مقالات

نہج البلاغہ کے موجودہ ایڈیشن کی انفرادیت ( ناشر:مرکز افکار اسلامی)

نہج البلاغہ کے موجودہ ایڈیشن کی انفرادیت ( ناشر:مرکز افکار اسلامی)

            الحمدللہ نہج البلاغہ کی مقبولیت روز بروز بڑ ھ رہی ہے اور متعدد ادارے اچھے سے اچھے انداز میں نہج البلاغہ کو طبع کرانے میں مشغول ہیں اور درجنوں قسم کے ایڈیشن بازار میں موجود ہیں۔ مرکزِ افکار اسلامی بھی ایک مدت سے کلام امیر المومنینؑ کو محبان امیر المومنینؑ تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہے اور اس کیلئے متعدد قدم اٹھائے جن کے یہاں بیان کی ضرورت نہیں۔ طباعت کے حوالے سے ہمیشہ جن عمومی یا خصوصی کمزوریوں کا سامنا ہوتا تھا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکز افکار اسلامی نے مکمل طور پر نئے سرے سے نہج البلاغہ کے زیر نظر ایڈیشن کو شائع کرانے کا ارادہ کیا۔ اس اشاعت میں جن امور کو مدنظر رکھا گیا ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

[1] سب سے پہلے عربی متن کی تصحیح کیلئے کام شروع کیا گیا تو اس نسخے کی تلاش شروع ہوئی جس سے مفتی صاحب نے استفادہ کیا تھا۔ چونکہ عربی میں کئی نسخے ہیں اور مفتی صاحب نے کہیں تحریر نہیں فرمایا کہ ان کے سامنے کونسا نسخہ تھا، تاکہ اس کے مطابق عربی کو دیکھاجائے۔ چنانچہ چند ماہ کی مسلسل کوشش اور ایران و عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں دستیاب نہج البلاغہ کے درجن بھر نسخوں سے مفتی صاحب والے نسخہ کی تطبیق کے بعد واضح ہوا کہ مفتی صاحب نے عربی کتابت کیلئے شیخ محمد عبدہ مصری کا ’’مطبعۃ الاستقامة مصر‘‘ والا تین جلدی نسخہ استعمال کیا۔

            چنانچہ اس نسخہ کو سامنے رکھتے ہوئے عربی عبارات کو مفتی صاحب کے نسخہ سے تطبیق دی اور اگر کہیں مفتی صاحب کا نسخہ شیخ محمد عبدہ والے نسخہ سے الگ تھا تو درج ذیل نسخوں کو دیکھا گیا جس میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا کہ اگر کوئی ایک نسخہ مفتی صاحب والے نسخہ سے مطابقت رکھتا ہے تو مفتی صاحب والی عربی عبارت کو باقی رکھا گیا اور اگر مفتی صاحب والا نسخہ کسی سے مطابقت نہیں رکھتا تو مفتی صاحب کے ترجمہ کو دیکھا گیا کہ جس عربی عبارت سے مفتی صاحب کا ترجمہ ملتا ہے اس عربی عبارت کو درج کیا گیا اوراگر ترجمہ میں کوئی فرق واضح نہیں ہوتا تھا تو جو عبارت اکثر نسخوں میں تھی اس کے مطابق عبارت کو رکھا گیا۔ اس مرحلہ پر جن نسخوں کو مدنظر رکھا گیا ان میں:

  1. شیخ محمد عبدہ کا مصری نسخہ
  2. حرم امیر المؤمنینؑ سے طبع شدہ الشیخ قیس بہجت العطار کا تحقیق شدہ نسخہ
  3. حرم امیر المؤمنینؑ ہی سے طبع شدہ السید ہاشم میلانی کا تحقیق شدہ نسخہ
  4. بنیاد نہج البلاغہ کا نسخہ
  5. صبحی صالح کا نسخہ
  6. منہاج البراعہ شرح نہج البلاغہ کا نسخہ
  7. ابن میثم بحرانی کی شرح والا نسخہ
  8. مصادر نہج البلاغہ، سیّد عبدالزہرا والا نسخہ
  9. شیخ محمد عبدہ کا موسسۃ التاریخ العربی، بیروت لبنان والا نسخہ
  10. آقائے دشتی کا نسخہ
  11. پیام امام آقای مکارم والا نسخہ

اور چند موارد میں آقای مرعشی نجفی کے مکتبہ سے شائع ہونے والے پانچویں صدی کے مخطوطہ سے استفادہ کیا گیا۔

[2]      اردو نہج البلاغہ کے پہلے شائع ہونے والے نسخوں میں عربی عبارت اور اردو ترجمہ ایک دوسرے کے مقابل نہیں تھا، بلکہ طولانی خطبات میں ایسا بھی تھا کہ عربی ایک صفحہ پر ہے تو اردو اس سے اگلے صفحہ پر۔ جبکہ اس نسخہ میں عربی کے سامنے اس کا اردو ترجمہ لایا گیا۔

[3]      عربی اور اردو عبارتوں میں پیراگراف کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ بعض عبارتیں مسلسل تین صفحات پر جاری تھیں۔ اس نسخہ میں انہیں بڑی محنت سے چھوٹے پیرا گرافوں میں تقسیم کیا گیا جس کیلئے متعدد فارسی تراجم اور عربی میں چھپنے والے نسخوں کو مدنظر رکھا گیا۔

