آئینہ نہج البلاغہ کا جو دیکھا غور سے
دیکھیے نہج البلاغہ میں جھلک قرآن کی
ہیں دلائل اِس میں سب اللہ کے برہان کی
کیا حقیقت ہے بھلا اُس شخص کے ایمان کی
جس کے دل میں ہو مودت نہ اگر عمران کی
خانہءِ کعبہ کی طرح، جب سے آئے ہیں علی
حسرتیں سب مِٹ چُکی ہیں اِس دلِ ویران کی
پہلے ہی خطبے کو پڑھ کر کہتا ہے حیدر کو رب
اے نصیری، اِتنی کمزوری تِرے ایمان کی؟
ہے لسان اللہ کا یہ نطق، تو اِس رُخ سے ہی
دیکھیے نہج البلاغہ میں جھلک قرآن کی
ہیں جھلکتے جس طرح حیدر میں اوصافِ خدا
دیکھیے نہج البلاغہ میں جھلک قرآن کی
مصحفِ حق ہے وہ گَر تو مصحفِ حیدر ہے یہ
بات ہے اِن کو سمجھنے قوّتِ اذہان کی
آئیں گے اِس میں نظر توحید کے سب خال و خد
بات ہے پہچاننے میں ظرف اور ایمان کی
رفعتیں اِس میں بلاغت کی ہوئیں یک جا سبھی
اِس لیے پڑھ کر اِسے وسعت بڑھی وجدان کی
جاں غریبوں کو رسائی نہ مِلے اے دوستو
خود علی نے کی مذمّت ایسے دسترخوان کی
خود اکٹھا ہو گئے سُننے کو سب اعلی وقار
بات چھیڑی جس گھڑی میں نے شہِ ذیشان کی
ہل اتیٰ کو یہ عطا کرتے ہیں مفہومِ عطا
بات ہے یہ آلِ پیغمبر تِرے احسان کی
دیکھ کر جنبش لبوں کی برسرِ بزمِ ثنا
ہم نے مومن اور منافق میں یوں ہی پہچان کی
میرے مولا، تب سے سورج ہے نکلتا فخر سے
مِل گئی جب روشنی تیرے رُخِ تابان کی
میرے گُن گانے لگے لب میثمِ تمار کے
جس گھڑی میں نے بیاں مولا علی کی شان کی
چاہے وہ تختِ حکومت ہو یا میدانِ وغا
ہر جگہ معراج دیکھی عدل کے میزان کی
آئینہ نہج البلاغہ کا جو دیکھا غور سے
تب سمجھ آنے لگیں باتیں مجھے قرآن کی
خالقِ نہج البلاغہ، ہوتا نہ قرآں اگر
تو تلاوت لوگ کرتے آپ کے فرمان کی
جب بِچا فرشِ عزا، دربانِ جنّت آگیا
کر رہا ہے وہ حفاظت اب مِرے دالان کی
مصحفِ حیدر کو جو چشمِ بصیرت سے پڑھا
یوں لگا معراج جیسے ہو گئی عرفان کی
مصحفِ حق مصحفِ حیدر میں فرق اِتنا سا ہے
ایک ہے تحریرِ بندہ اور اک رحمان کی
یا علی قربان جاؤں میں تجارت پر تِری
ایک شب میں سب خریدیں مرضیاں یزدان کی
ہو گیا قرآنِ ناطق کا بھی جب اُس میں نزول
ہو گئی رونق دوبالا پھر مہِ رمضان کی
نفس اپنا بیچ کر حیدر نے پایا ہے اُسے
بڑھ چکی ہے کتنی قیمت مرضیِ یزدان کی
بابِ شہرِ عِلم نے کھولے ہیں یوں بابِ نجات
ہو گئی آساں رسائی رب تلک انسان کی
والقلم تفسیر تیری تب سمجھ آنے لگی
خود پڑھی تحریر میں نے جب شہِ ذیشان کی
کیوں بشر رد کر رہا ہے تُو ولائے مرتضیٰ
بار بار آیات ہے کہتی سورہِ رحمان کی
مدحِ مولا میں عطا میثم اُنہی کی چاہیے
ورنہ تو اِتنی کہاں اوقات ہے انسان کی
(سید میثم علی مہدی)