زیارتِ اربعین ؛ شعائرِ الہی کی تعظیم
” ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ "۔ (سورہ حج ، آیت ۳۲)
یقینا شعائرِ الہی کی تعظیم و تکریم ، دین ِ اسلام کے اہم و بنیادی دستورات و تعلیمات میں سے ایک ہے۔ شعائر، عظمت کی نشانیوں کے معنی میں ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عمومی طور پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ پر ہر وہ کام اور عمل کہ جو یادِ خدا ، تقوای ِالہی اور معنوی و روحانی کمال کا باعث بنیں ، وہ شعائرِالٰہی کہلاتے ہیں۔بالخصوص ایسی عبادتیں جو علی الاعلان اور آپس میں مل کر اکٹھے انجام دی جاتی ہیں۔ جیسے حج بیت اللہ الحرام ۔
انہی شعائرِالٰہی میں سے ایک اربعینِ حسینی یعنی امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہے ۔ اُس کی تعظیم و تکریم کرنا ، اسے شاندار طور پر علی الاعلان اکٹھے مل کر منانا ، دینِ اسلام کی تعلیمات و دستورات اور معصومین علیہم السلام کے احکام و فرامین اور سیرت و کردار میں نمایاں اور انتہائی پسندیدہ عمل شمار کیا گیا ہے ۔ اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہےاور قرآن کریم میں اسےباتقوا دلوں کی صفات میں سے شمار کیا گیاہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ”۔ "یہ ہمارا فیصلہ ہے اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی”۔ (سورہ حج ، آیت ۳۲)
ایک طرف سے عاشورا ء کے دن انتہائی دلخراش واقعہ کا رونما ہونا ، امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت مخصوص المناک حالات ، مسلمانوں اور عالمِ اسلام کے ناگفتہ بہ حالات و واقعات ، ظالم و جابر حکمرانوں کا ظلم و ستم ، جبر و استبداد ، لوٹ کھسوٹ ، علی الاعلان اور کھلے عام فسق وفجور اور بُرے کاموں کا انجام دینا اوردین اسلام میں بدعتوں کا رواج پانا ۔ تو دوسری طرف سے امام حسین علیہ السلام کا اپنے الٰہی صفات و خصوصیات اور مقام و منزلت کے باوجود ان تمام برائیوں اور بدعنوانیوں کے ساتھ مصالحت نہ کرنا اور ان کے خلاف قیام کرنا ۔ان کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اورتنہائی ، ناعادلانہ جنگ اور آپ علیہ السلام کے خاندان اور اصحاب و انصار پر ڈھائے جانے والے مظالم و مصائب کی شدّت ہے ۔
کربلا ، ایک ایسا اُسوہ حسنہ اورعظیم مثالی درسگاہ ہے کہ جس میں پوری انسانیت کیلئے انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور پہلووں[انفرادی و اجتماعی ، علمی و تربیتی ، سماجی و سیاسی ، دینی و مذہبی، اورعسکری وغیرہ] میں بہت سے سبق آموز درس ، بے پناہ عبرتیں اور انمٹ نقوش پائے جاتے ہیں کہ جن سب نے واقعہ کربلا کو ایک خاص اہمیت عطا کی ہے ۔ یہاں تک کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت زہراء سلام اللہ علیہا اور باقی تمام آئمہ معصومین علیہم السلام نے ہرحال میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری منانے اور ہمیشہ اُن کی یاد کو زندہ و جاوید رکھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ جس کی ایک بہترین مثال امام حسین علیہ السلام کے چہلم کو منانا اور مولا حسین علیہ السلام کی عزاداری کرنا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اربعینِ حسینی(یعنی امام حسین علیہ السلام کا چہلم)کیسے شعائرِ الٰہی کا ایک اہم اور عظیم رکن ہے؟
اربعینِ امام حسین علیہ السلام کی اتنی عظمت و اہمیت کی وجہ کیا ہے؟
کیوں بزرگانِ دین اور شیعیانِ حیدرکراربڑے اہتمام کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا چہلم مناتے اور عزاداری کرتے ہیں؟
اس بارے مختصر طور پر کچھ نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں:
