سیدنا امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا (مولانا سلیم جباری اہلحدیث)
گزرے ہیں اس جہان میں ایسے بھی کچھ شہید
مقتول تا ابد رہا قاتل نہیں رہا
تاریخ کا مسافر ایسے ویرانے میں پہنچ کر حیران کھڑا ہے ،جہاں ہر سو انسانوں کے کٹے ہوئے لاشے اور خون بکھرا پڑا ہے۔ لاشے نوجوانوں کے بھی ہیں اور معصوم بچوں کے بھی،بلکہ ایک طرف تو شیر خوار بچے کے حلق میں تیرا ٹکا ہوا ہے ۔بھلا اس نے کیا جرم کیا ہوگا؟ دوسری طرف ایک سر ہے جو نیزے پر لٹکا کر فضا میں لہرا دیا گیا ہے۔ قریب چند خیمے ہیں جنہیں آگ لگائی جا چکی ہے۔ اب ان خیموں سے آہوں اورسسکیوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ ان خیموں میں وہ پاکباز عورتیں ہیں جن کے چہروں کو کبھی آسمان نے نہیں دیکھا ہوگا۔ وطن سے دور صحرا میں ان عورتوں کا واحد سہارا ایک فرد ہیں اور وہ بھی بیمار جس کے کمزور ناتواں کندھوں پر ان عورتوں کی نگرانی اور کفالت کا بوجھ ہے، وہاں اس کی وراثت فقط بے گورو کفن لاشے ہیں جنہیں دفن کرنے کے لیے کوئی اس کا ساتھ دینے والا بھی نہیں۔ ذرا غور کیجئے یہ خانہ ویرانی کس کی ہوئی؟ نیزے پر لہراتا ہوا سر کس کا ہے؟ خاک میں اٹکے ہوئے یہ ہونٹ کس کے ہیں؟ ہاں! یہ وہی ہونٹ ہیں جنہیں وہ ہونٹ چومتے تھے جن سے وحی کے مقدس پھول جھڑتے تھے۔ یہ سر وہی ہے جسے جنتی جوانوں کی سرداری کا تاج پہنے جانا کا وعدہ خود سردار دوجہاں نے دیا تھا۔ اب وہ سر تاج پوشی کے لئے تیار ہے۔ کٹنے والا یہ خاندان وہی تھا، جس کے رگوں میں اس نبیؐ کا مقدس خون بہتا تھا جس نے زندگی بھر کسی کو ذرا تکلیف نہ دی تھی بلکہ پتھر مارنے والوں کو جھولی پھیلا کر دعائیں دی تھیں۔
مولانا محمد سلیم جباری، اہلحدیث عالم
ماخوذ از مقصد حسینؑ مولانا محمد اسحاق مدنی ص 449