کتاب الکافی کا تعارف..1
مذہبِ شیعہ اثنا عشری کی نہایت اہم، جامع اور وقیع کتاب جو کتبِ اربعہ میں پہلی کتاب ہے اور الکافی کے نام سے موسوم ہے، جس کی ابتدائی دو جلدیں اُصولِ کافی کہلاتی ہیں اور ۵؍ جلدیں فروعِ کافی کے نام سے موسوم ہیں اور آخری دو جلدیں الروضۃ کے نام سے مشہور ہیں۔
اس کتاب کو ثقہ الاسلام ابوجعفر محمد بن یعقوب کلینی الرازی نے تالیف کیا ہے جن کا سنِ وفات ۳۲۸ھ یا ۳۲۹ ھ ہے۔
نجاشی نے ان کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ کلینی اپنے دور میں بزرگ اور ہمارے اصحاب کے پیشوا شہر رے میں تھے اور وہ اس دور میں شیعوں کے مرجع اور حدیث میں معتبر ترین فرد شمار کیے جاتے تھے۔{رجال نجاشی}
اور علّامہ حلّی فرماتے ہیں کہ کلینی رے میں اعلیٰ ترین مرجع فتاویٰ تھے اور اس دور میں حدیث کے چہرئہ درخشاں شمار کیے جاتے تھے۔{خلاصۃ الاقوال}
لہٰذا ایک مومن اور چاہنے والے نے خط لکھ کر ان سے تقاضا کیا کہ ایسی کتاب لکھی جائے۔ اُنہوں نے برادرِ مومن کی فرمائش اور خواہش پر احادیث کا یہ ذخیرہ جمع کیا اور اپنے مقدمۂ کتاب میں اس کی غرضِ تالیف و تصنیف کو واضح فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں:
”وَ قُلْتَ: إِنَّكَ تُحِبُّ أَنْ يَكُوْنَ عِنْدَكَ كِتَابٌ كَافٍ يُجْمَعُ فِيْهِ مِنْ جَمِيْعِ فُنُوْنِ عِلْمِ الدِّيْنِ، مَا يَكْتَفِيْ بِهِ الْمُتَعَلِّمُ، وَ يَرْجِعُ إِلَيْهِ الْمُسْتَرْشِدُ، وَ يَأْخُذُ مِنْهُ مَنْ يُرِيْدُ عِلْمَ الدِّيْنِ وَ الْعَمَلَ بِهِ بِالْآثارِ الصَّحِيْحَةِ عَنِ الصَّادِقِيْنَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ وَ السُّنَنِ الْقَائِمَةِ الَّتِيْ عَلَيْهَا الْعَمَلُ، وَ بِهَا يُؤَدّٰى فَرْضُ اللهِ- عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُنَّةُ نَبيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ.
وَ قُلْتَ: لَوْ كَانَ ذٰلِكَ، رَجَوْتُ أَنْ يَكُوْنَ ذٰلِكَ سَبَبًا يَتَدَارَكُ اللهُ تَعَالٰى بِمَعُوْنَتِهِ وَ تَوْفِيْقِهِ إِخْوَانَنَا وَ أَهْلَ مِلَّتِنَا، وَ يُقْبِلُ بِهِمْ إِلٰى مَرَاشِدِهِمْ“
“اور تم نے کہا تھا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ تمھارے پاس ایسی کتاب ہو جو “کافی” ہو، جس میں دینی علوم کے تمام فنون کو جمع کر دیا جائے تاکہ وہ طالب علم کے لیے کافی ہو جائے اور سالکِ راہ کے لیے مرجع بن جائے اور جو بھی علمِ دین حاصل کرنے کا اِرادہ کرے اور آثارِ صحیحہ پر عمل کرنا چاہتا ہو تو وہ اس کتاب سے صادقین (امام محمد باقر اور امام جعفر صادق(ع) اور دیگر ائمّہ(ع)) کی روایات کو اخذ کرے اور ان مسلّم الثبوت روایات کو حاصل کرے جن پر عمل کرنا چاہیے اور اسی وسیلے سے خداوند عالم کے فرائض اور اس کے نبیؐ کی سنّت اطہر پر عمل کیا جاسکتا ہے، تو تم نے کہا کہ اگر ایسی کتاب ہو تو اُمیدِ واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے وسیلے سے اور اپنی معاونت اور توفیق سے برادرانِ دینی اور ملّت مسلمہ کو اپنے رہنمائوں کی طرف لے آئے گا۔”{مقدمۂ کافی، محمد بن یعقوب کلینی}
یعقوب کلینی نے عمر کا ابتدائی حصّہ رے میں گزارا پھر آپ قم تشریف لے گئے اور بغداد میں بھی قیام فرمایا اور بیس سال کی محنت شاقہ اور تگ و دو کے بعد معصومین(ع) کی روایات کے گراں قدر ذخیرے کو عامۃ المسلمین تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
یعقوب کلینی نے امام زمانہؑ کے وکلاء عثمان بن سعید عمری، محمد بن عثمان، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری کا دور دیکھا ہے اور اُن کی وفات آخری نائب سے ایک سال قبل یا اسی سال ہوئی ہے جیسا کہ “تناثر النجوم” سے واضح ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
