حسین ؑمیدان میں کیوں نکلے؟
اہل سنت کے مشہور عالم رئیس احمد جعفری ندوی مرحوم مترجمِ نہج البلاغہ مقصد امام حسینؑ کے بارے لکھتے ہیں:
شہادت حسین ؑتاریخ انسانیت کی سب سے بڑی ٹریجڈی ،تاریخ شقاوت کا ہولناک ترین باب، چشم فلک نے از آدم تا ایندم خوں ریزی،
سفّا کی، درندگی، بہیمیّت اور سنگدلی کا ایسا روح فرسا اور زہرہ گداز منظرکبھی نہیں دیکھا ،حکومت کے لئے، طاقت کے لئے، اقتدار کے لئے، تاج خسروی اور تخت شاہی کے لئے ،جاہ سطوت کے لئے، شوکت و حشمت کے لئے، عیش و عشرت کے لئے، کیا انسان اتنا بھی گر سکتا ہے کہ کئی دن پیاسا رکھ کر نبی کےصالح ، طیّب و طاہر نواسےکے حلقوم پر کندچھری پھیردے،؟خاندان رسالت کے چھوٹے چھوٹے معصوم اور بے گناہ بچوں کو قتل کر دے، اس خاندان کی بے جرم و خطا خواتین کی تذلیل کر ڈالے ،خیمے اکھاڑ کر پھینک دے، اور جو کچھ بھی مال و اسباب ہو اسے لوٹ لے؟۔اس ناممکن کو تاریخ نے پہلی مرتبہ دیکھا، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے سینے میں محفوظ کرلیا۔
رسول ؐ کایہ نواسہ تاج و تخت کا جویا نہیں تھا، مال و دولت کا طلبگار نہیں تھا، وہ اسلامی حکومت کا علمبردار تھا ،وہ دین محمدی کے اصولوں اور قدروں کو مٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ اپنی اور اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کی جان قربان کر سکتا تھا اور کردی اور سرخرو ہوکر اپنے رب سے جا ملا۔
اس نے بیضہ کے مقام پر ایک دل ہلا دینے والا خطبہ دیا تھا اور اس خطبے میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا اس نے کہا تھا،
’’ لوگو!رسول اللہؐ نے فرمایا ہے جس نے کسی ظالم، محرمات الہی کو حلال کرنے والے ،خدا کے عہد کو توڑنے والے ،احکام خدا ورسول کی مخالفت کرنے والے ،اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا، اور قولا اور عملا اس پر غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کر دے۔
لوگو! خبردار ہو جاؤ، ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کرلی ہے، اور رحمان کی اطاعت چھوڑ دی ہے، ملک میں فساد پھیلایا ہے، حدودالٰہی کومعطل کر دیا ہے، مال غنیمت میں اپنا حصہ بڑھا لیا ہے، خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام ،اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر دیا ہے، اس لئے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔[1]
اور اس صورتحال پر فرزند بتول اور سبط رسول ؐسے زیادہ غیرت آنے کا حق بھی کسے تھا ؟
اس ساری تقریر میں کہیں یہ دعویٰ ہے کہ میں رسول ؐکا نواسہ ہوں اس لئے خلافت کا منصب میرا حق ہے؟ میں فاطمہ الزہرا کا لخت جگر ہوں اس لئے خلافت کی مسند میرے قبضے میں ہونی چاہیے؟ میں علی کانور چشم ہوں لہذا خلافت میری اور صرف میری ہے ؟
نہیں،حسینؑ نے یہ کچھ نہیں کہا ،بلکہ کہا تو یہ کہ چونکہ حدوداللہ معطل ہو رہے ہیں، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جارہا ہے ،بندگان خدا پر ظلم کیا جا رہا ہے،خدا اور رسول کی مخالفت کی جارہی ہے،۔۔۔ اور اس مجمع عام میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے ان الزامات کی تردید کی ہو۔ ۔۔۔اور جو شخص ان منکرات کو دیکھتا ہے اور خاموش رہتا ہے وہ بھی غضب الہی کا حقدار ہے لہذا میں میدان میں اترا ہوں۔
پھر جب اپنے ۷۲فدائیوں کے ساتھ حسین ؑمیدان میں صف آرا ہوئے تو سب سے پہلے بارگاہ الہی میں گڑگڑا گڑگڑا کر انہوں نے دعا کی:
” خدایا تو ہر مصیبت میں میرا بھروساہے، اور ہر تکلیف میں میرا سہارا ہے، مجھ پر جو وقت پڑے ان میں تو ہی میرا پشت پناہ تھا، غم و اندوہ میں دل کمزور پڑ جاتا ہے، کامیابی کی تدبیریں کم ہو جاتی ہیں، کشائش کی صورتیں گھٹ جاتی ہیں، دوست ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن طعنہ زن ہوتے ہیں،میں نے ایسے نازک وقتوں میں سب کچھ چھوڑ کر تیری طرف رجوع کیا،تجھ ہی سے اس کی شکایت کی، تونے مصائب کے بادل چھانٹ دیئے ،اور ان کے مقابلے میں میرا سہارا بنا ،تو ہی ہر نعمت کاولی، ہر بھلائی کا مالک، ہر آرزو اور تمنا کا منتہی ٰہے۲۔
کیا خدا سے یہ تعلق اور خدا کے لئے یہ استقامت اس شخص میں بھی پائی جا سکتی ہے، جس کا مقصد حصول دنیا ہو؟کلاثم کلا !
