آداب عزاداری فرزند رسول خدا (ص)، سیّد الشہداء امام حسین ع
ہم عزاداروں کی خدمت میں چند آداب عزاداری امام حسین (ع) کو ذکر کرتے ہیں۔ امید ہے تمام مؤمنین عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھیں گے انشاء اللہ تعالی:
عزاداری کے اصول و آداب:
کسی بھی عمل سے اس کے مطلوب اور مقررہ نتائج حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس عمل کو اس کے متعین قواعد و آداب کے ساتھ انجام دیا جائے۔
ظاہر ہے کہ عزاداری سید الشہداء بھی جب تمام اعمال سے افضل ہے تو، اسکو بھی اس اصول و قانون سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا عزاداری سے بھی اس کے مطلوب نتائج حاصل کرنے کے لیے اس کے دوران بعض اصول و آداب کی پابندی لازم ہے۔ یہ اصول و آداب کیا ہیں ؟ انہیں کہاں سے اخذ کیا جائے ؟ اس مسئلے پر غور و فکر کہ بعد ہم تین ایسے مصادر کا تعین کر پائے ہیں جن سے عزاداری منانے کے اصول و قواعد اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تین مصادر ہمیں عزاداری کے ذریعے پیش کیے جانے والے مضمون ، اس کے منانے کے انداز و کیفیت اور اس کے مراسم کی درستگی کی حدود سے روشناس کرتے ہیں۔ یہ مصادر درج ذیل ہیں۔
1۔ حسین ابن علی (ع) کی تحریک کے مقاصد ،
2۔ عزاداری کے بارے مین آئمہ اطہار (ع) کی ہدایات ،
3۔ عزاداری کے مراسم کے بارے میں علماء کرام کی ہدایات و نصائح۔
آئیے اس حوالے سے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔
1۔ حسین ابن علی (ع) کی تحریک کے مقاصد:
سید الشہداء کے فرض منصبی کو ملحوظ رکھا جائے ، آپ کی تحریک کا واقعاتی جائزہ لیا جائے اور اس تحریک کے دوران آپ کے فرامین، مکتوبات اور اقدامات کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام حسین کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لیے تھی۔
امام حسین بنی امیہ کے غصبی و مکارانہ اقتدار کے نتیجے میں شریعت کی پامالی ، حدود الہی کے تعطل اور عوام کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ (ع) دیکھ رہے تھے کہ امت کا اقتدار یزید جیسے فاسق ، فاجر ، شرابی اور زانی شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے، امت کے امور ایک ایسے شخص کے سپرد کر دیئے گئے ہیں کہ جو کسی بھی طرح سے اس عہدے کا اہل نہیں اور بیعت کے ذریعے اس کے اقتدار کی تصدیق در اصل اسلام کی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس صورتحال پر خاموشی بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ لہذا امام حسین نے یزید کے خلاف تحریک شروع کی اور اپنی حکمت عملی سے اسلام کو نابودی کے خطرے سے نجات دلائی۔
2۔ عزاداری کے بارے میں آئمہ اطہار (ع) کی ہدایات:
روایات سے ظاہر ہے آئمہ معصومین اپنے اصحاب اور ماننے والوں کو عاشورہ محرم غم و اندوہ ، حزن و ملال کے ساتھ گزارنے کی ہدایت کرتے تھے ، مصائب کربلا کے بیان اور انہیں سن کر اشک فشانی کی تاکید کرتے تھے ، ان ایام میں ابا عبد اللہ الحسین کے مصائب کے بیان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ آئمہ اطہار اپنے گھروں میں ان مصائب کو سننے، سنانے کا اہتمام کرتے، یہ مصائب سن کر آنسو بہاتے اور اس اشک فشانی پر انتہائی اجر و ثواب اور آخرت میں نجات کی نوید بھی دیتے تھے۔
3۔ عزاداری کے مراسم کے بارے میں علماء کرام کی ہدایات و نصائح:
علمائے امامیہ ایام عزا کے خصوصی اہتمام کے ساتھ ساتھ عزاداری کی رسوم کو غیر شرعی امور اور نامناسب اخراجات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔ لہذا ان علماء نے عزاداری میں صرف ان امور کی شمولیت کو جائز قرار دیا ہے کہ جن سے کسی قسم کے ضرر اور نقصان کا خوف نہ ہو، یعنی وہ مذہب کے لیے نقصان دہ نہ ہوں اور جن پر عزاداری کا عنوان صادق آتا ہو، یعنی وہ اظہار غم و اندوہ کے منافی نہ ہو۔ اسی طرح یہ امور مذہب کے تمسخر کا موجب بھی نہ ہوں، یعنی انہیں دیکھ کر لوگوں کو مذہب کا مذاق اڑانے کا موقع نہ ملے ، نیز مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کا سبب نہ ہوں۔
حتی علماء نے ایسے مباح امور کو انجام دینے سے بھی اجتناب کی تاکید کی ہے جنہیں دیکھ کر مخالفوں کو خوامخواہ سوال و اعتراض اٹھانے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا موقع ملے۔
اس تین مصادر کی روشنی میں جو اصول وضع کیے جا سکتے ہیں ، وہ یہ ہیں اور ان پر شدید توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے:
1- عزاداری پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو۔ اس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والے پر غم و اندوہ کا تاثر پیدا کریں۔ تا کہ ایک طرف اس کے ذریعے اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیت (ع) کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔
2- عزاداری محض غم کی داستان کا بیان نہیں بلکہ اس کا پیغام مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لہذا اس کے دوران ، خطیبوں و ذاکرین کی تقاریر اور شعراء کے کلام میں حسین ابن علی (ع) ان کے اصحاب ، اہل حرم کے مصائب کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی ترویج اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات و مسائل کے بارے میں بھی گفتگو ہو۔
تقاریر اور اشعار ایسے مواد پر مشتمل ہوں جو عزاداروں کو وقت کے حسین اور دور حاضر کے یزید کی پہچان کرائیں، نہ صرف پہچان کرائیں، بلکہ انہیں اس حسین کی مدد نصرت اور اس یزید کی مخالفت پر کمر بستہ بھی کریں۔ عزاداری کا بنیادی اور اصل مقصد بھی یہی ہے۔ حسین ابن علی (ع) اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے کہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کے امور و معاملات سے کسی طور غافل اور لا تعلق نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رحجانات اور ان کے خلاف ہونے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔
3- عزاداری کے اجتماعات اور رسموں میں شرعی اصول اور دینی اقدار پیش نظر رہیں۔ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو احکام دینی کے خلاف اور ان سے متصادم ہو، دین کو کمزور کرنے والا ہو، مسلمانوں میں انتشار و افتراق پھیلانے کا موجب ہو، اور ہمارے مذہب کو تماشا بناتا ہو۔