روزے کا فلسفہ
روزے کا فلسفہ
یاأیّھاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون.
ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تاکہ شاید اس طرح تم متّقی بن جاؤ.
عزیزان گرامی!جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند متعال نے روزے کا فلسفہ تقوٰی کو قرار دیاهے یعنی روزہ تم پر اس لئے واجب قرار دیا تا کہ تم متقی بن سکو، پرہیز گار بن سکو.اور پھر روایات میں اسے روح ایمان کہا گیا .امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
(( من أفطر یوما من شھر رمضان خرج روح الایمان منہ))
جس شخص نے ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا اس سے روح ایمان نکل گئی .
یعنی روزے کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کا پتہ اسی فرمان سے چل جاتا هے کہ
روزے کے واجب قرار دینے کا مقصد ایمان کو بچانا هے اوراسی ایمان کو بچانے والی طاقت کا دوسرا نام تقوٰی هے جسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٣ میں روزے کا فلسفہ بیان کیا گیا.
تو یہ تقوٰی کیا هے جسے پروردگار عالم نے روزے کا فلسفہ اور اس کا مقصد قرار دیا هے ؟ روایات میں تقوٰی کی تعریف میں تین چیزیں بیان هوئی ہیں :
١۔ اطاعت پروردگار ٢۔ گناهوں سے اجتناب
٣۔ ترک دنیا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
(( علیک بتقوی اللہ فانّہ رأس الأمر کلّہ))
تمہارے لئے تقوٰی ضروری هے اس لئے کہ ہر کام کا سرمایہ یہی تقوٰی هے .
حقیقت یہ هے کہ ایسا روزہ جو انسان کو گناهوں سے نہ بچاسکے اسے بھوک و پیاس کا نام تو دیا جاسکتا هے مگر روزہ نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ روزہ کا مقصد اور اس کا جو فلسفہ هے اگر وہ حاصل نہ هو تو اس کا معنی یہ هے کہ جس روزہ کا حکم دیا گیا تھا ہم نے وہ نہیں رکھا ، بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی کا روزہ هے جبکہ خدا ایسی عبادت کو پسند ہی نہیں کرتا جو انسان خداکی اطاعت کے بجائے اپنی مرضی سے بجا لائے ورنہ شیطان کو بارگاہ ربّ العزّت سے نکالے جانے کا کوئی جواز ہی رہتا چونکہ اس نے عبادت سے تو انکار نہیں کیا تھا .حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : (( قلت یا رسول اللہ ! ما افضل الأعمال فی ھذا الشھر ؟ فقال یا ابا الحسن أفضل الأعمال فی ھذا الشّھر ، ألورع من محارم اللہ ۔عزّوجلّ۔.))
امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا: یارسول اللہ !اس مہینہ میں کونسا عمل افضل هے ؟ فرمایا : اے ابوالحسن ! اس ماہ میں افضل ترین عمل گناهوں سے پرہیز یعنی تقوٰی الھی هے.
نیز مولائے کائنات فرماتے ہیں:
(( علیکم فی شھر رمضان بکثرة الاستغفار و الدّعا فأمّا الدّعا فیدفع بہ عنکم البلاء و أمّا الاستغفار فیمحٰی ذنوبکم))
ماہ رمضان میں کثرت کے ساتھ دعا اور استغفار کرو اس لئے کہ دعا تم سے بلاؤں کو دور کرتی هے اور استغفار تمھارے گناهوں کے مٹانے کا باعث بنتا هے .
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (( من صام شھر رمضان فاجتنب فیہ الحرام والبھتان رضی اللہ عنہ و أوجب لہ الجنان) )
جو شخص ماہ رمضان کاروزہ رکھے اور حرام کاموں اوربہتان سے بچے تو خدا اس سے راضی اور اس پر جنّت کو واجب کردیتا هے .
اور پھر ایک دوسری روایت میں فرمایا : ((انّ الجنّة مشتاقة الی أربعة نفر : ١۔ الی مطعم الجیعان . ٢۔ وحافظ اللّسان. ٣۔ و تالی القرآن . ٤۔ وصائم شھر رمضان.
