رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ نہج البلاغہ کی روشنی میں
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
معاشرے کو قابل عمل نمونے (آئیڈیل )کی ضرورت ہوتی ہے جس کی پہچان لازمی ہے۔ قرآن مجید اسلامی معاشرے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ ترین نمونہ (اسوہ) قراردیتا ہے؛ ارشاد ہو تا ہے۔
”لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة ”١
تمہارے لئے بہترین نمونہ رسول اللہ کی زندگی ہے۔
لہٰذا انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے مختلف پہلوؤں کا دقت نظر سے مطالعہ کیا جائے اور اُسے معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ معاشرہ ان سے الہام لیتے ہوئے ترقی اور سعادت کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسی بات پر زور دیا ہے، فرماتے ہیں:
”وَلقد کان فِی رَسُولِ اللّٰہِ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کافٍ لَکَ فِی الْاسْوَةِ وَ دَلِیل لَکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنیا وعَیْبِھَا وکَثْرَةِ مَخَازِیھَا، و مَسَاوِیھَا، اِذ قُبِضَتْ عَنْہُ اَطْرَفُھَا وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِہ اَکْنَافُھَا وَفُطِمَ عَنْ رَضَاعِھَا وَ زُوِیَ عَنْ زخارِفِھَا” ٢
یقیناً رسول اکرمﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لئے راہنما ہے اس لئے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کے لئے اس کی وُسعتیں ہموار کر دی گئیں آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا۔
اسی خطبے میں آپ کے اُسوہ ہونے اور اس کی پیروی کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فَتَأَسَّ بنَبِیِّکَ الْاَ طیَبِ الاَ طْھَرِ صلی اللہ علیہ وآلہ فَاِنَّ فِیہ اُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی،و عَزَآئً لِمَنْ تَعَزَّیٰ وَ اَحَبُّ العِبَادِ اِلَی اللّٰہِ الْمُتَأَسِّیْ بِنَبِیِّہ، وَالْمُقْتَصُّ لِاَثَرِہِ، قَضَمَ الدُّنیا قَضْماً وَلَمْ یعْرِھَا طَرْفاً اَھْضَمَ اَھْلَ الدُّینَا کَشْحاً وَ اَخْمَصَھُمْ مِنَ الدُّنیا بَطْناً عُرِضَتْ عَلَیہِ الدُّینا فَاَبیَ اَنْ یقْبَلَھَا ، وَعَلِمَ اَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ اَبْغَضَ شَیئاً فَاَبْغَضَہُ و حَقَّرَ شئیاً فَحَقَّرَہُ، و صَغَّرَ شَیاً فَصَغَّرہُ وَلَو لَمْ یکُنْ فِینَا اِلَّا حُبُّنَا ما اَبْغَضَ اللّٰہُ وَ رَسُولُہ، و تعظیماً ما صَغَّرَاللّٰہُ و رَسُولُہ لَکَفٰی بِہ شِقَاقًا لِلّٰہِ وَ مُحَادَّةً عَنْ اَمْ اللّٰہِ ”٣
تم لوگ اپنے طیب و طاہر پیغمبرﷺ کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والوں کے لئے بہترین نمونہ اور صبر و سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان صبر و سکون ہے، اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے رَسُول کی پیروی کرے اور ان کے نقش قدم پر قدم آگے بڑھائے۔ انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکر دیکھا بھی نہیں، ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم پیٹ رہنے والے اور شکم تہی میں بسرکرنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو پسند نہیں کیا تو آپ نے بھی اُسے ناپسند کیا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اُسے حقیر ہی سمجھا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اُسے پست قرارد یا ہے اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا اور رسول کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا اور رسول کی نگاہ میں چھوٹے اور حقیر کو عظیم اور بڑا سمجھنے لگیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سر تابی کے لئے یہی عیب کافی ہے۔
حوالہ جات
١۔ القرآن: سورہ الاحزاب ،آیت ٢١
٢۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )خطبہ نمبر ١٥٨، ص٤٣٠، امامیہ پبلیکیشز ١٩٩٩نہج البلاغہ دکتر صبحی الصالح، خطبہ ١٦٠، ص٢٢٦مرکز العبوث اسلامیہ، ایران ١٣٩٥ء۔
٣۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین) خطبہ نمبر ١٥٨،ص٤٣٢