خطبہ (۶) جب طلحہ و زبیر کے تعاقب سے آپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
(٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۶)
لَمَّا اُشِيْرَ عَلَيْهِ بِاَنْ لَّا يَتْبَعَ طَلْحَةَ وَ الزُّبِيْرَ وَ لَا يَرْصُدَ لَهُمَا الْقِتَالَ:
جب آپؑ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کرنے کی نہ ٹھان لیں تو آپؑ نے فرمایا: [۱]
وَاللهِ! لَاۤ اَكُوْنُ كَالضَّبُعِ: تَنَامُ عَلٰى طُوْلِ اللَّدْمِ حَتّٰى یَصِلَ اِلَیْهَا طَالِبُهَا، وَ یَخْتِلَهَارَاصِدُهَا، وَ لٰكِنِّیْۤ اَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ اِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ، وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِیْعِ الْعَاصِیَ الْمُرِیْبَ اَبَدًا، حَتّٰى یَاْتِیَ عَلَیَّ یَوْمِیْ، فَوَاللهِ! مَا زِلْتُ مَدْفُوْعًا عَنْ حَقِّیْ، مُسْتَاْثَرًا عَلَیَّ، مُنْذُ قَبَضَ اللهُ تَعَالٰى نَبِیَّهٗ ﷺ حَتّٰى یَوْمِ النَّاسِ هٰذَا.
خدا کی قسم! میں اس بجو کی طرح نہ ہوں گا جو لگاتار کھٹکھٹائے جانے سے سوتا ہوا بن جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا طلبگار (شکاری) اس تک پہنچ جاتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنے والا اس پر اچانک قابو پا لیتا ہے، بلکہ میں تو حق کی طرف بڑھنے والوں اور گوش بر آواز اطاعت شعاروں کو لے کر ان خطا و شک میں پڑنے والوں پر اپنی تلوار چلاتا رہوں گا، یہاں تک کہ میری موت کا دن آ جائے۔ خدا کی قسم! جب سے اللہ نے اپنے رسولؐ کو دنیا سے اٹھایا، برابر دوسروں کو مجھ پر مقدم کیا گیا اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا۔
۱جب امیرالمومنین علیہ السلام نے طلحہ و زبیر کے عقب میں جانے کا ارادہ کیا تو آپؑ سے عرض کیا گیا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان سے آپؑ کو کوئی گزند پہنچ جائے تو اِس کے جواب میں آپؑ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے کہ: میں کب تک اپنا حق چھنتا ہوا دیکھتا رہوں گا اور خاموش بیٹھا رہوں گا۔ اب تو جب تک میرے دم میں دم ہے، میں ان سے لڑوں گا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر رہوں گا اور انہیں یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں بجو کی طرح بآسانی ان کے قابو میں آ جاؤں گا۔ ’’ضبع‘‘ کے معنی بجو کے ہیں۔ اس کی کنیت ’’اُمّ عامر‘‘ اور ’’اُمّ طریق‘‘ ہے اور اسے ’’حضاجر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حضاجر ’’حضجر‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی پیٹو کے ہوتے ہیں، لیکن جب جمع کی صورت میں اسے استعمال کیا جائے تو اس سے بجو مراد لی جاتی ہے، چونکہ یہ ہر چیز نگل جاتا ہے اور جو پاتا ہے ہڑپ کر جاتا ہے۔ گویا کہ اس میں کئی ایک پیٹ جمع ہو گئے ہیں جو بھرنے میں نہیں آتے اور اسے’’نعثل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بڑا سیدھا سادھا اور بڑا بے وقوف جانور ہوتا ہے۔ اگر کسی کی انتہائی حماقت دکھانا مقصود ہو تو یہ کہا جاتا ہے: «فُلَانٌ اَحْمَقُ مِنَ الضَّبُعِ» : فلاں تو بجو سے بھی زیادہ بے وقوف ہے‘‘۔ چنانچہ اس کی حماقت اس کے بآسانی شکار ہو جانے ہی سے ظاہر ہے کہ شکاری اس کے بھٹ کے گرد گھیرا ڈال لیتا ہے اور لکڑی سے یا پیر سے زمین کو تھپتھپاتا ہے اور چپکے سے کہتا ہے: «اَطْرِقِیْ اُمَّ طَرِيْقٍ، خامِرِیْ اُمَّ عَامِرٍ» : ’’اے بجو! اپنے سر کو جھکا لے، اے بجو! چھپ جا۔ اس جملہ کو دہرانے اور زمین کو تھپتھپانے سے وہ بھٹ کے ایک گوشے میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر شکاری کہتا ہے: «اُمُّ عَامِرٍ لَّيْسَتْ فِیْ وِجَارِهَا، اُمُّ عَامِرٍ نَآئِمَةٌ» : ’’بھلا وہ اپنے بھٹ میں کہاں وہ تو کسی گوشہ میں سویا پڑا ہو گا‘‘۔ یہ سن کر وہ ہاتھ پیر پھیلا دیتا ہے اور سوتا ہوا بن جاتا ہے اور شکاری اس کے پیروں میں پھندا ڈال کر اسے باہر کھینچ لیتا ہے اور یہ بزدلوں کی طرح بغیر مقابلہ کئے اس کے قابو میں آ جاتا ہے۔ (منہاج البراعۃ ، ج۳، ص۱۴۴)