مقالات

ولادت باسعادت امام علی نقی علیہ السلام مبارک باد

 15 ذی الحج 212 ھجری امام محمد تقی علیہ السلام  کے  بیت الشرف میں سلسلہ امامت کی دسویں کڑی، وارث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام علی نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔

 اس گھرانے کا سب سے بڑا کمال کمال علمی ہے، یہ وارثان قرآن ہیں، یحییٰ بن اکثم نے آپ کے بھائی موسی ابن امام محمد تقی علیہ السلام  سے دس سوالات کئے اور جناب موسی نے امام علی نقی علیہ السلام  سے ان کے جوابات لکھوائے۔ اُن میں ایک سوال یہ تھا کہ قرآن مجید کی اس آیت: وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِن بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ؛ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل (کر سیاہی بن) جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت و الا ہے(لقمان/27)

 پھر امامؑ نے سات دریاؤں کے نام بتائے پھر فرمایا: وَ نَحْنُ كَلِمَاتُ اَللَّهِ اَلَّتِي لاَ تَنْفَدُ وَ لاَ تُدْرَكُ فَضَائِلُنَا؛وہ خدا کے ختم نہ ہونے والے کلمات ہم ہیں اور ہمارے فضائل مکمل طور پر درک نہیں کیے جا سکتے۔( تحف العقول  , جلد۱ , صفحه۴۷۶)

 آپ کی جبروتفویض کے بارے میں ایک تفصیلی گفتگو تحف العقول میں درج ہے اور آپ کے کرامات و کمالات کو شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب احسن المقال میں تفصیل سے درج کیا۔ نقوش عصمت میں مولانا سید ذیشان حیدر جوادی نے کافی کرامات نقل کئے ہیں۔

 ان ہستیوں کی ولادت و شہادت کی مناسبتوں سے ان کے فضائل و کمالات کا بیان اور ان کے احکامات و تعلیمات کا تذکرہ اور ان پر ہونے والے مظالم حقیقت میں ان سے رابطہ کا ایک طریقہ ہیں  اور اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں اپنے خاص بندوں کے تذکروں کا حکم فرمایا ہے  کبھی فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا؛ اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے، یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے(مریم/41) اور کبھی فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ-اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّا؛ اور (اے رسول!) اس کتاب  میں مریم کا ذکر کیجیے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں(مریم/16)

 اہل بیت، طاہرین گھرانہ ہے تو ان سے رابطہ کا ذریعہ اور ان کی تعلیمات پر عمل سے اپنی کمزوریوں کو جان سکتے ہیں اور ان کا علاج کر سکتے ہیں ۔

ہر ولادت و شہادت پر اگر ان کا ایک فرمان اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے کے لئے یاد کرلیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے  ایک تو ان کے فرامین کا ایک مجموعہ ہمارے پاس آ جائے گا جو خود علمی خزانہ ہوگا اور دوسرا  اُن فرامین پر عمل کرکے اپنی زندگیوں کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔

 آپ کا ایک فرمان ہے: اَلدُّنْيَا سُوقٌ رَبِحَ فِيهَا قَوْمٌ وَ خَسِرَ آخَرُونَ؛ دنیا ایک بازار ہے کچھ لوگ اس سے منافع کما گئے اور دوسرے  گھا ٹا پا گئے(بحار الأنوار  ,  جلد۷۵,صفحه۳۶۶)

 اگر اس فرمان کو یقین کے ساتھ قبول کر لیا جائے اور دنیا کو بازار کی طرح جانا جائے جیسے نہج البلاغہ میں امیرالمومنین نے بھی اسے (متجر) تجارت گاہ قرار دیا ہے تو انسان کوشش کرے گا بازار سے ضرورت کی چیزیں لے اور اپنی زندگی کے دیگر کاموں کو آگے بڑھائے نہ یہ کہ بازار کی رونقوں میں کھو کر جس چیز کی اسے ضرورت ہے وہ خریدنا ہی بھول جائے ۔

اگر دنیا کو بازار سمجھا جائے تو ضرور سوچے گا مجھے مجھے مالک نے بازار میں کیوں بھیجا؟  جو چیز خریدنے کے لیے اللہ نے بھیجا اس کا نام عبادت ہے، اللہ کے بندوں کی خدمت ہے۔ اللہ فرماتا ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا؛ اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کاشریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔(نساء/36)

 امام علی نقی علیہ السلام سے ایک درس جو لیا جا سکتا ہے وہ آپ کی انگوٹھی کا نقش ہے امامؑ کی انگوٹھی کا نقش تھا: حِفْظُ اَلْعُهُودِ مِنْ اَخْلاَقِ اَلْمَعْبُودِ؛ وعدوں کو نبھانا اللہ کا اخلاق میں سے ہے(بحار الأنوار  ,  جلد۵۰, صفحه۱۱۷)

 پہلا وعدہ جو اللہ نے عالم ارواح میں ہر کسی سے لیا وہ یہ ہے کہ : ْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى‏؛کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟(اعراف /172) اب  اسے رب مانا ہے  تو اب جووہ منوائے وہ ماننا ہی  وفائے عھد ہو گی  ایک چیز جو رب منوانا چاہتا ہے وہ یہ ہے قرآن کریم میں فرمایا:يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم‏؛اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔(نساء/59)

اگر اطاعت  کے ان مراحل کو طے کر لیا جائے تو انسان لائق سلام بن جاتا ہے اور ائمہ طاہرین کی ولادت و شہادت  کے ذریعے  اُن سے رابطے مضبوط کرکے ہم بھی اطاعت کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button