1۔ امام حسین علیہ السلام کا چہلم [۲۰ صفرالمظفر] بزرگانِ دین ، شیعیان ِحیدرکرار علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کیلئے تجدیدِِ غم (یعنی غموں اور دکھوں کے تازہ ہونے) اور تجدیدِِ عہد(یعنی اپنے وقت کے امام عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ دوبارہ بیعت کرنے اور عہد و پیمان باندھنے) کا دن ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے :
” و ذکّرھم بایّام اللہ ؛ انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلائو” ۔ (سورہ ابراہیم ، آیہ 5)
بحث و گفتگو سے قطع نظر جو بات عملی طور پر خاص کر یوم اللہ [اربعین حسینی یعنی چہلم امام حسین علیہ السلام]کے بارے میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ واقعہ کربلا کی یاد منانا اور اُسے اپنے لیئے اُسوہ حسنہ اور نمونہ عمل کے طور پر اپنانا ہے۔ کیونکہ کربلا ایک ایسی عظیم مثالی درسگاہ ہے جو انسان کی زندگی کے ہر شعبے اور مرحلے میں ہر صنف ، ہر طبقہ فکر اور ہر عمر کے افراد کیلئے نمونہ عمل اور رول ماڈل ہے۔
سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی جناب جابر بن عبداللہ انصاری نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اور چہلم منایا۔ جب انہیں واقعہ کربلا میں مولاحسین علیہ السلام ، آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصارکی دردناک و المناک شہادت کی خبر ملی تو وہ مدینہ منورہ سے چلے اور بیس صفر المظفر کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیسویں دن کربلای معلی میں پہنچے۔
مولا حسین علیہ السلام کے سب سے پہلے زوّار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی جابر بن عبداللہ انصاری ہیں۔ چہلم ِامام حسین علیہ السلام کی زیارت کی سنت بھی انہی سے شروع ہوئی ہے۔صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری جب کربلای معلی پہنچے تو انہوں نے نہر کے کنارے غسلِ زیارت کیا۔ صاف ستھرا لباس پہنا اور بسم اللہ پڑھ کر اپنے مظلوم امام مولا حسین علیہ السلام کی قبر اطہر کی جانب پیدل چلے۔ جابر بن عبداللہ انصاری اپنے ہر ہر قدم پر ذکرِ الہی کا ورد کیئے جارہے تھے یہاں تک کہ وہ امام حسین علیہ السلام کی قبراطہر پہ پہنچے ، اس پر گرے اور بیہوش ہوگئے۔
مقتل کی سب سے مستند کتاب ” اللہوف ” کے مصنف جناب سید ابن طاووس نے لکھا ہے کہ:
بیس صفر المظفرچہلم کے دن اہل بیت علیہم السلام کے اسیروں کا قافلہ شام سے کربلا پلٹا ۔ جب کربلا کے اسیروں کا قافلہ شام سے عراق پلٹ رہا تھا تو انہوں نے ساربان سے کہا کہ ہمیں کربلا [کے راستے ]لے چلو۔ لہذا کربلا کے اسیروں کا لٹا ہوا قافلہ ۲۰صفرالمظفر چہلم کے دن کربلای معلی میں پہنچا۔ وہاں پر امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر کی زیارت کی اور اپنے مظلوم امام حضرت حسین علیہ السلام کی عزاداری کااہتمام کیا اور مجلس بپا کی ۔
آئمہ معصومین علیہم السلام نے راہِ کربلا کو رہتی دنیا تک جاری و ساری اور واقعہ کربلا کو زندہ و جاوید رکھنے کیلئے، اربعین ِ حسینی (یعنی امام حسین علیہ السلام کے چہلم )کے دنوں کو ” ایام اللہ "سے تعبیر کیا ہے۔ آپ علیہم السلام نے چہلم کے دنوں میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے اور ان کی مظلومیت پر عزاداری منانے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ لوگوں کو ایام اللہ کی یاد دلائو۔ انہوں نے کربلای معلی میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار کے سب سے پہلے زوّار جابر بن عبداللہ انصاری کی بہت زیادہ تجلیل و تکریم اور شاندار استقبال کیا ہے۔
لہذا ہم ہمیشہ یہ نعرہ لگاتے ، سنتے اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ:
ابد واللہ یا زھراء ماننسیٰ حسیناً ؛
اے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ؛ اللہ کی قسم ، ہم مولا حسین علیہ السلام کو کبھی نہیں بھُلائیں گے۔
اور دوسرا یہ کہ :
زندہ یہ بیداری رہے یہ سلسلہ جاری رہے
