خطبات

خطبہ (۵) پیغمبرؐ کے بعد جب ابوسفیان نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو اس موقع پر فرمایا

(٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۵)

لَمَّا قُبِضَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَ خَاطَبَهُ الْعَبَّاسُ وَ اَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فِیْۤ اَنْ يُّبَايِعَا لَهٗ بِالْخِلَافَةِ:

جب رسول اللہ ﷺنے دنیا سے رحلت فرمائی تو عباس اور ابو سفیان ابن حرب [۱] نے آپؑ سے عرض کیا کہ ہم آپؑ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں جس پر حضرتؑ نے فرمایا

اَيُّهَا النَّاسُ! شُقُّوْۤا اَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ، وَ عَرِّجُوْا عَنْ طَرِيْقِ الْـمُنَافَرَةِ، وَ ضَعُوْا عَنْ تِيْجَانِ الْـمُفَاخَرَةِ. اَفْلَحَ مَنْ نَّهَضَ بِجَنَاحٍ، اَوِ اسْتَسْلَمَ فَاَرَاحَ، هٰذَا مَآءٌ اٰجِنٌ، وَ لُقْمَةٌ يَّغَصُّ بِهَا اٰكِلُهَا، وَ مُجْتَنِی الثَّمَرَةِ لِغَيْرِ وَقْتِ اِيْنَاعِهَا كَالزَّارِعِ بِغَيْرِ اَرْضِهٖ.

اے لوگو ! فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر اپنے کو نکال لے جاؤ، تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنا رخ موڑ لو، فخر و مباہات کے تاج اتار ڈالو، صحیح طریقہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پر وبال کے ساتھ اٹھے اور نہیں تو (اقتدار کی کرسی) دوسروں کیلئے چھوڑ بیٹھے اور اس طرح خلق خدا کو بد امنی سے راحت میں رکھے۔ یہ (اس وقت طلب ِخلافت کیلئے کھڑا ہونا) ایک گدلا پانی اور ایسا لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلو گیر ہو کر رہے گا۔ پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے چننے والا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا۔

فَاِنْ اَقُلْ يَقُوْلُوْا: حَرَصَ عَلَى الـمُلْكِ، وَ اِنْ اَسْكُتْ یَقُوْلُوْا: جَزَعَ مِنَ الْمَوْتِ! هَيْهَاتَ بَعْدَ اللَّتَيَّا وَ الَّتِیْ! وَ اللهِ! لَابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اٰنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّهٖ، بَلِ انْدَمَجْتُ عَلٰى مَكْنُوْنِ عِلْمٍ لَوْ بُحْتُ بِهٖ لَاضْطَرَبْتُمُ اضْطِرَابَ الْاَرْشِيَةِ فِی الطَّوِیِّ الْبَعِيْدَةِ.

اگر بولتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیوی سلطنت پر مٹے ہوئے ہیں اور چپ رہتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے۔ افسوس! اب یہ بات جب کہ میں ہر طرح کے نشیب و فراز دیکھے بیٹھا ہوں۔ خدا کی قسم! ابو طالبؑ کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے اتنا مانوس نہیں ہوتا [۲] ۔ البتہ ایک علم پوشیدہ میرے سینے کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ اسے ظاہر کر دوں تو تم اسی طرح پیچ و تاب کھانے لگو جس طرح گہرے کنوؤں میں رسیاں لرزتی اور تھرتھراتی ہیں۔

۱؂جب پیغمبر اکرم ﷺ کی وفات ہوئی ہے تو ابو سفیان مدینہ میں موجود نہ تھا۔ واپس آ رہا تھا کہ راستہ میں اس المناک حادثہ کی اطلاع ملی۔ فوراً پوچھنے لگا کہ مسلمانوں کی امارت و قیادت کس کو ملی ہے۔ اسے بتایا گیا کہ لوگوں نے ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ یہ سن کر عرب کا مانا ہوا فتنہ پرداز سوچ میں پڑ گیا اور آخر ایک تجویز لے کر عباس ابن عبدالمطلب کے پاس آیا اور کہا کہ: دیکھو ان لوگوں نے دھاندلی مچا کر خلافت ایک تیمی کے حوالے کر دی اور بنی ہاشم کو ہمیشہ کیلئے اس سے محروم کر دیا اور یہ اپنے بعد بنی عدی کے ایک درشت خو و تند مزاج کو ہمارے سروں پر مسلط کر جائے گا۔چلو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہیں کہ وہ گھر کا گوشہ چھوڑیں اور اپنا حق لینے کیلئے میدان میں اتر آئیں۔

