عزاداری کیا ہے؟
امام حسین ؑ کے جہاد وعمل کی اہمیت اور اس کی یاد یعنی عزاداری کا مقام بیان ہو چکا اور اس کی اہمیت و تاریخ پر علما بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جس چیز کی اتنی عظمت اور اہمیت ہے آیا اس کے کچھ اصول اور قواعد بھی ہیں یا نہیں اوروہ اصول و قواعد آج کے دور میں ہم جو عزاداری انجام دے رہے ہیں اس میں موجود ہیں یا نہیں ۔بالفاظ دیگر بطور عزادار اس دور میں ہماری کیا ذمہ داری ہے اور ہم اپنی ذمہ داری کو کس حد تک ادا کر رہے ہیں۔
عزاداری میں مجلس، ماتم ،جلوس ہر ایک عمل شامل ہے اورذاکر،خطیب،نوحہ خوان،ماتمی،مجلس کا بانی اور سننے والا ہر ایک عزادار ہے۔
عزاداری کے سب پہلؤں اور ہر عزادار کو درج ذیل اصول و شرائط کا خیال رکھنا چاہئے۔
1۔ رضائے خدا
عزاداری کا مقصد سید الشہداء کے مقصد سے ہم آہنگ ہواور جیسا کہ مقصد سید الشہداء میں بیان ہوچکا ہے کہ امام کا مقصد دین کی بقا و نجات اور اللہ کی رضا تھا اور امام کلمہ توحید کی بنیادو تشریح کا ذریعہ بن گئے۔عزاداری کے ہر حصے میں بھی امام حسینؑ کے دیئے ہوئے درس توحید نظر آنے چاہیں۔
امام وہ ہیں جو علامہ اقبال کے بقول :
آنکه بخشد بی یقینان را یقین | آنکه لرزد از سجود او زمین |
آنکه زیر تیغ گوید لااله | آنکه از خونش بروید لااله |
وہ جو بی یقینوں کو دولتِ یقیں سے نوازے ،وہ جس کے سجدوں سے زمیں کانپے،وہ جو تلوار کے نیچے بھی لا الہ کہے ،وہ جس کے خون سے بھی لا الہ پھوٹے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام مقام امام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"إِنَّمَا الْأَئِمَّةُ قُوَّامُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ عُرَفَاؤُهُ عَلَى عِبَادِهِ وَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وَ عَرَفُوهُ وَ لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْكَرَهُمْ وَ أَنْكَرُوهُ”[1]
’’بلاشبہ آئمہ اللہ کی مخلوق پر اْس کے مقرر کیے ہوئے حکمران اور بندوں کو اللہ کی پہچان کروانے والے ہیں جنت میں وہی جائے گا جسے آئمہ کی پہچان ہوگی اور وہ بھی اسے پہچانیں اور جہنم میں وہی ڈالا جائے گا جونہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں‘‘
اس فرمان کے مطابق امام کا کام اللہ کے بندوں کو اللہ کی معرفت کرانا ہے اور یہی مقصد امام حسینؑ کا تھا۔
کیاہماری عزاداری میں بھی اللہ کی معرفت کرائی جارہی ہے یا نہیں؟
ہماری عزاداری کے ہر رکن سے معرفت پروردگار ہونی چاہیے اور عزادار کا ہر عمل خدا کی رضا کے لئے ہونا چاہئے۔ نیت قربۃ الی اللہ کی ہونی چاہیے۔خدا نہ کرے کوئی شخص ریا، اپنی ناموری، مال و دولت کی نمائش کی خاطرعمل بجا لائے اور اسے عزاداری کہے۔عزاداری وہی ہو گی جس کا ہدف کربلا والوں جیسا ہو گا۔
اور مجلس وہی ہو گی جو اسلام کی عظمتوں کے دفاع کے لئے ہو گی۔ کہیں مجلس میں یہ بات نہ ہو کہ میری مجلس اور فلاں کی مجلس ، مجلس امام حسین کی ہونی چاہیے اور نیت خدا کی قربت اور رضا کی ہونی چاہیے۔
دوسرا اصول: اطاعت امام