[4]      عربی رسم الخط کیلئے اردو دان طبقہ کے ہاں رائج قرآنی رسم الخط کو استعمال کیا گیا۔

[5]      اردو عبارت کیلئے بہترین فونٹ کو استعمال کیا گیا۔

[6]      عربی اور اردو عبارتوں کی (،) (.)۔(جیسی علامات لگا کر دقت سے جملہ بندی کی گئی تاکہ ترجمہ سمجھنے میں آسانی ہو اور کسی کو آپؑ کا کلام حفظ کرنا یا اس کی تلاوت کرنی ہو تو اسے بھی دقت نہ ہو۔

[7]      حواشی کی عربی عبارات کو حتی المقدور حد تک اصل ماخذ سے تطبیق کیا گیا۔

[8]      حواشی میں موجود عربی عبارتوں اور اشعارکی مکمل اعراب گزاری کی گئی تاکہ عام قارئین کو عربی عبارت پڑھنے میں آسانی ہو۔

[9]      نہج البلاغہ کے متن یا حواشی میں جہاں آیات آئیں ان کیلئے مخصوص علامات کا استعمال کر کے انہیں واضح اور نمایاں کیا گیا۔ اس سلسلے میں عربی کیلئے اور اردو میں () کی علامتوں کا استعمال کیا گیا تاکہ کتاب کے اصل متن یا حاشیہ میں موجود قرآنی آیات کا قاری کو با آسانی علم ہو جائے) ۔

[10]    نہج البلاغہ کے متن میں موجود احادیث نبوی اور مخصوص جملات و عبارات کو (» «) کی علامتوں کے درمیان لکھ کر نمایاں کیا گیا۔

[11]    حواشی کی عبارتوں میں موجود آیات کے مکمل حوالہ جات درج کئے گئے۔

[12]    حواشی میں جہاں کلام معصوم ہے اس میں نہج البلاغہ کے اصل متنِ والا فونٹ استعمال کیا گیا اور متن یا جواشی میں عام عربی عبارت کیلئے متن سے الگ رسم الخط استعمال کیا گیا۔

[13]    حواشی کی عربی عبارات کے جہاں مفتی صاحب نے حوالے درج کئے انہیں اسی طرح پیراگراف کے آخر میں بریکٹوں میں درج کر دیا اور جہاں حوالے موجود نہ تھے وہاں ہم نے اپنے پاس دستیاب ماخذ سے دیکھ کر حوالہ جات کو فٹ نوٹ کی صورت میں شامل کر دیا۔

[14]    پرنٹنگ کے مرحلے میں کاغذ و جلد اور دیگر چیزوں کا معیار آپ کے سامنے موجود ہے اس کا فیصلہ آپ خود کریں گے۔

[15]    تحقیق و تطبیق کے دوران گزشتہ نسخوں میں چند موارد ایسے بھی دیکھنے میں آئے جہاں عربی عبارت تھی مگر ترجمہ نہیں تھا یا اردو ترجمہ موجود تھا مگر عربی عبارت درج نہ تھی۔ چنانچہ اس کی باریک بینی سے اصلاح کی گئی۔ اس کے چند موارد درج ذیل تھے:

  1. خطبہ ۱۵۳ میں پہلے ایڈیشن میں: ’’اور ان کی پناہ میں ہوتے ہیں ‘‘کا جملہ موجود ہے اور دوسرے ایڈیشن میں موجود نہیں۔
  2. خطبہ ۱۷۴ میں پہلے ایڈیشن میں جملہ’ ’اور اس کے خلاف خود اپنی رایوں پر بھروسا نہ کرو‘‘ موجود ہے، جبکہ دوسرے ایڈیشن میں یہ موجود نہیں ہے۔
  3. خطبہ ۱۹۱ خطبۃ المتقین میں ’’حِرْصًا فِی الْعِلْمِ‘‘ کا ترجمہ نہیں ہے۔
  4. خطبہ ۲۱۸ میں ’’كَانَ فِی الدُّنْیَا غَذِیَّ تَرَفٍ، وَ رَبِیْبَ شَرَفٍ‘‘ کا ترجمہ درج نہیں ہے۔
  5. مکتوب ۵۳ میں ’’وَ الْحَقُّ کُلُّہٗ ثَقِیْلٌ‘‘ کا ترجمہ درج نہیں تھا۔
  6. خطبہ ۲۰۳ میں ’’وَ لَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُهٗ، ۔۔۔‘‘ سے تین جملوں کا ترجمہ نہیں ہے۔

ایسے کئی اور موارد بھی ہیں جن کی مناسب انداز میں تصحیح کر دی گئی۔

المختصر یہ کہ ہم نے کلام علی ؑ کی خدمت کو عبادت جان کر ایک ایک حرف اور زبر زیر کی تصحیح کیلئے انتہائی دقت اور باریک بینی سے اپنی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ دُعا ہے اللہ قبول فرمائے اور کلامِ امامؑ سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس تمام سعی و کوشش کے باوجود اگر ہم سے کوئی چیز رہ گئی ہو تو یقیناً قارئین کرام ہمیں اس سے مطلع فرما کر شکریہ کا موقع دیں گے تاکہ آئندہ اشاعت میں اس کی تصحیح کر لی جائے۔

        

مرکز افکار اسلامی پاکستان

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button