نہج البلاغہ در آئینہ اشعار
اَےکتاب علم وحکمت اَے بلاغت کی سبیل
اَےکتاب علم وحکمت، اَے بلاغت کی سبیل | ہے فروغ چہرا معنی تَرانقش جمیل |
باده توحید سے لبریز ہے تیرا با غ | جلوہ گر افکار میں تیرے رسالت کا دماغ |
رشحہ الهام ہے ہر نقطہ زیبا تَرا | ہے زلال وحی کا ساغر تَرا ہر دائره |
روشنائی میں تری با تجلّى موجزن | ہے تری ہر سطر تسبیح ذوالمنن |
توادب کی جان ہے تو فلسفہ کا تاج ہے | نقش پائے فکر تیرا غیرکی معراج ہے |
دولت ایماں ہے تو مسلم کا سرمایہ ہے تو باب شہر علم کی جنسِ گراں مایہ ہے تو |
|
آج بھی ہے تازہ و رنگیں ترے معنی کا باغ | دہرَ کے حکمت کدے میں تو ہے اک روشن چراغ |
تیرے استدلال کی تیشوں سے باطل دلفگار | صحن قرآن تیری تشریحات سے ہے پْربہار |
خرمنِ الحادپر تیری شعاعیں قہر ریز | کفر و بدعت سے ہے تجھ کو دعوت روم دستیز |
ہیں عدد کے واسطے تیرے اشارے ذوالفقار | حیدری ضربت کا آئینہ ترے فقروں کا وار |
دیو باطل کیلئے تو آتشیں صَمصام ہے فتنہ تثلیث تجھ سے لرزہ براندام ہے |
|
تیری تشریحات ہیں روشنگرِ حق و صواب | چہرہ ادہام سے تو نے الٹ دی ہے نقاب |
دفتر صد حکمت و معنی ہے تیرا ہر وَرق | تجھ سے سیکھا ہے زمانے نے سیاست کا سبق |
دانش آموزِ خرد ہیں تیرے اَمثال و حِکَمْ | تیرے جملوں میں ہے نبضِ زندگی کا زیر و بم |
ہے تصوف مست تیرے ساغر گلفام کا | ہے ترا مرہونِ منت فلسفہ اسلام کا |
اَفصحانِ دہر سر دُھنتے ہیں تیرے ساز پر | خَیمہ زَن تیری بلاغت سرحدِ اعجاز پر |
شِقشِقَہ تیرے بیاں میں اَخطب اسلام کا | ہَمہَمہ زورِ خطابت میں ترے ضرغام کا |
آج بھی ہے عصرِ نو محتاج پانی کا ترے اب بھی طغیانی پہ ہے دریا معانی کا ترے قیصر امروہوی |