عزاداری میں ضروری ہے کہ امام کی اطاعت پر زور دیا جائے اور عزاداری کے اعمال اطاعت میں اضافہ کا سبب بنیں۔ ااطاعت امام کا حق بھی اور توقع بھی ہے۔امیر المؤمنینؑ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقِّي عَلَيْكُمْ فَالْوَفَاءُ بِالْبَيْعَةِ وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ وَ الْإِجَابَةُ حِينَ أَدْعُوكُمْ وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُمْ(نہج البلاغہ:خطبہ۳۴)
اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو اور سامنے اورپسِ پشت خیر خواہی کرو،جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔
کربلا میں امام کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کمال یہی تھا کہ وہ امام کے مطیع و تابعدار تھے۔جان و مال کاخوف اور دشمن کی کثرت انہیں امام سے الگ نہ کر سکی۔ ہرعزادار کوکربلا سے امام کی "هل من ناصر ینصرنی” کی صدا سننے کے قابل بنا کر اس پر لبیک کہنی چاہیے ۔
نجم آفندی مرحوم لکھتے ہیں:
کربلا آج بھی ہے ایک لگاتار پکار ہے کوئی پیروی ابن علیؑ پر تیار
عزاداری وقت کے امام کی آواز پر لبیک کہنے کی تیاری کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ امام زمانہ جو زیارت ناحیہ میں فرماتے ہیں:
یا جداہ صَبَاحاً وَ مَسَاءً وَ لَأَبْكِيَنَّ عَلَيْكَ بَدَلَ الدُّمُوعِ دَما[2]
’’ اے بابا میں صبح و شام آپ پر روتا ہوں اور آنسو کے بجائے خون روتا ہوں‘‘۔
عزادار کوخود کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ امام کے گریہ و بکا کو سن سکے اور امامِ وقت کے ساتھ گریہ میں شامل ہو کر امام کے دل کی تسکین کا سبب بنے۔اور امامِ عصر کیا چاہتے ہیں وہی جو امیر المؤمنیناور امام حسین اور دیگر آئمہ چاہتے ہیں۔اس کے لئے نہج البل؛اغہ کو پڑھا جائے کہ علیؑ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔امام حسین ؑ کے خطبات و خطوط کو سمجھا جائے کہ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔مجالس میں بھی یہ خطبات بیان ہونے چاہیں۔
تیسرا اصول: عزاداری عبادت ہے
عزاداری ایک عظیم عبادت ہے اور اسے عبادت سمجھ کر انجام دیا جائے تجارت نہ بنائی جائے ۔عزاداری میں ایک مہم مقام ذاکر و خطیب کا ہے۔
(ا) انہیں خدا کی خاطر مجلس پڑھنا چاہیے نہ کے پیسے کی خاطر۔ آئمہ کمیت اور دعبل جیسوں کو بلاتے تھے کبھی فیس طے نہیں ہوتی تھی ۔بلکہ دعبل کہتے تھے میں فضائل و مصائب نہیں موت کا پھندا کندھے پر لئے پھر رہا ہوں۔کمیت کی لاش کے ٹکڑے کئے گئے اور آخری الفاظ تھے اللہم آل محمد ۔۔
پڑھنے والا اللہ کے لئے پڑھے، جناب زہرا ؑکی رضا کا متمنی رہے،مال و اولاد اور زندگی میں برکت طلب کرے ،سننے والا جناب سیدہ کے نام پر زیادہ سے زیادہ دےمگر لینے اور دینے پر سودا بازی اور کم اور زیادہ پر جھگڑے کر کےعزاداری کی توہین نہ کرے۔
من لایحضرالفقیہ میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے روایت نقل کی ہے کہ امام ؑنے فرمایا:
لَا تُصَلَّى خَلْفَ مَنْ يَبْغِي عَلَى الْأَذَانِ وَ الصَّلَاةِ بِالنَّاسِ أَجْراً وَ لَا تُقْبَلُ شَهَادَتُهُ[3]
