مقدمہ نہج البلاغہ شیخ محمد عبدہ شیخ محمد عبدہ
اللہ کی حمد ، نعمات کی حفاظت کے لئےباڑ ہے۔ اورنبی ؐ پردرود جو فریضے کی ادائگی ہے۔رحمت کی بارش کی طلب ہے آپؐ ؐ کی آل اطہارؑ کے لئے جو اللہ کے اولیاء ہیں اور آپ ؐ کے منتخب اصحاب کے لئے جو اُمت کے لئے حق کی معرفت اور ہدایت کی یاد دہانی ہیں۔
اما بعد !قضا و قدر کے فیصلہ کے مطابق مجھے اتفاقاً بلا ارادہ کتاب(نہج البلاغہ) سے آگاہی حاصل ہوئی۔میں نے اسے سکون و تسلی کا ذریعہ اور تنہائی کا مونس و چار سازپایا۔پس میں نے اس کے بعض صفحات کو غور سے پڑھا اورمختلف مقامات اور متفرق موضوعات کی عبارتوں کے تھوڑے تھوڑے جملوں پر غور کیا تو ہر مقام پر مجھے ایسا تصور ہورہاتھا کہ جیسے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں، نبرد آزمائیاں ہو رہی ہیں، بلاغت کا زور ہےاور فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے ،توہمات شکست کھارہے ہیں، شکوک و شبہات پیچھے ہٹ رہے ہیں، خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں،طلاقت لسان کی فوجیں شمشیر زنی اور نیزہ بازی میں مصروف ہیں ،وسوسوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ اور توہمات کی لاشیں گررہی ہیں اور ایک دفعہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ بس حق غالب آگیا اور باطل کی شکست ہوگئی اورشک و شبہ کی آگ بجھ گئی اور تصورات باطل کا زور ختم ہوگیا اوراس فتح ونصرت کا سہرا اُس کے علم بردار اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالبؑ کے سر ہے۔
بلکہ اس کتا ب کے مطالعہ میں جتنا جتنا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔میں نے مناظر کی تبدیلی اور مواقف کے تغیر کو محسوس کیا۔ کبھی میں اپنے کو ایک ایسے عالم میں پاتا تھاجہاں معانی کی بلند رُوحیں خوش نماعبارتوں کے جامے پہنے ہوئے پاکیزہ نفوس کے گرد چکر لگاتی اور صاف دلوں کے نزدیک آکر انہیں سیدھے راستے پر چلنے کا اشارہ کرتی اور نفسانی خواہشوں کا قلع قمع کرتی اور لغزش مقامات سے متنفر بناکر فضلیت وکمال کے راستوں کا سا لک بناتی ہیں۔
اور کبھی ایسے جملے سامنے آجاتے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ تیوریاں چڑھائے ہوئے اور دانت نکالے ہوئے ہولناک شکلوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسی روحیں ہیں جو چیتوں کے پیکروں میں اور شکاری پرندوں کے پنجوں کے ساتھ حملہ پر آمادہ ہیں اور ایک دم شکار پرٹوٹ پڑتے ہیں اور دلوں کواُن کے ہوا وہوس کے مرکزوں سے جھپٹ کرلے جاتے ہیں اور ضمیروں کو پست جذبات سے زبردستی علیحدہ کردیتے ہیں اور غلط خواہشوں اور باطل عقیدوں کا قلع قمع کردیتے ہیں۔
اور بعض اوقات میں جیسے مشاہدہ کرتا تھا ایک نورانی عقل جوجسمانی مخلوق سے کسی حیثیت سے مشابہ نہیں ہے،خداوندی بارگاہ سے الگ ہوئی اورانسانی روح سے متصل ہوکر اُسے طبیعت کے پردوں اور مادیت کے حجابوں سے نکال لیا اورکر اُسے عالم ملکوت تک پہنچا دیا اور تجلیات ِربانی کے مرکز تک بلند کردیا اور لے جاکر عالم قدس میں اُسے ساکن بنادیا۔
اور بعض لمحات میں معلوم ہوتا تھا کہ حکمت کا خطیب صاحبانِ اقتدار او ر قوم کے احل حل و عقدکو للکار رہا ہے اور انہیں صحیح راستے پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے اور انہیں اُن کی غلطیوں پر متنبہ کر رہا ہے اور انہیں سیاست کی باریکیاں اور تدبر وحکمت کے دقیق نکتے سمجھا رہا ہے اور اُن کی صلاحیتوں کو حکومت کے منصب اور تدبر وسیاست کی اہلیت پیدا کر کے مکمل بنا دیا ہے۔
