وثاقتِ نقل سیّد رضیؒ
نہج البلاغہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے کلام کا وہ مشہور ترین مجموعہ ہے جسے جناب سیّد رضیؒ برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا۔ اس کے بعد پانچویں صدی کے پہلے عشرہ میں آپ کا ا نتقال ہو گیا ہے اور نہج البلاغہ کے انداز تحریر سے پتہ یہ چلتا ہے کہ انہوں نے طویل جستجو کے ساتھ درمیان میں خالی اوراق چھوڑ کر امیر المومنین کے کلام کو متفرق مقامات سے یکجا کیا تھا،
جس میں ایک طویل مدت انہیں صرف ہوئی ہو گی اور اس میں اضافہ کا سلسلہ ان کے آخر عمر تک قائم رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ بعض کلام جو کتاب کے یکجا ہونے کے بعد ملا ہے، اس کو تعجیل میں انہوں نے اس مقام کی تلاش کئے بغیر جہاں اسے درج ہونا چاہیے تھا، کسی اور مقام پر شامل کردیا ہے اور وہاں پریہ لکھ دیا ہے کہ یہ کلام کسی اور روایت کے مطابق اس کے پہلے کہیں پر درج ہوا ہے۔ یہ اندازِ جمع وتالیف خود ایک غیر جانبدار شخص کیلئے یہ پتہ دینے کے واسطے کافی ہے کہ اس میں خود سیّد رضیؒ کے ملکہ انشاء اورقوت تحریر کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ انہوں نے صرف مختلف مقامات سے جمع آوری کرکے امیر المومنین کے کلام کو یکجا کردینے پراکتفا کی ہے۔ یہ پاشانی اور پریشانی جسے بحیثیت تالیف کے کتاب کا ایک نقص سمجھنا چاہیے، مقام اعتبار میں اس پر اعتماد پیدا کرنے والا ایک جوہر ہو گیا ہے۔ انہوں نے مختلف نسخوں اورمختلف راویوں کی یادداشت کے مطابق نقل الفاظ میں اتنی احتیاط کی ہے کہ بعض وقت دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہوجاتا ہے کہ اس عبارت کے نقل کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا جبکہ ابھی ابھی ہم ایسی ہی عبارت پڑھ چکے ہیں۔ جیسے ’’ذم اہل بصرہ‘‘ میں اس شہر کی غرقابی کے تذکرے میں اس کی مسجد کا نقشہ کھینچنے میں مختلف عبارات کبھی: ’’نَعَامَۃٍ جَاثِمَۃٍ‘‘ اورکبھی ’’كَجُؤْجُؤِ طَیْرٍ فِیْ لُجَّۃِ بَحْرٍ‘‘ اور اس سے ملتے جلتے ہوئے اور الفاظ، یہ اسی طرح کا اہتمام صحت نقل میں ہے۔
جیسے موجودہ زمانہ میں اکثر کتابوں کی عکسی تصویر شائع کی جاتی ہے جس میں اغلاط کتابت تک کی اصلاح نہیں کی جاتی اور صرف حاشیہ پر لکھ دیا جاتاہے کہ بظاہر یہ لفظ غلط ہے، صحیح اس طرح ہونا چاہیے۔ دیکھنے والے کا دل تو ایسے مقام پر یہ چاہتا ہے کہ اصل عبارت ہی میں غلط کو کاٹ کر صحیح لفظ لکھ دی گئی ہوتی، مگر صحت نقل کے اظہار کیلئے یہ صورت اختیار کی جایا کرتی ہے، جیسے قرآن مجید میں بعض جگہ تالیف عثمانی کے کاتب نے جو کتابت کی غلطیاں کردی تھیں جیسے ’’لَا اَ ذبْحَنَّہٗ‘‘ میں ’’لا‘‘ کے بعد ایک الف جویقینا ًغلط ہے، اس لئے کہ یہ ’’لائے نافیہ‘‘ نہیں،جس کے بعد ’’اَذْبَحَنَّہٗ‘‘ فعل آئے ، بلکہ ’’لام تاکید‘‘ ہے جس سے ’’اَذْبَحَنَّہٗ‘‘ فعل متصل ہے، مگر اس قسم کے اغلاط کو بھی دور کرنا بعد کے مسلمانوں نے صحت نقل کے خلاف سمجھا۔ اسی طرح اِملائے قرآن گویا ایک تعبدی شکل سے معین ہو گیا۔ بعض جگہ ’’رحمۃ‘‘ کی ’’ت‘‘ لمبی لکھی جاتی ہے، بعض جگہ ’’جنّٰت‘‘ بغیر الف کے لکھا جاتا ہے ۔ بعض جگہ ’’یدعو‘‘ ایسے فعل واحد میں بھی وہ ’’الف‘‘ لکھا ہوا ہے کہ جو جمع کے بعد غیر ملفوظی ہونے کے باوجود لکھا جایا کرتا ہے۔ ان سب خصوصیات کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے، جس سے مقصود وثاقتِ نقل میں قوت پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح علامہ سیّد رضیؒ نے جس شکل میں جو فقرہ دیکھا اس کو د رج کرنا ضروری سمجھا تاکہ کسی قسم کا تصرف کلام میں ہونے نہ پائے۔ یہ ایک درایتی پہلو ہے جو اس تصور کو بالکل ختم کردیتا ہے کہ یہ کتاب سیّد رضیؒ رحمہ اللہ کی تصنیف کی حیثیت رکھتی ہو۔
اخذ از مقدمہ نہج البلاغہ حجۃ الاسلام سیّد العلماء مولانا سیّد علی نقی صاحب قبلہ مد ظلّہٗ