قرآن، حقیقی نور
قرآن، حقیقی نور
خداوند متعال کی تجلی کا ایک مظہر نور ہے۔ خداوند تعالی اپنے کو نور سے تشبیہ دیتا ہے اور فرماتا ہے: (أَللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ) (سورہ نور، آیت 35) خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ خداوند متعال کے نور وجود کی تجلی اور چھوٹ ہے کہ جس سے زمین و آسمان اور
مخلوقات کی خلقت ہوئی ہے۔ عنایت خدا کی برکت ہے کہ عالم وجود قائم و ثابت ہے اور فیض وجود، ہمیشہ اور مسلسل منبع جود کی جانب سے موجودات پر جاری و ساری ہے نتیجہ میں موجودات و مخلوقات اپنی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کبھی کبھی کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نور ہی کے پرتو میں انسان راستے کو پیدا کرتا ہے، سرگردانی اور بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ بری اور نقصان دہ گمراہی، راہ زندگی کی ضلالت و گمراہی اور انسان کی سعادت کا خطرے میں پڑنا ہے، اس لئے حقیقی اور واقعی نور وہ ہے جو کہ انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دے اور انسانی کمال کے صحیح راستے کو ان کے لئے روشن کرے تاکہ سعادت و تکامل کے راستے کو سقوط و ضلالت کے راستوں سے تمیز دے سکیں۔ اسی بنیاد پر خداوند متعال نے قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: (قَدجَائَکُم مِنَ اللّٰہِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) یقینا تمھارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کر کے راہ سعادت کو شقاوت سے جدا کرسکو۔ اب چونکہ بحث کا موضوع ”قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں” ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں وارد شدہ آیات کی تفسیر و توضیح سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت علی کے بیان کی توضیح کرتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی ـ خطبہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی توصیف کے بعد قرآن کریم کا وصف بیان فرماتے ہیں: ”ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیْحُهَ وَ سِرَاجاً لایَخْبُو تَوَقُّدُهُ وَ بَحْراً لایُدْرَکُ قَعْرُهُ” (خطبه 198) پھر خداوند متعال نے اپنے پیغمبر پر قرآن کو ایک نور کی صورت میں نازل فرمایا کہ جس کی قندیلیں کبھی بجھ نہیں سکتیں، اور ایسے چراغ کے مانند کہ جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور ایسے سمندر کے مانند جس کی تھاہ مل نہیں سکتی۔
حضرت علی ـ اس خطبہ میں وصف قرآن کے متعلق پہلے تین نہایت خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو قرآن کی عظمت سے آشنا کریں اور ان کی توجہ اس عظیم الٰہی سرمایہ کی طرف جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں۔
پہلے حضرت علی ـ قرآن کی توصیف نور کے ذریعہ فرماتے ہیں: ”أَنْزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیحُهُ” خداوند تعالی نے قرآن کو اس حال میں کہ نور ہے، پیغمبر پر نازل فرمایا، لیکن یہ نور تمام نوروں سے مختلف ہے۔
یہ حقیقت (قرآن کریم) ایک ایسا نور ہے کہ جس کی قندیلیں ہرگز خاموش نہیں ہوسکتیں اور ان کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔
منبع: قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں/ مولف : آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