ہم ہوں نہ ہوں اس بزم میں قائم عزاداری رہے
2۔ آئمہ معصومین علیہم السلام نے امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقع پر زیارت اربعین پڑھنے کا حکم دیا ہے اور اس پر خصوصی تاکید کی ہے ۔ زیارتِ اربعین امام حسین علیہ السلام کی فضیلت کیلئے امام حسن عسکری علیہ السلام کی بس ایک یہی حدیث کافی ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام نے مومن کی پانچ نشانیاں بیان فرمائی ہیں :
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:
"عَلاماتُ المُؤْمِنِ خمْس: صَلاةُ (احدی و) خَمْسِین، وَ زِیارَةُ الْأرْبِعَینِ وَ التَّخَتُّمُ فِی الْیمِینِ، وَ تَعفیرُ الْجَبِینِ وَ الْجَهْرُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم ؛
مومن کی پانچ نشانیاں ہیں : 1۔ اکیاون رکعت نماز 2۔ زیارت اربعین 3۔ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا 4، خاک پہ سجدہ کرنا 5۔ بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا "۔ (وسائل الشیعه، ج ۱۰، ص ۳۷۳)
قول الحکیم لایخلوا عن الحکمۃ ؛ کیونکہ دانا کا قول حکمت سے خالی نہیں ہوتا لہذا امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی مبارک زبان سے الٰہی حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے مومنوں کی پانچ نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔جن میں سے مومن کی ایک نشانی اربعین کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت بیان کی گئی ہے ۔
اسی لیئے تو پوری دنیا کے گوشہ و کنار سے محمد وآل محمد علیہم السلام اور اہل بیت علیہم السلام سے عقیدت رکھنے او رمحبت کرنے والوں کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے ایام میں کربلای معلی میں پہنچ کر اپنے مظلوم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کرسکیں اور جن کیلئے سفر کے وسائل مہیا نہیں ہوتے ان کے دل میں زیارت کی آرزو اور تڑپ مسلسل پنپتی رہتی ہے ۔
3۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کی عظیم مصیبت
دوسرے آئمہ علیہم السلام کی نسبت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ جس کی بڑی اہمیت ہے ۔
پورے سال میں خوشی اور غمی کی مختلف مناسبتوں کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے اور پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود زیارتِ اربعین امام حسین علیہ السلام کا اپنا ایک خاص مقام ہے ۔ جس کی ایک اہم وجہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کی عظیم مصیبت ہے ۔
” مصیبۃ ما اعظمھا و اعظم رزیتھا فی الاسلام "
اتنی عظیم مصیبت کہ جس کی مثال تاریخ میں نہ پہلے ملتی ہے نہ کہیں بعد میں ۔جس کا فرق باقی دوسرےسب مصائب سے بالکل واضح ہے۔
جیسا کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام سے فرمایا:
” لایوم کیومک یا ابا عبداللہ ؛
اے ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام ؛کوئی بھی دن آپ کے دن (روز عاشور) جیسا نہیں”۔
مولا حسین علیہ السلام کی شہادت ، عالم ِ اسلام کی سب سے عظیم مصیبت ہے لہذا تمام معصومین علیہم السلام کی پوری کوشش یہی ہوتی تھی کہ جیسے بھی ہو امام حسین علیہ السلام کی عظیم مصیبت کی یاد تازہ اور زندہ و جاوید رہے ۔
4۔ کائنات کی تمام تر مخلوقات کا چالیس دنوں تک امام حسین علیہ السلام پر ڈھائی جانے والی عظیم مصیبت پر رونا ۔
شاید امام حسین علیہ السلام کا چہلم منانے اور ان دنوں میں سنہ 61 ھ سے لےکر آج تک مظلوم مولا حسین علیہ السلام کا غم منانے ، ان کی عزاداری کرنے اور پرسہ دینے ، ایام اللہ کی یاد کو زندہ و جاویدرکھنے ، راہِ کربلا کو جاری رکھنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادتِ عظمیٰ کے بعد چالیس دنوں تک کائنات کی تمام مخلوقات نے گریہ کیا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں اپنے خاص صحابی زرارہ سے فرمایا:
