے امام علی اخلاقیا ت کے اس حصہ کو زندگی کے ہر پہلو میں اجاگر کر نے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الف۔”القناعة مال لا تنفد”(حکمت٥٤) ‘قناعت ایک ایسا مال ہے جو کبھی ختم نہیں ہو تا ہے’
ب۔”اذا لم یکن ما ترید فلا تبل کیف کنت ”(حکمت٦٦) ‘جب تم اپنی من پسند چیز کو نہ پاؤ گے تو جس حالت میں ہو اسے مت ڈرو’
ج۔’‘کفی بالقناعة ملکا بحسن الخلق نعیما و سئل علیہ السلام عن قول اللہ عز وجل فلنحیینہ حیٰوة طیبة فقال ھی القناعة ”(حکمت٢٢١)
‘ قناعت سے انسان حاکم بنتا ہے اور حسن خلق سے نعمتوں میں زندگی بسر کر تا ہے امام سے خدا وند عالم کے اس قول کے بارے میں پوچھا گیا ۔پس ضرور میں اسے پاک و پاکیزہ حیات دو ں گا۔ آ پ نے فرمایا :پاک و پاکیزہ زندگی قناعت ہے ‘
د۔’قناعت سے زیادہ مالدار کوئی خزانہ نہیں ہے اور اس سے بہتر کو ئی ثروت نہیں ہے کہ انسان کو جو کچھ بھی ملے اس پہ راضی ہو جائے اور جو جتنے پہ راضی ہو ا سائش اور راحت میں ہمیشہ رہے گا’
جی ہاں قناعت انسان کو سکون اور آرامش عطاکرتی ہے کتنے ہی مالدار لوگ پائے جاتے ہیں جو سکون قلب سے محروم ہیں اور سکوں حاصل کر نے کے لئے انہیں ہروقت ڈاکٹروں کی ضرورت پڑ تی ہے قناعت انسان کو برے صفات سے اور برے کامو ں کو انجام دینے سے بچاتی ہے کیو نکہ وہ ہر حال میں راضی ہو تا ہے اس لئے کھبی بھی فساد کی طرف نہیں کھنچتا اسکے بر عکس جو اس صفت سے محروم ہو وہ ہر وقت نہ ہونے یا کم ہونے پہ کف افسوس ملتا ہے اسی لئے برائی اور فساد کی طرف بڑھتا جا تا ہے اس کی زندہ مثال آج کا انسان ہے جو اتنا سب کچھ ہو نے کے با وجود بھی نا شکری اور رنج وملال کی زندگی بسرکرکے برائی اور فساد کے دلدل میں دھنس چکا ہے ایک دوسرے کے حریم کا لحاظ کئے بغیر مال و دولت حتی ایک دوسرے کے ناموس کا تجاوز کرکے اپنے آپ کو سعادت حقیقی سے کوسوں دور چھوڑ چکا ہے کتنا اچھا ہو تا اگر انسان مکتب نہج البلاغہ کے اخلاقیات کی اس صفت کی حقیقت اور ہدف کو سمجھ کے اپنی زندگی کی ہر میدان میں عملی جامہ پہناتا تو آج پو رے عالم کی یہ حالت نہ ہو تی جو آج پائی جاتی ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا ملکہ اپنے نفس کے اندر پیدا کرے تاکہ انسانیت کے حریم سے کبھی خارج نہ ہو نے پائے .