یہ کتاب جلیلِ وہ مجموعہ ہے جسے سید شریف رضی رحمہ اللہ نے سیدنا و مولانا امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے کلام مبارک سے منتخب کیا ہےاس کلام کے بکھرے ہوئے حصوں کو جمع کیا ہے۔ اور اس کو’’نہج البلاغہ ‘‘ کا نام دیا ہے،اور میرے علم میں اس نام سے بہتر اِس کتا ب کی حقیقت کو ظاہر کرنے والا کوئی دوسرا نام ہوبھی نہیں سکتا۔ میرے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ میں اس کتاب کے نام سے بہتر اس کے وصف و تعریف کے لئے کوئی دوسرا نام لاؤں اور اور نہ ہی اس کی خوبیوں کے بیان میں اس کے انتخاب کرنے والے کی بیان کردہ خوبیوں میں کوئی اضافہ کر سکتا ہوں جیسا کہ آپ اس کتاب کے مقدمہ میں دیکھیں گے۔
اور اگر فطری خصوصیات اور فرائض کا احسا س ہم پر اچھائیوں کے مالک کی پہچان اور محسن کے احسانات کی شکر گزاری لازم قرار نہ دیتے تو ہمیں یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ نہج البلاغہ میں فصاحت کے کیا کیا فنون اور بلاغت کے کیسے کیسے نکات موجود ہیں ۔خاص کر اس کتاب نے کلام کے کسی شعبہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے اورفکرکے کسی پہلو کو طے کیے بغیر نہیں رکھا۔
ہاں اس کتاب کے اور ہمارے زمانہ کے فرق اور ہمارے زمانے کے لوگوں کی اصل زبان سے لا تعلقی کی وجہ سے کتا ب کی عبارتوں میں کہیں کہیں غیرمعروف الفاظ پائے جاتےہیں مگر وہ بھی غیر مانوس نہیں ہوتےاور بڑی باریک اور بلیغ ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں مگر مبہم و پیچیدہ نہیں ہوتیں۔اس کی وجہ سے مطالعہ کرنے والے کی فہم وفراست بعض مفردات یا مضمون کے بعض مفہومات کے سمجھنے سے قاصر رہتی ہے،مگر یہ مشکل ان الفاظ کےضعف یا معنی میں کسی کمزوری کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کا سبب خود پڑھنے والےکے ذہن و عقل کی کوتاہی ہے۔
انہی چیز وں کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس کتاب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان مشکلات کو بھی حل کرتا چلوں اور پڑھتے ہوئے جہاں وضاحت کی ضرورت ہو وہاں وضاحت کردوں۔ اس کے مشکل الفاظ کی شرح لکھ دوں اوربعض جملوں کی تشریح و تفسیرکروں۔ کچھ ارشارات کو بھی مشخص و معین کردوں۔اور یہ تما م چیزیں بقدر ضرورت ہوں ،اورتوضیح وتشریح بھی حتی الامکان مختصر ہو۔ میں نے ان توضیحات میں لغات کی مشہور کتابوں پر ہی اعتمادکیا ہے اور صحیح روایات کی معروف کتابوں پر بھروسہ کیا۔
اس کتاب میں حضرت امام علیہ السلام سے مسئلہ امامت سے متعلق جو روایات درج ہیں میں نے ان کی جرح و تعدیل سے کوئی واسطہ نہیں رکھا ہے بلکہ اسے مطالعہ کرنے والے کے فیصلہ پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے واضح اصولوں کی بنیاد پر ان مسائل سے متعلق مشہور اخبار وآثار اور روایات پر بھروسہ کریں ۔
اس کے باوجود میں نے عبارت کی توضیح اور اشارات کی تعیین میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ جس سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ جو کچھ میرے ذہن میں موجود ہے وہ محفوظ ہوجائے اور جو حافظہ میں محفوظ ہے وہ یاد آ جائے۔ فراموشی سے بچ جاؤں اورگمراہی سے محفوظ رہوں۔
میرا اس کتاب میں صرف ایک مقصد و مطلب رہا ہے اور وہ اس کی ارفع واعلیٰ عبارات میں کلام کے تمام شعبوں کےبلند وعالی معانی کا ہونا ہے۔
