خداوندا! لوگوں نے قرآن کو چھوڑ دیا
“وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً” (سورہ فرقان آیت 30)
رسول اکرمؐ نے بارگاه خداوندی میں عرض کیا: خداوندا! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور اس سے دوری اختیار کر لی ہے۔
چونکہ گزشتہ آیات میں ہٹ دھرم مشرکین اور بے ایمان لوگوں کے مختلف الزامات اور اعتراضات بیان ہوئے ہیں لہذا ان آیات میں پہلی آیت میں پیغمبر اسلامؐ کی اس پریشانی اور شکایت کا تذکرہ ہے، جو لوگوں نے قرآن کے ساتھ رویہ اختیار کیا ہوا تھا انہوں نے بارگاه خداوندی میں عرض کیا: خداوندا! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور اس سے دوری اختیار کر لی ہے “وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً” (سوری فرقان آیت 30)
رسول اللہ ؐکی یہ گفتگو اور شکایت آج بھی اسی طرح فضا میں گونج رہی ہے گویا آپؐ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے خلاف بارگاہِ ایزدی میں استغاثہ کر رہے ہیں: خدایا! ان لوگوں نے قرآن کو بالکل بھلا دیا ہے جو قرآن زندگی کی علامت اور نجات کا ذریعہ ہے، جو قرآن فتح و کامرانی، تحرک اور ترقی کا عامل ہے، جو قرآن ہر شعبہ زندگی کے لیے راہنما اصول رکھتا ہے۔ اسی قرآن کو ان لوگوں نے چھوڑ دیا ہے حتیٰ کہ انہوں نے اپنے دیوانی اور فوجداری قوانین تک کے لیے دوسروں کی طرف گدائی کا ہاتھ پھیلایا ہوا ہے۔
اب بھی اگر ہم اکثر و بیشتر اسلامی ملکوں خاص کر ان ممالک کی طرف نظر کریں جو مشرقی یا مغربی کلچر اور ثقافت کے زیرِ تسلّط ہیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں پر قرآن مجید کو تکّلفاً ایک مقدس کتاب کا درجہ دیا گیا ہے اس کے صرف الفاظ کو خوبصورت الفاظ میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے نشریاتی اداروں سے نشر کر دیا جاتا ہے یا آیات قرآن کو فنِ تعمیر کے عنوان سے مسجدوں کی کاشی کاری میں جگہ دی جاتی ہے۔ نئے مکان کے افتتاح کے موقع پر یا مسافر کی جان کی حفاظت کے لیے یا بیماروں کی صحت یابی کے لیے یا زیادہ سے زیادہ حصولِ ثواب کی غرض سے اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔
اگر کبھی قرآنِ مجید سے کسی چیز کا استدلال بھی کیا جاتا ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اپنے پہلے سے کئے ہوئے فیصلوں کی تائید میں تفسیر بالرائے کی جائے۔
بہت سے اسلامی ملکوں میں (حفظ قرآن) کے نام سے لمبے چوڑے مدارس دیکھنے میں آتے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد قرآن حفظ کرنے میں مصروف ہے جبکہ ان ملکوں کے آئین اور قوانین اسلام سے بے خبر ممالک سے درآمد شدہ ہیں اور ان کے افکار و نظریات یا تو مشرق سے لیے گئے ہیں یا مغرب سے اور اپنی ان غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے انہوں نے قرآن کا سہارا لیا ہوا ہے۔
…….ہاں ہاں اب بھی پیغمبر اکرمؐ فریاد کر رہے ہیں: خداوندا! میری قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔
چونکہ حضرت رسولِ گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دشمنوں کے اس قسم کے معاندانہ سلوک کا سامنا تھا۔ لہذا خداوند عالم ان کی دلجوئی کے لیے بعد والی آیت میں فرماتا ہے: اسی طرح کے گناہ گار اور مجرم دشمن ہم نے ہر پیغمبر کے لیے قرار دیئے ہیں (وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ)۔
تو ہی نہیں کہ جسے اس قسم کے سخت دشمنوں کا سامنا ہے بلکہ سب انبیاء کا یہی حال تھا۔ مجرمین کا کوئی نہ کوئی ٹولہ ان کی مخالفت کرتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ دشمنی پر ہمیشہ قمر باندھے رہتا ہے۔
لیکن تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تو بے یار و مددگار نہیں یہی بات کافی ہے کہ خداوند عالم تیرا ہادی، راہنما اور یار و یاور ہے
(وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا )
چونکہ تیرا ہادی خداوندِ عالم ذوالجلال ہے لہذا ان کے وسوسے تجھ پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اور چونکہ تیرا ناصر و مددگار خدا ہے لہذا ان کی ہر طرح کی سازشیں تیرا بال تک بیلا نہیں کر سکتیں کیونکہ اس کا علم تمام علوم سے برتر اور اس کی قدرت تمام قدرتوں اور طاقتوں سے بالاتر ہے۔ مختصر یہ کہ بلا جھجک کہہ دے:
ہزار دشنم از می کنند قصد ہلاک تو ام چو دوستی از دشمنان ندارم باک
اگر میرے ہزاروں دشمن مجھے ہلاک کرنا چاہیں (تو وہ ایسا نہیں کر سکتے) کیونکہ جب تک تو میرا دوست ہے مجھے دشمن کی قطعاً کوئی پروا نہیں۔
ماخوذ از تفسیر نمونہ حضرت آیت اللہ العظمی سید ناصر مکارم شیرازی