خطبہ (۲) صفین سے پلٹنے کے بعد فرمایا
(٢) وَمِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲)
بَعْدَ انْصِرَافِهٖ مِنْ صِفِّیْنَ
صفین سے پلٹنے کے بعد فرمایا
اَحْمَدُهُ اسْتِتْمَامًا لِّنِعْمَتِهٖ، وَ اسْتِسْلَامًا لِّعِزَّتِهٖ، وَ اسْتِعْصَامًا مِّنْ مَّعْصِیَتِهٖ، وَ اَسْتَعِیْنُهٗ فَاقَةً اِلٰى كِفَایَتِهٖ، اِنَّهٗ لَا یَضِلُّ مَنْ هَدَاهُ، وَ لَا یَئِلُ مَنْ عَادَاهُ، وَ لَا یَفْتَقِرُ مَنْ كَفَاهُ، فَاِنَّهٗ اَرْجَحُ مَا وُزِنَ، وَ اَفْضَلُ مَا خُزِنَ.
اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں، اس کی نعمتوں کی تکمیل چاہنے، اس کی عزت و جلال کے آگے سر جھکانے اور اس کی معصیت سے حفاظت حاصل کرنے کیلئے اور اس سے مدد مانگتا ہوں اس کی کفایت و دستگیری کا محتاج ہونے کی وجہ سے۔ جسے وہ ہدایت کرے وہ گمراہ نہیں ہوتا، جسے وہ دشمن رکھے اسے کوئی ٹھکانا نہیں ملتا، جس کا وہ کفیل ہو وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا۔ یہ (حمد اور طلب ِامداد) وہ ہے جس کا ہر وزن میں آنے والی چیز سے پلہ بھاری ہے اور ہر گنجِ گراں مایہ سے بہتر و برتر ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ، شَهَادَةً مُّمْتَحَنًا اِخْلَاصُهَا، مُعْتَقَدًا مُّصَاصُهَا، نَتَمَسَّكُ بِهَاۤ اَبَدًا مَّاۤ اَبْقَانَا، وَ نَدَّخِرُهَا لِاَهَاوِیْلِ مَا یَلْقَانَا، فَاِنَّهَا عَزِیْمَةُ الْاِیْمَانِ، وَ فَاتِحَةُ الْاِحْسَانِ، وَ مَرْضَاةُ الرَّحْمٰنِ، وَ مَدْحَرَةُ الشَّیْطٰنِ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو یکتا و لاشریک ہے، ایسی گواہی جس کا خلوص پرکھا جا چکا ہے اور جس کا نچوڑ بغیر کسی شائبہ کے دل کا عقیدہ بن چکا ہے، زندگی بھر ہم اسی سے وابستہ رہیں گے اور اسی کو پیش آنے والے خطرات کیلئے ذخیرہ بنا کر رکھیں گے، یہی گواہی ایمان کی مضبوط بنیاد اور حسنِ عمل کا پہلا قدم اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ اور شیطان کی دوری کا سبب ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ،اَرْسَلَهٗ بِالدِّیْنِ الْمَشْهُوْرِ، وَ الْعَلَمِ الْمَاْثُوْرِ، وَ الْكِتَابِ الْمَسْطُوْرِ، وَ النُّوْرِ السَّاطِعِ، وَ الضِّیَآءِ اللَّامِعِ، وَ الْاَمْرِ الصَّادِعِ، اِزَاحَةً لِّلشُّبُهَاتِ، وَ احْتِجَاجًۢا بِالْبَیِّنَاتِ، وَ تَحْذِیْرًۢا بِالْاٰیَاتِ، وَ تَخْوِیْفًۢا بِالْمَثُلَاتِ.
اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں، جنہیں شہرت یافتہ دین، منقول شدہ نشان، لکھی ہوئی کتاب [۱] ، ضوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا، تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور دلائل (کے زور) سے حجت تمام کی جائے، آیتوں کے ذریعے ڈرایا جائے اور عقوبتوں سے خوف زدہ کیا جائے۔
وَ النَّاسُ فِیْ فِتَنٍ انْجَذَمَ فِیْهَا حَبْلُ الدِّیْنِ، وَ تَزَعْزَعَتْ سَوَارِی الْیَقِیْنِ، وَ اخْتَلَفَ النَّجْرُ وَ تَشَتَّتَ الْاَمْرُ، وَ ضَاقَ الْمَخْرَجُ وَ عَمِیَ الْمَصْدَرُ، فَالْهُدٰى خَامِلٌ، و الْعَمٰى شَامِلٌ. عُصِیَ الرَّحْمٰنُ، وَ نُصِرَ الشَّیْطٰنُ، وَ خُذِلَ الْاِیْمَانُ، فَانْهَارَتْ دَعَآئِمُهٗ، وَ تَنَكَّرَتْ مَعَالِمُهٗ، وَ دَرَسَتْ سُبُلُهٗ، وَ عَفَتْ شُرُكُهٗ.
