دریا دلی
اٰلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ (حکمت 176)۔
وسعت قلب سرداری کا ذریعہ ہے۔
سردار و سربراہ بننے کی خواہش ہر دل میں بستی ہے۔ مگر سردار و سربراہ بننا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اسی طرح سرداری و ریاست جسے ملتی ہے ہر کوئی اُس لائق نہیں ہوتا۔ امیرالمؤمنینؑ نے اِس فرمان میں ایک اصول ارشاد فرمایا۔ اس اصول پر عمل کرنے والا سربراہ بن بھی سکتا ہے اور سرداری کے تقاضوں کو پورا بھی کر سکتا ہے۔ اس اصول کو قرآن مجید نے دو خاص مواقع پر بیان فرمایا۔ ایک مقام وہ ہے جب اللہ سبحانہ نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو فرعون کو دعوتِ حق دینے کے لیے حکم فرمایا۔ تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے عرض کی کہ ( پروردگارا ! میرا سینہ کشادہ کر دے، میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے) دوسرے مقام پر جب نبیوں کے سیّد و سردار کا اِس عہدے کے لیے انتخاب کیا تو سب سے پہلے جس احسان کی یاد دہانی کرائی وہ یہی صفت تھی کہ “کیا ہم نے آپ کے لیے سینہ کشادہ نہیں کیا”
یہ وسعت قلب اور شرح صدر ایک عظیم نعمت الہی ہے اور یہاں اس سے مراد وسعت روح اور بلندی فکر ہے یعنی روح و فکر انسانی اتنی وسعت رکھتی ہو کہ دریا کی طرح ہر کسی کے لیے خود جا کر اپنے فوائد بہم پہنچاتا ہے دریا رُکتا نہیں اُس کا فیضان ہر کسی کے لیے جاری ہے۔ کوئی نیک پانی طلب کرے تو مہیا اور کوئی دریا میں پتھر پھینک رہا ہو تو اس کے لیے بھی پانی مہیا ہے۔ انسان کا مقام و مرتبہ جتنا بڑھتا جاتا ہے اس کا دائرہ نفوذ اتنا پھیلتا جاتا ہے۔ اگر وہ سایہ دار درخت کی طرح ہوگا تو اُس سے فائدہ اٹھانے والے اور اُس کے سائے میں سکون پانے والے بہت ہوں گے اگر وہ تند مزاج اور کم حوصلہ ہوگا تو بہت سے انسان اُس سے نالاں ہوں گے۔ اس لیے مقام و منزلت کے لیے امام نے ایک ذریعہ بتایا کہ کہ وسعتِ قلب پیدا کرو تاکہ آپ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اُٹھائیں تو جو آپ سے فائدہ اُٹھاتے رہیں گے آپ پر اُن کی سرداری و ریاست قائم ہوتی جائے گی۔ جتنا کسی کا فائدہ پہنچانے کا دائرہ وسیع اتنی ہی اُس کی سرداری وسیع ہوگی۔ کسی حکیم کے بقول اکثر لوگ مر کر قبر میں چلے جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے فائدہ رساں مرنے کے بعد لوگوں کے دلوں میں چلا جاتا ہے۔ اس لیے امیرالمؤمنین ایک اور مقام پر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہوئے فرمایا: ( لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مر جاؤ تو تم پر روئیں، اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں)
سردار و سربراہ دریا دل ہوگا تو راہ کی رکاوٹوں کو دریا کی طرح عبور کرتا جائے گا۔ کوئی پتھر مارے گا تو اسے بھی اپنے سینہ میں چھپا لے گا تاکہ پتھر مارنے والے کے بارے میں کسی اور کو پتا نہ چلے، رکابتیں اور مخالفتیں تحمّل سے برداشت کرے گا۔ اور اُس کی زندگی میں انتقام کے نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا مصر کے بادشاہ کے طور پر بھائیوں سے برتاؤ اور پیغمبر اکرمﷺ کا فتح مکہ کے وقت قریش کے سرداروں سے سلوک اس دریا دلی کے بہترین نمونے ہیں۔ کسی سربراہ کو خواہ اُس کی سرپرستی میں دو آدمی ہُوں یا پورا ملک ہو اِس اصولِ علوی کو اپنانا چاہیے تو سربراہ کی زندگی مطمئن رہے گی اور ماتحتوں اور رعایا کی زندگیوں میں سکون رہے گا۔ کشادہ دلی اور حوصلہ کی بلندی انسان کو ثابت قدمی اور استقامت اور بردباری و مشکلات کا بوجھ اُٹھانا سکھاتی ہے۔ سردار وہی ہو سکتا ہے کہ مشکلوں اور تکلیفوں کے طوفان اُس کی روح کے سمندر کے سکون و آرام کو درہم برہم نہ کر سکیں۔ سعہ صدر سے انسان دوسروں کو جذب کرتا ہے۔ دوسروں کی جھولی میں کچھ ڈالے گا تو وہ اسے بڑا مانے گا۔ دوسروں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرے گا تو اُسے عزت ملے گی۔ رعایا کی اذیتوں کو برداشت کرے گا تو سرداری کو دوّام ملے گا۔
دریا دل، دریا کی طرح رواں دواں رہے گا، یقین کے ساتھ راستے پر چلتا رہے گا اور اگر کہیں کسی نے بہت بڑی رُکاوٹ کھڑی کر دی تو بھی پانی کے بند کی طرح دوسروں کے لیے روشنیاں اور بجلیاں مہیا کرے گا اور سامنے بند باندھے جانے پر پیچھے ہٹتا جائے گا اور دور تک فوائد مہیا کرتا رہے گا۔