”اَوَّلُ مَا اَبْدَءُ بِہٖ وَ اَفْتَتِحُ بِہٖ کِتَابِیْ ہٰذَا کِتَابُ الْعَقْلِ وَ فَضَائِلُ الْعِلْمِ وَ ارْتِفَاعُ دَرَجَۃِ اَہْلِہٖ وَ عُلُوُّ قَدْرِھِمْ وَ نَقْصُ الْجَھْلِ وَ خَسَاسَۃُ اَہْلِہٖ وَ سُقُوْطُ مَنْزِلِھِمْ، اِذْ کَانَ الْعَقْلُ ہُوَ الْقُطْبُ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْمَدَارُ وَ بِہٖ یُحْتَجُّ وَ لَہُ الثَّوَابُ وَ عَلَیْہِ الْعِقَابُ۔(واللہ الموفق)“
“میں اپنی اِس کتاب کا آغاز اور افتتاح کتاب العقل اور فضائل العلم سے کرتا ہوں کیوں کہ صاحبانِ علم کا درجہ بلند ہے اور ان کی قدر و منزلت عالی ہے اور جہالت کا نقص اور جاہلوں کی بے وقعتی اور منزلت کی پستی واضح ہے۔ جب کہ عقل وہ قطب ہے جس پر ہر شے کا دار و مدار ہے، اسی سے حجّت و دلیل قائم ہوتی ہے اور اسی پر ثواب اور عذاب کا انحصار ہے۔”
کتاب الکافی کے بارے میں شیخ مفید (متوفی۴۱۳ھ) شرحِ عقائد شیخ صدوق میں فرماتے ہیں:
”اَنَّہٗ اَجَلُّ کِتَابِ الشِّیْعَۃِ وَاَکْثَرُھَا فَائِدَۃً“{شرح عقائد صدوق}
“کتاب الکافی شیعوں کی جلیل ترین کتابوں میں سے ہے اور اس کا فائدہ بہت زیادہ ہے۔”
محقق کرکی (متوفی ۹۴۰ھ) اپنے اجازے میں قاضی صفی الدین عیسیٰ سے فرماتے ہیں:
”وَ مِنْھَا جَمِیْعُ مُصَنَّفَاتُ وَ رِوَایَاتُ الشَّیْخِ الْاِمَامِ السَّعِیْدِ الْحَافِظِ الْمُحَدِّثِ الثِّقَۃِ، جَامِعِ اَحَادِیْثِ اَہْلِ بَیْتٍ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ اَبِیْ جَعْفَرٍمُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوْبَ الْکُلَیْنِیِّ صَاحِبِ الْکِتَابِ الْکَبِیْرِ فِی الْحَدِیْثِ الْمَسَمّٰی بِالْکَافِی الَّذِیْ لَمْ یُعْمَلْ مِثْلُہٗ ……… وَ قَدْ جَمَعَ ہٰذَا الْکِتَابَ مِنَ الْاَحَادِیْثِ الشَّرْعِیَّۃِ وَ الْاَسْرَارِ الرَّبَّانِیَّہِ مَا لَایُوْجَدُ فِیْ غَیْرِہٖ وَ ہٰذَا الشَّیْخُ یَرْوِیْ عَمَّنْ لَایَتَنَاہٰی کَثْرَۃً مِّنْ عُلَمَاءِ اَہْلِ بَیْتٍ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ وَ رِجَالِھِمْ وَ مُحَدِّثِیْھِمْ مِثْلُ عَلِیِّ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ ہَاشِمٍ“{بحارالانوار، ج ۱۰۸، ص ۷۵-۷۶}
“اس کتاب میں احادیثِ شرعیہ اور ایسے اسرارِ ربّانیہ موجود ہیں جو اس کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں نہیں ہیں اور یہ شیخ کلینی علمائے اہلِ بیت(ع) سے کثرت سے روایات کرتے ہیں اور ان کے رجال اور محدّثین سے روایت کی ہے جیسے علی بن ابراہیم بن ہاشم سے۔”
شیخ بہائی کے والد شیخ حسین اپنی کتاب “وصول الاخبار” میں فرماتے ہیں:
”أَمَّا كِتَابُ الْكَافِيْ، فَهُوَ لِلشَّيْخِ أَبِيْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوْبَ الْكُلَيْنِيِّ شَيْخِ عَصْرِهٖ فِيْ وَقْتِهٖ، وَ وَجْهِ الْعُلَمَاءِ وَ النُّبَلَاءِ، وَ كَانَ أَوْثَقَ النَّاسِ فِي الْحَدِيْثِ، وَ أَنْقَدَهُمْ لَهٗ، وَ أَعْرَفَهُمْ بِهٖ، صَنَّفَ الْكَافِيَ وَ هَذَّبَهٗ وَ بَوَّبَهٗ فِيْ عِشْرِيْنَ سَنَةً، وَ هُوَ يَشْتَمِلُ عَلٰى ثَلَاثِيْنَ كِتَابًا يَحْتَوِيْ عَلٰى مَا لَايَحْتَوِيْ غَيْرُهٗ“
محمد بن یعقوب کلینی حدیث میں نہایت معتبر اور ثقہ تھے۔ اُنہوں نے کتاب کافی کو بیس سال کے عرصے میں مرتّب اور مُہَذَّبْ کیا اور وہ تیس کتابوں پر مشتمل ہے اور یہ جن مضامین پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ دوسری کتاب میں ایسا نہیں ہے۔”