(اس وقت حالت یہ تھی کہ) لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے، نکلنے کی راہیں تنگ و تار تھیں، ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں) اللہ کی مخالفت ہوتی تھی اور شیطان کو مدد دی جا رہی تھی، ایمان بے سہارا تھا، چنانچہ اس کے ستون گر گئے، اس کے نشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے، اس کے راستے مٹ مٹا گئے، اور شاہرا ہیں اجڑ گئیں۔
اَطَاعُوا الشَّیْطٰنَ فَسَلَكُوْا مَسَالِكَهٗ، وَ وَرَدُوْا مَنَاهِلَهٗ، بِهِمْ سَارَتْ اَعْلَامُهٗ وَ قَامَ لِوَآئُهٗ، فِیْ فِتَنٍ دَاسَتْهُمْ بِاَخْفَافِهَا وَ وَطِئَتْهُمْ بِاَظْلَافِهَا وَ قَامَتْ عَلٰى سَنَابِكِهَا، فَهُمْ فِیْهَا تَآئِهُوْنَ حَآئِرُوْنَ جَاهِلُوْنَ مَفْتُوْنُوْنَ، فِیْ خَیْرِ دَارٍ، وَ شَرِّ جِیْرَانٍ، نَوْمُهُمْ سُهُوْدٌ، وَ كُحْلُهُمْ دُمُوْعٌ، بِاَرْضٍ عَالِمُهَا مُلْجَمٌ وَّ جَاهِلُهَا مُكْرَمٌ.
وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اس کے گھاٹ پر اتر پڑے، انہی کی وجہ سے اس کے پھریرے ہر طرف لہرانے لگے تھے، ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سموں سے روندتے اور اپنے کُھروں سے کچلتے تھے اور اپنے پنجوں کے بَل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے۔ تو وہ لوگ ان میں حیران و سرگرداں، جاہل و فریب خوردہ تھے، ایک ایسے گھر میں جو خود اچھا [۲] ، مگر اس کے بسنے والے برے تھے، جہاں نیند کے بجائے بیداری اور سرمے کی جگہ آنسو تھے۔ اس سر زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معزز و سرفراز تھا۔
[ وَ مِنْهَا: یَعْنِیْ اٰلَ النَّبِیِّ ﷺ]
[اسی خطبہ کا ایک حصہ جو اہل بیت نبی علیہم السلام سے متعلق ہے]
هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهٖ، وَ لَجَاُ اَمْرِهٖ، وَ عَیْبَةُعِلْمِهٖ، وَ مَوْئِلُ حِكَمِهٖ، وَ كُهُوْفُ كُتُبِهٖ، وَ جِبَالُ دِیْنِهٖ، بِهِمْ اَقَامَ انْحِنَآءَ ظَهْرِهٖ، وَ اَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَآئِصِهٖ.
وہ سرِ خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہ گاہ ہیں، علمِ الٰہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں، کتب (آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کا خم سیدھا کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کی کپکپی دور کی۔
[وَ مِنْهَا: یَعْنِیْ قَوْمًا اٰخَرِیْنَ]
[اسی خطبہ کا ایک حصہ جو دوسروں سے متعلق ہے]
زَرَعُوا الْفُجُوْرَ، وَ سَقَوْهُ الْغُرُوْرَ، وَ حَصَدُوا الثُّبُوْرَ.
انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی، غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ہلاکت کی جنس حاصل کی۔
لَا یُقَاسُ بِاٰلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اَحَدٌ، وَ لَا یُسَوّٰى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَیْهِ اَبَدًا. هُمْ اَسَاسُ الدِّیْنِ، وَ عِمَادُ الْیَقِیْنِ، اِلَیْهِمْ یَفِیْٓءُ الْغَالِیْ وَ بِهِمْ یَلْحَقُ التَّالِیْ، وَ لَهُمْ خَصَآئِصُ حَقِّ الْوِلَایَةِ، وَ فِیْهِمُ الْوَصِیَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ، اَلْاٰنَ اِذْ رَجَعَ الْحَقُّ اِلٰۤى اَهْلِهٖ، وَ نُقِلَ اِلٰى مُنْتَقَلِهٖ۔
اس اُمت میں کسی کو آلِ محمد علیہم السلام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔ آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آ کر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کیلئے ہیں اور انہی [۳] کے بارے میں (پیغمبرؐ کی) وصیت اور انہی کیلئے (نبیؐ کی) وراثت ہے۔ اب یہ وقت وہ ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہو گیا۔
۱’’لوحِ محفوظ‘‘ میں۔
۲اچھے گھر سے مراد ’’مکہ‘‘ اور برے ہمسایوں سے مراد ’’کفار قریش‘‘ ہیں۔
۳’’اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے متعلق فرماتے ہیں کہ: ’’دنیا کی کسی فرد کو ان پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان کی بلندی درجات میں کسی کو ان کا ہم پایہ سمجھا جا سکتا ہے‘‘، کیونکہ دنیا ان کے احسانات کی گراں باریوں میں دبی ہوئی ہے اور انہی سے نعمتِ ہدایت پا کر اُخروی نعمتوں کی مستحق ہوئی ہے۔ وہ دین کی اساس و بنیاد اور اس کی زندگی و بقا کا سہارا ہیں۔ وہ علم و یقین کے ایسے محکم ستون ہیں کہ شک و شبہات کے طوفانوں کا دھارا موڑ سکتے ہیں اور افراط و تفریط کی راہوں میں وہ درمیانی راستہ ہیں کہ اگر کوئی غلو و افراط کی حد تک پہنچ جائے یا کوتاہی و تفریط میں پڑ جائے تو وہ جب تک پیچھے ہٹ کر یا آگے بڑھ کر اس جادۂ اعتدال پر نہیں آئے گا، اسلام کی راہ پر آ ہی نہیں سکتا اور انہی میں تمام وہ خصوصیتیں پائی جاتی ہیں جو امامت و قیادت میں ان کے حق کو فائق قرار دیتی ہیں۔ لہٰذا ان کے علاوہ کسی کو اُمت کی سر پرستی و نگہبانی کا حق نہیں پہنچتا۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ نے انہی کو اپنا وصی و وارث ٹھہرایا۔
وصیت و وراثت کے متعلق شارح معتزلی نے لکھا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی وصایت میں تو کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وراثت سے نیابت و جانشینی کی وراثت مراد نہیں ہے، بلکہ وراثت علمی مراد ہے۔ اگرچہ فرقہ امامیہ اس سے خلافت و نیابت ہی مراد لیتا ہے۔ اگر بقول ان کے وراثت سے وراثت علمی مراد لی جائے، جب بھی وہ اپنے مقصد میں کامران ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے، کیونکہ اس معنی کی رُو سے بھی نیابت پیغمبرؐ کا حق کسی دوسرے کو نہیں پہنچتا۔ جب کہ یہ امر مسلم ہے کہ خلافت کیلئے سب سے بڑی ضرورت علم کی ہے۔ اس لئے کہ خلیفة الرسولؐ کے اہم ترین فرائض میں سے مقدموں کا فیصلہ کرنا، شریعت کے مسائل حل کرنا، مشکل گتھیوں کو سلجھانا اور شرعی حدود کا اجرا کرنا ہے۔ اگر نائب رسولؐ کے فرائض میں سے ان چیزوں کو الگ کر دیا جائے تو اس کی حیثیت صرف ایک دنیوی حکمران کی رہ جاتی ہے۔ اسے دینی اقتدار کا مرکز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لہٰذا یا تو حکومت کو خلافت سے الگ رکھئے یا جو رسول ﷺ کے علم کا وارث ہو، اسے ہی خلافت کے منصب کا اہل سمجھئے۔
ابنِ ابی الحدید کی یہ تشریح اس صورت میں قابلِ لحاظ ہو بھی سکتی تھی، جب یہ فقرہ اکیلا آپؑ کی زبان پر آیا ہوتا، لیکن اس موقعہ کو دیکھتے ہوئے کہ وہ خلافتِ ظاہری کے تسلیم ہونے کے بعد کہا گیا ہے اور پھر اسی کے بعد: اِذْ رَجَعَ الْحَقُّ اِلٰٓی اَهْلِهٖ کا فقرہ موجود ہے، ان کی یہ تشریح بالکل بے بنیاد معلوم ہوتی ہے، بلکہ وصایت سے بھی کوئی اور وصیت نہیں، بلکہ وہ نیابت و خلافت ہی کی وصیت مراد معلوم ہوتی ہے اور وراثت بھی نہ وراثت مالی اور نہ وراثت علمی، جس کے بیان کا یہ کوئی موقعہ نہیں، بلکہ حق امامت کی وراثت ہے جو صرف بر بنائے قرابت نہیں، بلکہ بر بنائے اوصافِ کمال ان کیلئے منجانب اللہ ثابت تھی۔↑