جنّت چار لوگوں کی مشتاق هے:
١۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے والے
٢۔ اپنی زبان کی حفاظت کرنے والے
٣۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے
٤۔ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے
روزے کا فلسفہ یہی هے کہ انسان حرام کاموں سے بچے اور کمال حقیقی کی راهوں کو طے کرسکے .رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
((شھر رمضان شھر فرض اللہ ۔ عزّوجلّ ۔ علیکم صیامہ ، فمن صامہ ایمانا و احتسابا ، خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمّہ))
ماہ رمضان وہ مہینہ هے جس میں خدا وند متعال نے تم پرروزے واجب قرار دیئے ہیں پس جو شخص ایمان اور احتساب کی خاطر روزہ رکھے تو وہ اسی طرح گناهوں سے پاک هو جائے گا جس طرح ولادت کے دن پاک تھا .
ویسے بھی گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اور حرام کاموںسے دور رہنا مومن کی صفت هے اس لئے کہ گناہ خود ایک آگ هے جو انسان کے دامن کو لھی هوئی هو اور خدانہ کرے اگر کسی کے دامن کو آگ لگ جائے تو وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے بجھا نہ لے اسی طرح عقل مند انسان وہی هے جو گناہ کے بعد پشیمان هو اور پھر سچی توبہ کرلے اس لئے کہ معصوم تو ہم میں سے کوئی نہیں هے لہذااگر خدانہ کرے غلطی سے کوئی گناہ کربیٹھے تو فورا اس کی بارگاہ میں آکر جکھیں ، یہ مہینہ توبہ کے لئے ایک بہترین موقع هے کیونکہ اس میں ہر دعاقبول هوتی هے.آئیں اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیں اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کریں، یقینا خداقبول کرے گا .رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ((من صام شھر رمضان فحفظ فیہ نفسہ من المحارم دخل الجنّة ))
جو شخص ماہ مبارک میں روزہ رکھے اور اپنے نفس کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے ، جنّت میں داخل هوگا .
امام صادق علیہ السلام روزہ کا ایک اور فلسفہ بیان کرتے هوئے فرماتے ہیں :
((انّما فرض اللہ عزّوجلّ الصّیام لیستوی بہ الغنیّ والفقیر و ذٰلک أنّ الغنیّ لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیر لأنّ الغنیّ کلّما أراد شیئا قدر علیہ ، فأراد اللہ عزّ وجلّ أن یسّوی بین خلقہ ، و أن یذیق الغنیّ مسّ الجوع والألم لیرقّ علی الضّعیف فیرحم الجائع))
خداوند متعال نے روزے اس لئے واجب قرار دیئے تاکہ غنی وفقیربرابر هو سکیں .اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کرسکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لئے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا هے اسے مل جاتی هے.لہذا خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تاکہ اسکے دل میں غریب کے لئے نرمی پیداهو اور بھوکے پر رحم کرے .
عزیزان گرامی! یہ هے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک تحمل کرے تاکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس هو لیکن افسوس هے کہ آج تو یہ عبادت بھی سیاسی صورت اختیار کر گئی هے بڑی بڑی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں جن میں غریبوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے بھوکے بچوں اور انہیں مزید اذیت دی جاتی هے نہ جانے یہ کیسی اہل بیت علیہم السلام اور اپنے نبیۖکی پیروی هو رہی اس لئے کہ دین کے ہادی تو یہ بتا رهے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ غریبوں اور فقیروں کی مدد کرو جبکہ ہم علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے یا پیسے والے لوگوں کو دعوت کر رهے اور باقاعدہ کارڈ کیے ذریعہ سے کہ جن میں سے اکثر روزہ رکھتے ہی نہیں.
عزیزان گرامی ! روزہ افطار کروانے کا بہت بڑاثواب هے لیکن کس کو؟ روزہ داراور غریب لوگوں کو . ہمارا مقصد یہ نہیں هے کہ آپ ان لوگوںکو افطار نہ کروائیںان کو بھی کروایئں لیکن خدارا غریبوں کا خیال رکھیں جن کا یہ حق هے . خداوندمتعال ہمیں روزے کے فلسفہ اور اس کے مقصد سے آگاہ هونے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .اور اس با برکت مہینہ میں غریبوں کی مددکرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے .آمین یا ربّ العالمین