خود پسندی عقل کی دشمن
خود پسندی عقل کی دشمن
وَ قَالَ عليه السلام عُجْبُ اَلْمَرْءِ بِنَفْسِه احَدُ حُسَّادِ عَقْلِهِ
انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حاسدوں میں سے ہے (نہج البلاغہ حکمت 212)
انسان کو جو عادات بلندی سے پستی میں گراتی ہیں اُن میں سے ایک عادت خود کو بلند سمجھنا ہے ۔جسے خود پسندی اور خود بینی کہا گیا ہے ۔ امیرالمومنین نے متعدد مقامات پر خود پسندی کی مذمت کی ہے ۔ اس فرمان میں امام نے خود پسندی کو عقل کا حاسد کہا ہے ۔ عقل انسان کو کمال کی راہیں دکھاتی اور نور انسانیت کو روشن کرتی ہے ۔اور حاسد وہ ہے جو کسی کے کمال کو برداشت نہ کر سکے اور ان کمالات اور عطا کی گئی نعمات کے زوال کی آرزو کرے۔ اس کی دشمنی میں جو اس سے ممکن ہو کرے۔ معاشرے میں اسے بد نام کرے اور اس کے عیب ظاہر کرے۔ افواہوں کے ذریعے لوگوں کو اس سے دور کرے اور یہ دشمنی اس باکمال کے خاندان تک بڑھا دے۔اور اگر اس کے بس میں ہو تو سب کمالات فورا اس سے چھین لے ۔
امیرالمومنین نے یہاں عجب اور خود پسندی کو عقل کا حاسد قرار دیا ہے یعنی وہی کام جو حاسد باکمال کے لئے انجام دیتا ہے خود پسندی میں بھی عقل کے لئے وہی کردار ادا کرتی ہے ۔یعنی عقل کو اچھائیوں سے روک دیتی ہے۔اس کو کمال تک پہنچانے والی سوچوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے ۔
خود پسندی عقل کی نورانیت کے لئے سیاہ بادل بن جاتی ہے اور عقل کی تورانیت سے روشن ہونے والی راہوں کو وحشت و خوف میں بدل دیتی ہے۔
حضرت عیسی ؑ سے منقول ہے کہ فرمایا : میں نے اللہ کے اذن سے لا علاج مریضوں کو صحت یاب کیا حتی کہ مردوں کو بھی زندہ کیا مگر مجھ سے احمق کا علاج نہ ہو سکا ۔سوال ہوا کہ احمق کون ہے تو فرمایا اس کی سب سے بڑی نشانی خود پسندی ہے۔یعنی وہ جو سب فضائل اپنے لئے مخصوص سمجھتا ہے اور تمام حقوق کا خود ہی کو مستحق ٹھہراتا ہے اور دوسروں کے کسی حق کا قائل نہیں ہوتا یہ ہے وہ احمق جس کے علاج کی میرے پاس کوئی راہ نہیں ۔