چنانچہ وہ عباس کو ہمراہ لے کر حضرتؑ کے پاس آیا اور کہا کہ آپؑ ہاتھ بڑھائیں، میں آپؑ کی بیعت کرتا ہوں اور اگر کوئی مخالفت کیلئے اٹھا تو میں مدینہ کے گلی کوچوں کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں گا۔ امیر المومنین علیہ السلام کیلئے یہ انتہائی نازک مرحلہ تھا۔ وہ اپنے کو پیغمبر ﷺ کا صحیح وارث و جانشین سمجھتے تھے اور ابو سفیان ایسا جتھے قبیلے والا امداد کیلئے آمادہ کھڑا تھا۔ صرف ایک اشارہ کافی تھا کہ جنگ کے شعلے بھڑکنے لگتے، مگر امیر المومنین علیہ السلام کے تدبر و اصابت رائے نے مسلمانوں کو فتنہ سے بچا لیا اور آپؑ کی دور رس نظروں نے بھانپ لیا کہ یہ قبائلی تعصب اور نسلی امتیاز کو اُبھار کر آپس میں لڑوانا چاہتا ہے تا کہ اسلام میں ایک ایسا زلزلہ آئے جو اس کی بنیاد تک کو ہلا دے، لہٰذا آپؑ نے اس کی رائے کو ٹھکرا کر اسے سختی سے جھڑکا اور اس موقع پر یہ کلمات ارشاد فرمائے جن میں لوگوں کو فتہ انگیزیوں اور بیجا سربلندیوں سے روکا ہے اور اپنا مؤقف یہ بتایا ہے کہ میرے لئے دو ہی صورتیں ہیں: یا تو جنگ کیلئے اٹھ کھڑا ہوں یا اپنے حق سے دستبردار ہو کر ایک گوشہ میں چپکے سے بیٹھ جاؤں۔ اگر جنگ کیلئے کھڑا ہوتا ہوں تو کوئی یار و مددگار دکھائی نہیں دیتا کہ ان ابھرنے والے فتنوں کو دبا سکوں۔ اب یہی چارہ کار ہے کہ خاموشی سے وقت کا انتظار کروں یہاں تک کہ حالات سازگار ہوں۔

اس موقع پر امیر المومنین علیہ السلام کی خاموشی، مصلحت بینی و دور اندیشی کی آئینہ دار تھی، کیونکہ ان حالات میں اگر مدینہ مرکز جنگ بن جاتا تو اس کی آگ تمام عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ مہاجرین و انصار میں جس رنجش و چپقلش کی ابتدا ہو چکی تھی وہ بڑھ کر اپنی انتہا کو پہنچتی، منافقین کی ریشہ دوانیاں اپنا کام کرتیں اور اسلام کی کشتی ایسے گرداب میں جا پڑتی کہ اس کا سنبھلنا مشکل ہو جاتا۔ اس لئے امیرالمومنین علیہ السلام نے دکھ سہے، کڑیاں جھیلیں، مگر ہاتھوں کو جنبش نہیں دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ پیغمبر ﷺ نے مکہ کی زندگی میں ہر طرح کی تکلیفیں اور زحمتیں برداشت کیں، مگر صبر و استقلال کو چھوڑ کر لڑنے الجھنے کیلئے تیار نہ ہوئے، چونکہ آپؐ جانتے تھے کہ اگر اس وقت جنگ چھڑ گئی تو اسلام کے پھلنے پھولنے کی راہیں بند ہو جائیں گی۔ البتہ جب پشت پر اتنے اعوان و انصار ہو لئے کہ جو کفر کی طغیانیوں کو دبانے اور فتنوں کو کچلنے کی طاقت رکھتے تھے تو دشمن کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر ﷺ کی سیرت کو مشعل راہ بناتے ہوئے تلوار کی قوت اور دست و بازو کے زور کا مظاہرہ نہیں کرتے، چونکہ آپؑ سمجھ رہے تھے کہ دشمن کے مقابلہ میں بے ناصر و مددگار اٹھ کھڑا ہونا کامرانی و کامیابی کے بجائے شورش انگیزی و زیاں کاری کا سبب بن جائے گا۔ اس لئے اس موقع کے لحاظ سے طلب امارت کو ایک گدلے پانی اور گلے میں پھنس جانے والے لقمہ سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے چھینا جھپٹی کر کے اس لقمہ کو چھین لیا تھا اور ٹھونس ٹھانس کر اسے نگل لینا چاہا تھا، ان کے گلے میں بھی یہ لقمہ اٹک کر رہ گیا کہ نہ نگلتے بنتی تھی اور نہ اُگلتے بنتی تھی۔ یعنی نہ تو وہ اسے سنبھال سکتے تھے جیسا کہ ان لغزشوں سے ظاہر ہے جو اسلامی احکام کے سلسلے میں کھائی جاتی تھیں اور نہ یہ پھندا اپنے گلے سے اتار نے کیلئے تیار ہوتے تھے۔