کیا حسین ؑکے خطبے سے اور ان کی دعا سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کی جدوجہد کا مرکز صرف رضائے الہی تھا ؟ اگر وہ دنیا کے لیے نکلے ہوتے تو ان میں یہ استقامت ہوسکتی تھی؟ (امامت و سیاست سید رئیس احمد جعفری ندوی ص ۲۲۴۔۲۲۶)
ان صفحات میں مقصد امام حسین علیہ السلام کو رضائے الہی بیان کیا گیا ہے ۔
کربلا کے اس واقعہ کو ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے والے ہر مسلمان اور غیر مسلمان نے اصولوں پر قربانی کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال کیا اور ہر مسلمان نے اسے دین اور خاص کر توحید کی بنیاد قرار دیا ۔
خواجہ معین الدین چشتی کہتے ہیں:
شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید حقّا کہ بنائے لاالہ است حسین
مفکرپاکستان علامہ اقبال نے رموز بیخودی میں ’’در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا ‘‘کے تحت اپنے فارسی کلام میں۳۹ اشعار قلم بند کیے جن میں ایک سے بڑھ کر ایک شعر مقصد حسینؑ کی وضاحت کے لئے ثبت کیا ۔ چند اشعار اسی نظم سے پیش خدمت ہیں؛
آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی ز بستان رسول
الله الله بای بسم الله پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
وسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
زنده حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
بر زمین کربلا بارید و رفت
لاله در ویرانه ها کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بهر حق در خاک و خون غلطیده است
پس بنای لااله گردیده است
دشمنان چون ریگ صحرا لاتعد
دوستان او به یزدان هم عدد
سر ابراهیم و اسمعیل بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود
تیغ بهر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس
خون او تفسیر این اسرار کرد
ملت خوابیده را بیدار کرد
تیغ لا چون از میان بیرون کشید
از رگ ارباب باطل خون کشید
نقش الا الله بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش او شعله ها اندوختیم
ای صبا ای پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاک او رسان
اس نظم کے ایک ایک شعر میں واقعہ کربلا کے راز کو بیان کیا گیا ہے مگر ان میں سے یہ شعر بہت مشہور ہوا ہے
بهر حق در خاک و خون غلطیده است | پس بنای لااله گردیده است
|
متعدد شیعہ ،سنی شعراء نے اپنے کلام میں امام حسینؑ کے مقصد کو توحید کی بنیاد اوراللہ کے پیغام کی تشریح قرار دیا ہے، فیصل آباد کے ایک مشہور سنی عالم مولانا محمداسحاق صاحب اپنی کتاب ’’مقصد حسین‘‘ صفحہ 469 پر وحید الحسن ہاشمی کا کلام لکھتے ہیں:
کہو نہ حاجت ذکر شہہ ہدی کیا ہے حسین ہی نے تو ثابت کیا خداکیا ہے
رضائ حق کی ہر ایک راہ میں ہے نقش حسین میں کربلا سے نہ جاؤں تو راستہ کیا ہے
اگر حسین کی سیرت پر ہو سکا نہ عمل تو پھر یہ مجلس ماتم کا فائدہ کیا ہے
بقائے دین کی ضمانت ہے فاطمہ کا پسر نہیں حسین تو اسلام میں دھرا کیا ہے۔
پھر مولانا محمد اسحاق لکھتے ہیں: اگر اسلام میں سے حسین ؑکو نکال دیا جائے تو اسلام کسی شئے کا نام نہیں۔ ص19
مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب المرتضیٰ میں لکھتے ہیں:
"صاف بات یہ ہے کہ جس نے حسینؑ کا واقعہ نہیں سمجھا اس کو اسلام کی سمجھ نہیں آ سکتی یہ صرف ایک شخصیت کا واقعہ نہیں بلکہ عین اسلام ہے "
پھر لکھتے ہیں:
” واقعہ کربلا ایک کہانی نہیں بلکہ نظام شریعت کو سمجھنے کے لئے، نظام شریعت کے قیام کے لئے، غلبہ اسلام اور پوری دنیا میں دین کو قائم کرنے کے لئے ،جو مسلمانوں کا اصل فریضہ ہے، بہت ضروری سبق ہے” (ماخوذاز مقصد حسین صفحہ 459 )
سیدقطب مصری لکھتے ہیں: یزید کا خلیفہ بن جانا قلب اسلام، نظام اسلام، ہدف اسلام اور مقاصد اسلام پر ایک ضرب تھی جسے امام نے خون دے کر بچایا۔
الازہر کےپروفیسر محمد محمود مدنی لکھتے ہیں:
بنفسہ اشتری حیاۃ الدین فیا لھا من ثمن ثمین
اپنی جان دے کر امام نے دین کی زندگی خریدی، ہائے افسوس کتنی بھاری قیمت ادا کی۔
اس دین کی بنیاد توحید ہے اور امام نے یہ توحید بتائی ،بچائی اور اس حکم ِتوحید کے مطابق اپنی زندگی بسر کرکے اور پھر زندگی قربان کر کے دکھائی۔
محدث ابن شیبہ نے لکھا: ان الحسین کان دلیلا علی ذاتہ تعالی۔
بلا شبہ حسینؑ اللہ تعالی کی ذات کی دلیل تھے۔
جوش نے کہا:
سجدوں سے کھینچتا ہے جو’’مسجود ‘‘کی طرف تنہا اک اشارہ ہے ’’معبود‘‘ کی طرف
ایک اور مقام پر جوش کہتے ہیں:
حملہ آور دین حیدر پر نہ تھےارباب شر ضرب تھی وہ اصل میں اسلام کی بنیاد پر
حوالہ:
[1] – طبری،ج4،ص40 خلاصہ