نہج البلاغہ کا تعارف:پہلی قسط(رشحات قلم)
قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ مشہور کتاب جو یقینا ہر گھر کی زینت اور ضرورت ہے جس کے بارے میں یہ قول مشہور ہے
« دُوْنَ كَلَامِ الْخَالِقِ وَ فَوْقَ كَلَامِ الْمَخْلُوْقِ »
کلام خالق کے نیچے اور کلام مخلوق سے اوپر
یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں امیر المومنین، امام المتقینؑ کے خطبات ہیں ،جن کی تعداد دو سو اکتالیس(۲۴۱) ہے۔ ان خطبات کے مضامین یہ ہیں:
توحید باری عزّاسمہٗ ،تخلیق ارض و سما، تخلیق آدمؑ ،خلافت کے بارے میں، جنگ جمل، صفین اور نھروان کے بارے میں، فتاویٰ میں علماء کے اختلافات، جہاد سے متعلق،بنی امیہ کے الزام کا جواب، قتل عثمانؓ کے بارے میں، دنیا اور اہل دنیا، خطبہ غرّاء جو صنعت باری کی حکمتوں پر منحصر ہے۔ صفات متقین و فاسقین، خطبہ اشباح ۹۱،عظیم خطبہ ہے۔ دنیا کی مذمت، لیلۃ الحریر کا خطاب ۱۲۱، خطبہ ۱۵۵\چمگادڑ کی تخلیق کے بارے میں، خطبہ۱۶۵\ مور کی عجیب خلقت کے بارے میں، خطبہ۱۶۵\ چیونٹی کے بارے میں، قرآن کریم کی فضیلت، خطبہ ۱۸۶\ اُصول علم اور توحید کے بارے میں منفرد خطبہ،خطبہ قاصعہ ۱۹۲\ جس میں ابتدائے وحی اور پیغمبر اکرم ﷺ کے معجزے کا ذکر ہے۔خطبہ ۱۹۳\ متقین کے اوصاف، نبوت،معاد، اہل بیتؑ اور قرآن مجید کے بارے میں متعدد خطبات ہیں۔۱۹۴\ میں منافقین کے اوصاف ،خطبہ۲۲۱\اور ۲۲۲\اور ۲۲۳\آیات قرآنی کی تفسیر کرتے ہوئے ہیں۔
دوسرا حصہ: آپ کی وصتیوں اور مکتوبات پر مشتمل ہے ان کی تعداد 79 ہے ۔ آپ کے خطوط اہل کوفہ کے نام، شریح بن حارث کے نام،اشعث بن قیس عامل آذربیجان کے نام، معاویہ کے نام، جریر بن عبداللہ بجلی کے نام، عبداللہ بن عباس عامل بصرہ کے نام، بطور وصیت محمد بن ابی بکرؓ کے نام جب انہیں مصر کا حاکم بنا یا، معاویہ کے خط کے جواب میں ایک بہترین خط،مکتوب نمبر۲۸، صفین سے واپسی پر حاضرین کے مقام پر امام حسن بن علیؑ کے نام خط، قثم بن عباس کے نام، عقیل ابن ابی طالبؑ کے نام، عمرو بن العاص کے نام، عمرو بن ابی سلمہ مخزومی کے نام، ابن ملجم کی ضربت کے بعد امام حسن و حسینؑ کو وصیت ،خط۵۳\ مالک اشتر نخعیؓ کے نام جب انہیں مصر کا والی بنایا تھا، یہ بہترین خطوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس میں طرز حکمرانی اور آداب حکومت و سلطنت پر بحث کی ہے۔ اسود بن قطیبہ کے نام،کمیل بن زیاد کے نام، موسی اشعری کے نام، سلمان فارسی کے نام، حارث ہمدانی کے نام سہیل بن حنیف انصاری کے نام۔
اور آخری اقوال و حکم پر مشتمل ہے ، جس میں سوالوں کے جوابات اور مواعظ اور نصائح کی باتیں ہیں ایسے اقوال و حکم جن کا تعلق زندگی سے بہت قریب ہے ان کی تعداد چار سو اسی ( 480 )ہے ۔
۱۔ جب ہم نہج البلاغہ کے خطبات، مکتوبات اور اقوال زریں کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ کی روشنی میں عقیدہ اور شریعت کی بحث نظر آتی ہے۔
۲۔ سابقہ اُمتوں کی تاریخ اور وہ واقعات جو اسلام کے آغاز میں رونما ہوئے۔
۳۔ اور بے شمار انسانی معارف جیسے تربیت، اخلاق، ،اجتماع، سیاست اور نظام حکومت وغیرہ۔
احمد حسن زیات تاریخ ادب العربی میں حضرت علیؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ھو بالاجماع اخطب المسلمین و امام المنشئین و خطبہ فی الحثّ علی الجھاد و رسائلہ الی معاویہ و وصفہ الطاووس و الخفاش والدنیا و عھدہ للاشتر النخعی تعدّ من معجزات اللّسان العربی و بدائع العقل البشری وما نظن ّ ذلک قد تھیّا لہ الّا لشدۃِ خلاطہ للرّسول و مرانتہ منذ الحداثۃ علی الخطابۃ لہ والخطابۃ فی سبیلہ۔‘‘
’’ اس پر اجماع ہے کہ وہ مسلمانوں کے سب سے بڑے خطیب اور انشاءپردازوں کے امام ہیں۔ ان کے خطبے جہاد پر ابھارنے کے لیے اور ان کے خطوط معاویہ کے نام اورمور اور چمگادڑ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اور وہ عہد نامہ ہے جسے مالک اشتر نخیؓ کو تحریر کیا ہے، یہ خط زبان عربی کے معجزات میں اور عقل بشری کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ انہیں اس لیے مہیا ہوا کہ وہ بچپن ہی سے رسول اللہﷺ کی آغوش تربیت میں رہے اور ان کیلئے اور ان کی راہ میں خطابت کرتے رہے‘‘۔
نہج البلاغہ بلاغت کی کان، فصاحت کی جان، تشبیہ و استعارہ کا محل و مکان ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست برمحل ہے۔ جتنے خطبے،مکتوبات اور اقوال ہیں وہ معانی و بیان اور فصاحت و بلاغت کا مرقّع ہیں۔ ان کا اسلوب دلکش، عبارت دلنشین، تعقید سے پاک ،سلاست وروانی بلا کی پائی جاتی ہے۔ ان خطبوں میں کسی قسم کا تکلف اور تصنع نہیں ہے بلکہ یہ ارتجالاً کہے گئے ہیں اور موقع و محل کی مناسبت سے معرض وجود میں آئے ہیں۔
رشحات قلم: مولانا سید تلمیذ حسنین رضوی