پھر اسی مطلب کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان فرمایا ہے کہ: اگر میں ان ناساز گار حالات میں خلافت کے ثمر نا رسیدہ کو توڑنے کی کوشش کرتا تو اس سے باغ بھی اجڑتا اور میرے ہاتھ بھی کچھ نہ آتا۔ جیسے ان لوگوں کی حالت ہے کہ غیر کی زمین میں کھیتی تو کر بیٹھے مگر نہ اس کی حفاظت کر سکے نہ جانوروں سے اسے بچا سکے، نہ وقت پر پانی دے سکے اور نہ اس سے کوئی جنس حاصل کر سکے، بلکہ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ اگر کہتا ہوں کہ اس زمین کو خالی کر و تا کہ اس کا مالک خود کاشت کرے اور خود نگہداشت کرے تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتنے حریص اور لالچی ہیں اور چپ رہتا ہوں تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے ہیں۔ بھلا یہ تو بتائیں کہ میں کس موقعہ پر ڈرا اور کب جان بچا کر میدان سے بھاگا، جبکہ ہر چھوٹا بڑا معرکہ میری بے جگری کا شاہد اور میری جرأت و ہمت کا گواہ ہے۔ جو تلواروں سے کھیلے اور پہاڑوں سے ٹکرائے وہ موت سے نہیں ڈرا کرتا۔ میں تو موت سے اتنا مانوس ہوں کہ بچہ ماں کی چھاتی سے اتنا مانوس نہیں ہوتا۔ سنو! میرے چپ رہنے کی وجہ وہ علم ہے جو پیغمبر ﷺ نے میرے سینے میں ودیعت فرمایا ہے۔ اگر ابھی سے اسے ظاہر کر دوں تو تم سراسیمہ و مضطرب ہو جاؤ گئے، کچھ دن گزرنے دو تو تم خود میری خاموشی کی وجہ جان لو گے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اسلام کے نام سے کیسے کیسے لوگ اس مسند پر آئیں گے اور کیا کیا تباہیاں مچائیں گے۔ میری خاموشی کا یہی سبب ہے کہ یہ ہو کر رہے گا، ورنہ بے وجہ خاموشی نہیں۔

خموشی معنی دارد کہ در گفتن نمی آید

۲؂موت کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ مجھے اتنی محبوب ہے کہ بچے کو اپنی ماں کی آغوش میں اپنے سر چشمہ غذا کی طرف ہمک کر بڑھنا اتنا محبوب نہیں ہوتا، کیونکہ ماں کی چھاتی سے بچے کا انس ایک طبعی تقاضے کے زیر اثر ہوتا ہے اور طبعی تقاضے سِن کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ زمانۂ رضاعت کا محدود عرصہ گزارنے کے بعد جب اس کی طبیعت پلٹا کھاتی ہے تو جس سے مانوس رہتا ہے پھر اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا اور نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے، لیکن لقائے پروردگار سے انبیاء و اولیاء علیہم السلام کا انس عقلی و روحانی ہوتا ہے اور عقلی و روحانی تقاضے بدلا نہیں کرتے اور نہ ان میں ضعف و انحطاط آیا کرتا ہے اور چونکہ موت لقائے پروردگار کا ذریعہ اور اس منزل کا پہلا زینہ ہے، اس لئے موت سے بھی ان کی شیفتگی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس کی سختیاں ان کیلئے راحت کا ساز و سامان اور اس کی تلخیاں ان کے کام و دہن کیلئے لذت اندوزی کا سروسامان بن جایا کرتی ہیں اور اس سے ان کا انس ویسا ہی ہوتا ہے جیسا پیاسے کا کنویں سے اور بھٹکے ہوئے مسافر کا منزل سے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام جب ابن ملجم کے قاتلانہ حملے سے مجروح ہوئے تو فرمایا کہ:

وَ مَا كُنْتُ اِلَّا كَقَارِبٍ وَّرَدَ، وَ طَالِبٍ وَّجَدَ، ﴿وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝﴾.

میں موت کا سرچشمہ لگاتار ڈھونڈ رہا تھا کہ اس کے گھاٹ پر آ پہنچا اور اسی منزل کی طلب و تلاش میں تھا کہ اسے پا لیا اور نیکو کاروں کیلئے اللہ کے یہاں کی نعمتوں سے بڑھ چڑھ کر کیا ہو سکتا ہے۔[۲]

اور پیغمبر اکرم ﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ:

لَيْسَ لِلْمُؤْمِنِ رَاحَةٌ دُوْنَ لِقَآءِ اللهِ.‏

لقائے ربانی کے علاوہ مومن کیلئے کہیں پر راحت کا سر و سامان نہیں ہے۔[۳]

[۱]۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۲۳۔

[۲]۔ منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ (خوئی)، ج ۸، ص ۳۱۴۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button