مکتوب (۶) معاویہ بن ابی سفیان کے نام
(٦) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۶)
اِلٰى مُعَاوِیَةَ
معاویہ ابن ابی سفیان کے نام [۱]
اِنَّهٗ بَایَعَنِی الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا اَبَا بَكْرٍ وَّ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ عَلٰی مَا بَایَعُوْهُمْ عَلَیْهِ، فَلَمْ یَكُنْ لِّلشَّاهِدِ اَنْ یَخْتَارَ، وَ لَا لِلْغَآئِبِ اَنْ یَّرُدَّ، وَاِنَّمَا الشُّوْرٰی لِلْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، فَاِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ وَّ سَمَّوْهُ اِمَامًا كَانَ ذٰلِكَ لِلّٰهِ رِضًی، فَاِنْ خَرَجَ عَنْ اَمْرِهِمْ خَارِجٌۢ بِطَعْنٍ اَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوْهُ اِلٰی مَاخَرَجَ مِنْهُ، فَاِنْ اَبٰی قَاتَلُوْهُ عَلَی اتِّبَاعِهٖ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ وَلَّاهُ اللهُ مَا تَوَلّٰی.
جن لوگوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے، اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو،اسے ردّ کرنے کا اختیار نہیں، اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔ وہ اگر کسی پر ایکا کر لیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائے گی۔ اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہو جائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے۔ اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں، کیونکہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے۔ اور جدھر وہ پھر گیا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا۔
وَ لَعَمْرِیْ، یَا مُعَاوِیَةُ! لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِكَ دُوْنَ هَوَاكَ لَـتَجِدَنِّیْۤ اَبْرَاَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ، وَ لَـتَعْلَمَنَّ اَنِّیْ كُنْتُ فِیْ عُزْلَةٍ عَنْهُ، اِلَّاۤ اَنْ تَتَجَنّٰی فَتُجِنَّ مَا بَدَا لَكَ! وَ السَّلَامُ.
اے معاویہ! میری جان کی قسم! اگر تم اپنی نفسانی خواہشوں سے دور ہو کر عقل سے دیکھو تو سب لوگوں سے زیادہ مجھے عثمان کے خون سے بری پاؤ گے، مگر یہ کہ تم بہتان باندھ کر کھلی ہوئی چیزوں پر پردہ ڈالنے لگو۔ والسلام۔
۱جب امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ پر تمام اہل مدینہ نے بالاتفاق بیعت کر لی تو معاویہ نے اپنے اقتدار کو خطرہ میں محسوس کرتے ہوئے بیعت سے انکار کر دیا اور آپؑ کی خلافت کی صحت کو محل نظر قرار دینے کیلئے یہ عذر تراشا کہ یہ عمومی انتخاب سے قرار نہیں پائی، لہٰذا اس انتخاب کو مسترد کر کے دوبارہ انتخابِ عام ہونا چاہیے۔ حالانکہ جس خلافت سے اصول انتخاب کی بنیاد پڑی وہ ایک ناگہانی صورت حال کا نتیجہ تھی جس میں عام افراد کی رائے دہندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے عمومی اختیار کا نتیجہ کہا جا سکے۔ البتہ عوام پر اس کی پابندی عائد کر کے اسے فیصلۂ جمہور سے تعبیر کر لیا گیا جس سے یہ اصول قرار پا گیا کہ جسے اکابر مدینہ منتخب کر لیں وہ تمام دنیائے اسلام کا نمائندہ متصور ہو گا اور کسی کو اس میں چون و چرا کی گنجائش نہ ہو گی۔ خواہ وہ انتخاب کے موقع پر موجود ہو یا موجود نہ ہو۔
بہر صورت اس اصول کے قرار پا جانے کے بعد معاویہ کو یہ حق نہ پہنچتا تھا کہ وہ دوبارہ انتخاب کی تحریک یا بیعت سے انکار کرے، جبکہ وہ عملی طور پر ان خلافتوں کو صحیح تسلیم کر چکا تھا کہ جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مدینہ کے اہل حل و عقد نے طے کی تھیں۔ چنانچہ جب اس نے اس انتخاب کو غلط قرار دیتے ہوئے بیعت سے انکار کیا تو امیر المومنین علیہ السلام نے اصولِ انتخاب کو اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس پر حجت تمام کی اور یہ وہی طرز کلام ہے جسے «فَرْضُ الْبَاطِلِ مَعَ الْخَصْمِ حَتّٰی تَلْزَمَہُ الْحُجَّۃُ» (حریف کے سامنے اس کے غلط مسلمات کو پیش کر کے اس پر حجت قائم کرنا) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی مرحلہ پر امیر المومنین علیہ السلام نے خلافت کی صحت کا معیار شوریٰ اور رائے عامہ کو نہیں سمجھا۔ ورنہ جن خلافتوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار کے اتفاق رائے سے قرار پائی تھیں،آپؑ اس رائے عامہ کو سند و حجت سمجھتے ہوئے ان کو صحیح و درست سمجھتے۔ مگر آپؑ کا دورِ اوّل ہی سے بیعت کا انکار کر دینا کہ جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، اس کی دلیل ہے کہ آپؑ ان خود ساختہ اصولوں کو خلافت کا معیار نہ سمجھتے تھے۔ اس لئے آپؑ ہر دور میں اپنے استحقاقِ خلافت کو پیش کرتے رہے کہ جو رسول اللہ ﷺ سے قولاً و عملاً ثابت تھا۔ مگر معاویہ کے مقابلہ میں اسے پیش کرنا سوال و جواب کا دروازہ کھول دینا تھا، اس لئے اسی کے مسلمات و معتقدات سے اسے قائل کرنا چاہا ہے، تاکہ اس کیلئے تاویلات کے الجھاوے ڈالنے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ورنہ وہ تو یہ چاہتا ہی تھاکہ کسی طرح بات بڑھتی جائے تاکہ کسی موڑ پر اس کے متزلزل اقتدار کو سہارا مل جائے۔↑