اکابر علماء کی ایک اچھی خاصی جماعت نے اس کتاب کی شرح سے دلچسپی لی ہےاور شرح کی ہے ۔ اُن میں سے ہر ایک نے اس کتاب کے اسرارورموز پر طویل بحث کی ہے اور ہر ایک اپنے مسلک کی تائید اور اپنے مشرب کی تقویت میں مصروف رہاہے۔ مگر مجھے کسی کی کوئی شر ح نہیں ملی سوائے اُن پراگندہ مفاہیم کے جو اُن سے منقول ہیں اور کتابوں میں بکھرئے ہوئے ہیں۔ اس لئے اگر اُن میں سے کسی سے میری رائے متفق ہے تو یہ صرف ایک اتفاقی امر ہے اور اگر کہیں مخالفت کی ہے تو اپنے خیال میں وہ صحیح ہے۔
میں اپنے اس تعلیقہ و حاشیہ کو اس کتا ب کی شروح میں سے ایک شرح شمار نہیں کرتا۔ اور ان کتابوں میں سے ایک کتاب بھی قرار نہیں دیتا بلکہ یہ نہج البلاغہ کے لئے نقش و نگار اوراس کے اطراف و صفحات کو سجانے کا نشان ہے۔
مجھے اپنی اس مختصر کوشش وکاوش سے اُمید ہے کہ یہ اس زمانہ کے نوجوانوں کے لئے سودمند ثابت ہوگی۔ کیونکہ میں نے اُنہیں طلب علم کے راستے پر کھڑا ہواپایا ہے کہ وہ عربی زبان حاصل کر کے ایک ہدف تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اور عربی اسلوب و سلیقہ کے متلاشی ہیں، لغوی ملکہ کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ ہر آدمی عربی زبان کا توانا خطیب اور قلم کار ادیب بننا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے مطلوب تک پہنچنے کے لئے بطور وسیلہ مقامات،کتب اور مراسلات کو اپنا رہنما بناتے ہیں جنہیں غیر عربوں نے لکھا ہے اور پھر متاخرین نے ان کی تقلید ہے۔ان لوگوں نے ان کتابوں کے لکھنے میں اچھے الفاظ، مترادف کلمات اور قافیہ کی مراعات کا خیال رکھا ہے۔ اس طرح کے دوسرےلفظی محسنات جنہیں فن بدیع کا نام دیا ہےکے سوا کوئی اور خوبی پیدا نہیں کی ہے۔ حالانکہ ان کی یہ عبارتیں عظیم و جلیل معانی سے خالی یا بلند و اعلی اسلوب بیان سے عاری ہیں۔
بہر حال کلام کی مذکورہ بالا قسم کو عربی زبان کی ایک نوع کہا جاسکتا ہے اسے کل زبان نہیں کہا جاسکتا۔بلکہ اگر اس قسم کےکلام کواصل عربی کو چھوڑ کر تنہا پیش کیا جائے تو یہ کلام کے پست ترین طبقات میں شمار ہوگی۔ اورالفاظ کے اواخر کی خوبصورتی و لطافت اسے زبان کے درمیانی درجہ پر بھی نہیں پہنچا سکتی ۔
اس لئے اگر وہ مذکورہ طریقہ کی بجائے اُن چیزوں کے پڑھنے کی طرف مائل ہوتے جواہل زبان اور خصوصاًاہل زبان کے اعلیٰ طبقے سے منقول و مروی ہیں تو وہ اپنی غرض اور مقصود کو ضرور پالیتے اور جس چیز کے لئے اُنہوں نے اپنی گردن بلند کی اوررگ و ریشہ سے جسے قبول کرنے پر آمادہ تھے اسے حاصل کر لیتے۔
اس عربی زبان والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کا قائل نہ ہو کہ امام علی بن ابی طالب کا کلام ،کلام خدا اور کلام رسولؐ کے بعد ہر کلام سے بلند تر، زیادہ پر معانی اور زیادہ فوائد کاحامل ہے۔ لہذا زبان عربی کے نفیس ذخیروں کے طلاب اور اس کے زینوں پر چڑھنے کے خواہش مند وں کے لئے یہ کتاب(نہج البلاغہ) سب سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ اُسے اپنے اہم محفوظات اورافضل منقولات میں اہم درجہ پر رکھیں اور اس کے ساتھ ان معانی و مقاصد کے سمجھنے کی کوشش کریں جن کے لئے یہ بیان ہوئےہیں۔ اور ان اس کے الفاظ میں وہ معانی تلاش کریں جن کے لئے یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں تاکہ اس طرح وہ اپنے بہترین مقاصد تک پہنچ سکیں اور اچھے نتائج و فوائد حاصل کر سکیں۔
اللہ سے سوال ہے کہ وہ میرے اور ان جوانوں کے عمل کو کامیابی سے ہم کنار فرمائے اور میری اور اُن جوانوں کی آرزو کو برلائے۔
ناشر: مرکز افکار اسلامی