عزاداری عبادت ہے
عزاداری ایک عظیم عبادت ہے اور اسے عبادت سمجھ کر انجام دیا جائے تجارت نہ بنائی جائے ۔عزاداری میں ایک مہم مقام ذاکر و خطیب کا ہے۔
(ا) انہیں خدا کی خاطر مجلس پڑھنا چاہیے نہ کے پیسے کی خاطر۔ آئمہ کمیت اور دعبل جیسوں کو بلاتے تھے کبھی فیس طے نہیں ہوتی تھی ۔بلکہ دعبل کہتے تھے میں فضائل و مصائب نہیں موت کا پھندا کندھے پر لئے پھر رہا ہوں۔کمیت کی لاش کے ٹکڑے کئے گئے اور آخری الفاظ تھے اللہم آل محمد ۔۔
پڑھنے والا اللہ کے لئے پڑھے، جناب زہرا ؑکی رضا کا متمنی رہے،مال و اولاد اور زندگی میں برکت طلب کرے ،سننے والا جناب سیدہ کے نام پر زیادہ سے زیادہ دےمگر لینے اور دینے پر سودا بازی اور کم اور زیادہ پر جھگڑے کر کےعزاداری کی توہین نہ کرے۔
من لایحضرالفقیہ میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے روایت نقل کی ہے کہ امام ؑنے فرمایا:
لَا تُصَلَّى خَلْفَ مَنْ يَبْغِي عَلَى الْأَذَانِ وَ الصَّلَاةِ بِالنَّاسِ أَجْراً وَ لَا تُقْبَلُ شَهَادَتُهُ[1]
’’جو شخص اجرت طے کرکے اذان کہتا ہے اور لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اس کی اقتداء میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس کی گواہی قبول کی جائے ‘‘۔
یہاں اجرت لینے اور دینے کے فقہی مسئلہ کو بیان نہیں کیا جا رہا اگر جائزبھی سمجھا جائے تو بھی یہ سودا بازی اور جھگڑے عبادت عزا کی اخلاقی توہین ضرور ہیں۔
(ب)کربلا اسلام کے اصولوں کو بچانے کی درسگاہ ہے کربلا کی یاد یعنی عزاداری میں ان اصولوں کو پامال نہ کیا جائے۔اسلام میں وعدے کی وفا کے لیےاس حد تک فرامین موجود ہیں کہ لَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَه[2] ’جو وعدہ وفا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے‘‘ بدقسمتی سے مجلس پڑھنے والوں میں وعدہ خلافی عام ہو چکی ہے، مجلس پڑھنے کے وقت تک بانی کو یقین نہیں ہوتا کہ نام حسین پر رُلانے والا وعدہ وفا کرے گا یا نہیں ۔آج اس مہم اصول کو پامال کرنے والوں میں سر پر عمامہ رکھنے والے بھی شامل ہو چکے ہیں مجلس منعقد کرنے والوں کو ایسے افراد کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
(ج) مجلس پڑھنے والوں والے کو کتاب خدا اور احادیث معصومین علیہم السلام کا کسی حد تک علم ہونا چاہئے اور اپنی علمی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے مطالعہ کرناچاہیے تاکہ وہ سننے والوں کو ایک مجلس میں کم از کم ایک حکم شریعت خواہ عقائد،احکام یا اخلاق سے مربوط ہو سنا سکے۔
(د)مجالس کا ایک اہم حصہ اور آئمہ کی طرف سے تاکید فضائل اہل بیت بیان کرنے کی ہے۔جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ کی مشہور حدیث ہے۔
زینوا مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب(بشارۃ المصطفی) ’’اپنی مجلسوں کو علی بن ابی طالب کے ذکر سے زینت دو‘‘
ٖفضائل کے لئے اللہ کےقران اور معصومینؑ کے فرامین سےبیش بہا خزانے علما نے جمع کر کے قوم کے سامنے پیش کئے ہیں ان کا مطالعہ کر کے فضائل بیان کئے جائیں تاکہ اپنی کوتاہ عقلی کی وجہ سے معصومین کی فضیلت کے بجائے توہین نہ ہو اور ان کے فضائل کے نام سے ان کی تعلیمات کی مخالفت نہ ہو۔اور ان کی ولایت کے بجائے انہیں اللہ سبحانہ کا شریک نہ بنا بیٹھیں۔ امیر المؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں اپنےسینکڑوں فضائل بیان فرمائے ۔خط ۲۸ میں اپنے بے بہا فضائل بیان کرتے کرتے قلم روک کر فرماتے ہیں: غَيْرَ مُخْبِرٍ لَكَ وَ لَكِنْ بِنِعْمَةِ اللَّهِ أُحَدِّثُ
’’ان فضائل کے بیان سے تمہیں کوئی اطلاع نہیں دے رہا بلکہ ان فضائل کو نعمتِ خدا سمجھ کر بیان کر رہا ہوں‘‘
اور اسی خط میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:
وَ كِتَابُ اللَّهِ يَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا
’’ہمارے جو فضائل ہمارے بیان سے رہ گئے ہیں انہیں اللہ کی کتاب جامع الفاظ میں بیان کر دیتی ہے‘‘
حوالہ جات
[1] – من لا يحضره الفقيه ؛ ج3 ؛ ص43
[2] – النوادر (للراوندي) ؛ ص5