رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلٰی اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ”۱
بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔”
خود آپ نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے آپ کا فرمان ہے:
”اِنَّما بعثت لاُتَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ ”۲ یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے اسی طرح آپ انہی اعلٰی اخلاق و صفات کا اعلٰی ترین نمونہ ہیں، نہج البلاغہ میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلٰی اخلاق کا تذکرہ ہے انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے۔
۱۔ زہد و پارسائی:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیا وَ صَغَّرَھَا وَ أَھْوَنَ بِھَا وَ ھَوَّنَھَا وَ عَلِمَ أَنَّ اللّٰہَ زَوَاھَا عَنْہُ اَخْتِیَاراً، وَ بَسَطَھَا لِغَیْرِہِ احْتِقَاراً، فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیا بِقَلْبِہِ، وَ أَمَاتَ ذِکْرَھَا عَنْ نَفْسِہِ، وَ أَحَبَّ أَن تَغِیبَ زِینَتُھَا عَنْ عَیْنِہِ، لِکَیْلَا یتَّخِذَ مِنْھَا رِیاشاً، أَو یرْجُوَ فِیھَا مَقَاماً، بَلَّغَ عَنْ رَبِّہِ مُعْذِراً، وَ نَصَحَ لِأُمَّتِہِ مُنْذِراً، وَ دَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَ خَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً”۳
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جانتے تھے اللہ نے آپ کی شان کو بالاتر سمجھتے ہوئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہوئے دوسروں کے لئے اس کا دامن پھیلا دیا ہے، لہٰذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کریں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا۔
اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
”وَلَقَدْ کَانَ صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ، یأکُلُ عَلَیٰ اْلَٔارضِ، وَ یجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ، وَ یخْصِفُ بِیدِہِ نَعْلَہُ، وَ یرْقَعُ بِیدہِ ثَوْبَہُ، و یرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَ یرْدِفُ خَلْفَہُ وَ یکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَیتہِ فَتَکُونُ فِیہِ التَّصَاوِیرُ، فَیقُولُ: (یا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِہِ غَیِّبیہِ عَنِّی، فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَیہِ ذَکَرْتُ الدُّنْیا وَ زَخَارِفَھَا) فَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْیا بِقَلْبِہِ، وَ أمَاتَ ذِکْرَھَا مِنْ نَفْسِہِ، وَ أَحَبَّ أَنْ تَغِیبَ زِینَتُھَا عَنِ عَیْنِہِ، لِکَیْلَا یتَّخِذَ مِنْھَا رِیاشاً، وَلَا یعْتَقِدَھَا قَرَاراً، وَلَایرْجُوَ فِیھَا مُقَاماً، فَأَخْرَجَھَا مِنَ النَّفْسِ، وَ أَشْخَصَھَا عَنِ اَلْقَلْبِ، وَغَیَّبَھَا عَنِ اَلْبَصَرِ وَ کَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَیاً أَبْغَضَ أَنْ ینْظُرِ اِلَیہِ ،وَ أَنْ یذْکَرَ عِنْدَہُ ”۴
رسول اللہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھتے تھے اور اپنے ہاتھو ں سے کپڑوں میں پیوند لگائے تھے اور بے پالان گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے، گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو، جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجاتی ہیں، آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں، انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یونہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔
۲۔ حسن سلوک اور مہربانی:
قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اور مہربانی و عطوفت بیان کرتا ہے، آپ نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا، ارشاد ہوتا ہے۔
”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ”۵
پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لئے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہوتے تو یہ لو گ آپ کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے۔ حضرت علی علیہ السلام آنحضرت کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:
”وَ اَطْھَرَ المُطَھِّرِینَ شِیمَةً، وَ اَجْوَدَ المُسْتمْطَرِینَ دِیمَةً ”۶ عادات کے اعتبار سے آپ تمام پاکیزہ افراد سے پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔
۳۔ لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قرآن مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
”لَقَدْ جَآءکُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیص عَلَیکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوْف رَّحِیْم” ۷
”فَلَعَلّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیثِ اَسَفاً” ۸
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھی اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ ”فَبَالَغَ صلی اللہُ عیلہ وآلہ وسلَّم فِی النَّصِیْحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّریقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ”۹
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے”
آنحضرت ایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جاتے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کرتے تھے۔ اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا :
”طبیب دَوَّا ربِطِبِّہِ قَدْ اَحْکَمَ مَرَاھِمَہُ ،وَ اَحْمَیٰ مَوَاسِمَہُ یضَعُ ذٰلِکَ حَیثُ الحَاجَةُ اِلَیہِ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ ،وَ آذانٍ صُمٍّ، وَ اَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِہ مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَ مَوَاطِنَ الحَیْرَةِ”۱۰
آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لئے ہوئے چکر لگا رہا ہو جس نے اپنے مرہم کو درست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو، وہ اندھے دلوں، بہرے کانوں، گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لئے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔
۴۔ شجاعت و بہادری:
امیرالمومنین علی علیہ السلام کہ جو خود ‘اشجع الناس’ تھے وہ آنحضرت کی شجاعت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
”کُنَّا اِذَا حْمَرَّ الْبُأْسُ اتَّقَینَا بِرَسُولِ اللّٰہِ صلّیٰ اللّٰہُ عَلَیہ وآلہ وسلّم فَلَمْ یکُنْ اَحَد مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی العَدُوِّ مِنْہُ”۱۱
ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی اور دو گروہ برسر پیکار ہو جاتے تو ہم آنحضرت کی پناہ میں آجاتے اور آپ کو اپنی سپر قرار دیتے کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت پر امیر المومنین علیہ السلام کے تاثرات:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا: ”بَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّی یا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مالم ینْقَطَعَ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَاْلَانْبَائِ وَاَخْبَارِ السَّمَائِ خعَّصتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّیاً عَمَّنْ سِوَاکَ، وَ عَمَّمْتَ حَتَّی صَارَ النّاسُ فیلَ سَوَائً و لَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بالصَّبْرِ وَ نَھَیتَ عَنِ الجَزَعِ، لَاَنْفَدْنَا عَلَیْلَ مائَ النتُّؤُونِ ولَکَانَ الدَّائُ مُمَا طِلاً، وَالْکَمَدُ مُحَالِفا، وَ قَلَّالکَ ولٰکِنَّہُ مالا یمْلَکُ رَدُّہُ، ولا یسْتَطَاعُ دَفْعُہُ! بِاَبی انت اُمِّی! اذکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ، وَاجْعَلْنَا مِنْ بالِکَ۔ ”۱۲
یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت، الٰہی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی اور نبی کے انتقال سے قطع نہیں ہوا تھا، آپ کا غم اہل بیت کے ساتھ یوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہواکہ سب برابر کے شریک ہو گئے، اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور نالہ و فریاد سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوؤں کا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ ساتھ رہتا، پھر بھی یہ گریہ و بکا اور حزن و اندوہ آپ کی مصیبت کے مقابلے میں کم ہوتا لیکن موت ایسی چیز ہے جس کا پلٹانا کسی کے بس میں نہیں اور جس کا ٹال دنیا کسی کے اختیار میں نہیں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان مالک کی بارگاہ میں ہمار ابھی ذکر کیجئے گا اور اپنے دِل میں ہمارا بھی خیال رکھئے گا۔
حوالہ جات
۱۔ القرآن القلم، آیت ٤
۲۔ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار ،ج ١٦ ،ص٢٨٧،ح١٤٢،موسئسہ الوفاء بیروت ،١٩٨٣ء
۳۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٠، ص٣٢٩۔٣٢٨
۴۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٥٨ ،ص٤٣٣۔٤٣٢
۵۔ القرآن، آلعمران، آیت ١٥٩
۶۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٠٣، ص٣١٢
۷۔ القرآن، التوبہ، آیت ١٢٨
۸۔ القرآن، الکہف، آیت ٦
۹۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین)، خطبہ نمبر٩٣ ، ص٢٩٧
۱۰۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )، خطبہ نمبر١٠٦ ، ص٣١٩
۱۱۔ نہج البلاغہ فصل فذکر فیہ شیئا ً من اختیار غریب کلامہ المتحاج الی التفسیر، حدیث ٩
۱۲۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر ٢٣٢،ص٦٤١۔