’’جو شخص اجرت طے کرکے اذان کہتا ہے اور لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اس کی اقتداء میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس کی گواہی قبول کی جائے ‘‘۔
یہاں اجرت لینے اور دینے کے فقہی مسئلہ کو بیان نہیں کیا جا رہا اگر جائزبھی سمجھا جائے تو بھی یہ سودا بازی اور جھگڑے عبادت عزا کی اخلاقی توہین ضرور ہیں۔
(ب)کربلا اسلام کے اصولوں کو بچانے کی درسگاہ ہے کربلا کی یاد یعنی عزاداری میں ان اصولوں کو پامال نہ کیا جائے۔اسلام میں وعدے کی وفا کے لیےاس حد تک فرامین موجود ہیں کہ لَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَه[4] ’جو وعدہ وفا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے‘‘ بدقسمتی سے مجلس پڑھنے والوں میں وعدہ خلافی عام ہو چکی ہے، مجلس پڑھنے کے وقت تک بانی کو یقین نہیں ہوتا کہ نام حسین پر رُلانے والا وعدہ وفا کرے گا یا نہیں ۔آج اس مہم اصول کو پامال کرنے والوں میں سر پر عمامہ رکھنے والے بھی شامل ہو چکے ہیں مجلس منعقد کرنے والوں کو ایسے افراد کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
(ج) مجلس پڑھنے والوں والے کو کتاب خدا اور احادیث معصومین علیہم السلام کا کسی حد تک علم ہونا چاہئے اور اپنی علمی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے مطالعہ کرناچاہیے تاکہ وہ سننے والوں کو ایک مجلس میں کم از کم ایک حکم شریعت خواہ عقائد،احکام یا اخلاق سے مربوط ہو سنا سکے۔
(د)مجالس کا ایک اہم حصہ اور آئمہ کی طرف سے تاکید فضائل اہل بیت بیان کرنے کی ہے۔جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ کی مشہور حدیث ہے۔
زینوا مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب(بشارۃ المصطفی) ’’اپنی مجلسوں کو علی بن ابی طالب کے ذکر سے زینت دو‘‘
ٖفضائل کے لئے اللہ کےقران اور معصومینؑ کے فرامین سےبیش بہا خزانے علما نے جمع کر کے قوم کے سامنے پیش کئے ہیں ان کا مطالعہ کر کے فضائل بیان کئے جائیں تاکہ اپنی کوتاہ عقلی کی وجہ سے معصومین کی فضیلت کے بجائے توہین نہ ہو اور ان کے فضائل کے نام سے ان کی تعلیمات کی مخالفت نہ ہو۔اور ان کی ولایت کے بجائے انہیں اللہ سبحانہ کا شریک نہ بنا بیٹھیں۔ امیر المؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں اپنےسینکڑوں فضائل بیان فرمائے ۔خط ۲۸ میں اپنے بے بہا فضائل بیان کرتے کرتے قلم روک کر فرماتے ہیں: غَيْرَ مُخْبِرٍ لَكَ وَ لَكِنْ بِنِعْمَةِ اللَّهِ أُحَدِّثُ
’’ان فضائل کے بیان سے تمہیں کوئی اطلاع نہیں دے رہا بلکہ ان فضائل کو نعمتِ خدا سمجھ کر بیان کر رہا ہوں‘‘
اور اسی خط میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:
وَ كِتَابُ اللَّهِ يَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا
’’ہمارے جو فضائل ہمارے بیان سے رہ گئے ہیں انہیں اللہ کی کتاب جامع الفاظ میں بیان کر دیتی ہے‘‘
حوالہ جات
[1] -نہج البلاغہ خطبہ 150
[2] – بحار الأنوار ؛ ج98 ؛ ص238
[3] – من لا يحضره الفقيه ؛ ج3 ؛ ص43
[4] – النوادر (للراوندي) ؛ ص5