یا زُرارَة! إِنَّ السَّماءَ بَکَتْ عَلی الْحُسَینِ عَلَیهِ السَّلام اَرْبَعِینَ صَباحاً بِالدَّمِ وَ إِنَّ الْأَرْضَ بَکَتْ أرْبَعینَ صَباحاً بِالسَّواد وَ إِنًّ الشَّمْسَ بَکَتْ اَرْبَعِینَ صَباحاً بِالْکُسُوفِ وَ الْحَمْرَةَ… وَ إِنَّ الْمَلائکَةَ بَکَتْ اَرْبَعِینَ صَباحاً عَلَی الْحُسَینِ عَلَیهِ السَّلام ؛ اے زرارہ! بے شک آسمان چالیس دن تک حسین علیہ السّلام پرخون رویا ، زمین نے چالیس دن تک سیاہی کی صورت میں ان پرگریہ کیا ، سورج نے چالیس دن تک گرہن اورسرخی کی صورت میں ان پر گریہ کیا . . . اور فرشتے بھی چالیس دنوں تک امام حسین علیہ السلام پر روئے ۔(كامل الزيارات،ص81)
خلاصہ یہ کہ کائنات کی ہر مخلوق نے چالیس دنوں تک اپنے اپنے انداز میں مظلوم مولا حسین علیہ السلام کی عظیم مصیبت پر گریہ کیا ۔اہل بیت علیہم السلام نے بھی اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور چالیس دنوں تک مظلوم مولا حسین علیہ السلام کی عزاداری کا باقاعدہ اہتمام کر کے اورگریہ وزاری فرما کر اس سنتِ حسنہ کو قائم کیا ہے ۔
5۔ اظہارِ بندگی اور شعائر الٰہی کی تعظیم
یہ پیدل چل کر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے جانا ، اظہارِ بندگی اور شعائر الٰہی کی تعظیم کا ایک عملی نمونہ اور واضح ثبوت ہے ۔ معصومین علیہم السلام کی زیارت کیلئے پیدل چل کر جانے کے دو پہلو ہیں: ایک طرف سے معصومین علیہم السلام بالخصوص سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شرف ہے تو دوسری طرف سے بارگاہِ الٰہی میں خشوع و خضوع کا ذریعہ ہے ۔ خاص طور پر اگر ننگے پائوں پیدل چلا جائے ۔ کیونکہ بعض الٰہی احکامات میں اس بارے شواہد ملتے ہیں ۔ جیسے جوتے پہن کر نماز جایز نہیں ہے کیونکہ یہ خشوع و خضوع اور احترام کے منافی ہے ۔
قرآن کریم میں یہ ارشاد رب العزت کہ جس میں حضرت موسی علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے :
” إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ؛ میں تمہارا پروردگار ہوں لہذا اپنی جوتیوں کو اتار دو کہ تم طویٰ نام کی ایک مقدس اور پاکیزہ وادی میں ہو "۔ (سورہ طٰہٰ : آیت 12)
اس بات کا بہترین گواہ ہے یہ کہ مقدس مقامات اور عبادت گاہوں میں ننگے پائوں پیدل چل کر جانا عاجزی و انکساری میں مزید اضافے کا باعث ہے ۔جیسا کہ نماز ِ یومیہ کیلئےمسجد میں پیدل چل کر جانا ، خانہ کعبہ کا طواف پیدل کرنا مستحب ہے ۔ جو بارگاہِ الٰہی میں اظہارِ بندگی اور شعائر الٰہی کی تعظیم و تکریم سے زیادہ مناسب ہے ۔ جیسے حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کیلئے ؛
” إِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ؛ بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کیلئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کا چکر لگائے "۔ (سورہ البقرۃ : آیت 158)
اور رمی جمرات یعنی شیطانوں کو کنکریاں مارنے کیلئے ، مومن بھائی کی تشییع جنازہ کیلئے اور مومن بھائی کی زیارت کیلئے پیدل چل کر جانا شعائر الٰہی کی تعظیم و تکریم شمار ہوتا ہے۔
لہذا معصومین علیہم السلام کی زیارت کیلئے پیدل چل کر جانا درحقیقت تین عبادتوں پر مشتل ہے:
1۔ بارگاہِ الٰہی میں خشوع و خضوع اور اظہارِ بندگی ،
2۔ امام و پیشوا ، رہبر و رہنما کی زیارت ،
3۔ شعائر ِ الٰہی کی تعظیم و تکریم ۔
اسی وجہ سے اس زیارتِ اربعین امام حسین علیہ السلام کا بہت عظیم ثواب ہے ۔
دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ بحق محمد وآل محمد علیہم السلام ہم سب کو یہ عظیم سعادت نصیبب فرمائے اور منتقم ِ خونِ حسینی کے ظہور پر نور میں تعجیل فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بحق سیدۃ النساء العالمین
محتاج ِدعا : ڈاکٹرقاضی فیاض حسین علوی