کتاب الکافی کا تعارف..2
علامہ مجلسی شرح کافی کے مقدمے میں فرماتے ہیں:
”وَ ابْتَدَأْتُ بِكِتَابِ الْكَافِيْ لِلشَّيْخِ الصَّدُوْقِ، ثِقَةِ الْإِسْلَامِ، مَقْبُوْلِ طَوَائِفِ الْأَنَامِ، مَمْدُوْحِ الْخَاصِّ وَ الْعَامِّ، مَحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوْبِ الْكُلَيْنِيِّ، حَشَرَهُ اللهُ مَعَ الْأَئِمَّةِ الْكِرَامِ؛ لِاَنَّهٗ كَانَ أَضْبَطَ الْاُصُوْلِ وَ أَجْمَعَهَا، وَ أَحْسَنَ مُؤَلَّفَاتِ الْفِرْقَةِ النَّاجِيَةِ وَ أَعْظَمَهَا.“{مرأۃ العقول، ج ۱، ص ۳۴}
”اور میں نے کتابِ کافی سے آغاز کیا ہے، یہ ایسے شیخ کی تالیف ہے جو مبنی بر صدق باتیں کرتے ہیں، عوام النّاس میں مقبول ہیں، ممدوح خاص و عام ہیں جن کا نامِ نامی اسمِ گرامی محمد بن یعقوب کلینی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کا حشر اَئمہ کرامؑ کے ساتھ کرے، اس لیے کہ وہ نہایت منضبط اور جامع اُصول کے مالک تھے اور فرقۂ ناجیہ کے مؤلفات میں ان کی تالیف سب سے بہتر اور باعظمت ہے۔”
احمد بن علی بن احمد بن العباس النجاشی متوفی ۴۵۰ھ نے اپنی کتاب الرّجال میں یعقوب کلینی کی ۳۱ کتابوں کا نام بنام تذکرہ کیا ہے، جو درج ذیل ہیں:
کتاب العقل، کتاب فضل العلم، کتاب التوحید، کتاب الحجۃ، کتاب الایمان و الکفر، کتاب الوضوء، کتاب الحیض، کتاب الصلٰوۃ، کتاب الصیام، کتاب الزکوٰۃ و الصدقۃ، کتاب النکاح و العقیقۃ، کتاب الشہادات، کتاب الحج، کتاب الطلاق، کتاب العتق، کتاب الحدود، کتاب الدّیات، کتاب الایمان و النذور و الکفارات، کتاب المعیشۃ، کتاب الصید و الذّبائح، کتاب الجنائز، کتاب العشیرۃ، کتاب الدعاء، کتاب الجہاد، کتاب فضل القرآن، کتاب الاطعمہ، کتاب الاشربۃ، کتاب الزّی و التجمل، کتاب الدّواجن و الرواجن، کتاب الوصایا، کتاب الفرائض، کتاب الروضۃ{رجال نجاشی، ص ۲۹۲}
صاحب لؤلؤۃ البحرین محدث بحرانی نے اپنے بعض مشائخ سے نقل کیا ہے:
”اَمَّا الْکَافِیْ فَجَمِیْعُ اَحَادِیْثِہِ حُصِرَتْ فِیْ سِتَّۃَ عَشَرَ اَلْفَ حَدِیْثٍ وَ مِائَۃٍ وَّ تِسْعَۃٍ وَّ تِسْعِیْنَ حَدِیْثًا(۱۶۱۹۹)“
متاخرین کی اصطلاح کے مطابق ان کی تقسیم اِس طرح ہے:
صحیح | ۵۲۷۶ |
حسن | ۱۴۴ |
مؤثق | ۱۱۱۸ |
قوی | ۳۰۲ |
ضعیف | ۹۴۸۵ |
کل احادیث | ۱۶۱۲۱ |
اس تقسیم میں ۷۸ احادیث کی کمی ہے۔ اُصول کافی میں آٹھ کتابیں ہیں اور فروعِ کافی میں ۲۸ کتابیں ہیں۔
کافی کی کتابوں کے ماتحت عنوانات قائم کیے گئے ہیں جن کو ابواب سے تعبیر کیا ہے۔ اُصول کافی پانچ سو ۵۰۰؍ ابواب پر اور فروعِ کافی ایک ہزار سات سو ستتر ۱۷۷۷؍ ابواب پر مشتمل ہے اور پوری کافی میں ۲۲۷۷؍ ابواب ہیں۔
جن میں ہر باب کی مناسبت سے احادیث کو اس باب کے ماتحت درج کیا ہے۔ کتاب فروعِ کافی میں بعض عنوانات جو فقہی کتب میں الگ عنوانات کے ساتھ آتے ہیں، ضمنی عنوان کے تحت ہیں جیسے امر بالمعروف عنوان جہاد کے تحت ہے۔
روایاتِ کافی کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ڈاکٹر حسین علی محفوظ کے نزدیک ۱۵۱۷۶، علّامہ مجلسی کے نزدیک۱۶۱۲۱ اور شیخ عبدالرسول العقار کے نزدیک ۱۵۵۰۳ ہے۔ یہ اختلاف حدیث کو شمار کرنے کا نتیجہ ہے، بعض روایتیں دو سندوں سے ذکر کی گئی ہیں انھیں ایک شمار کیا گیا ہے۔
اس مقام پر ہم ایک نقشہ مرتب کر کے منسلک کررہے ہیں جس سے ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ کافی میں کون کون سی کتابیں ہیں اور ہر کتاب کے اندر کس قدر ابواب اور کتنی احادیث ہیں:
نمبر شمار | نام کتاب | تعداد ابواب | تعداد احادیث | نمبر شمار | نام کتاب | تعداد ابواب | تعداد احادیث |
۱ | کتاب العقل والجہل | ۱ | ۳۴ | ۱۸ | کتاب النکاح | ۱۹۱ | ۹۹۷ |
۲ | کتاب العلم | ۲۲ | ۱۷۵ | ۱۹ | کتاب العقیقۃ | ۳۸ | ۲۲۳ |
۳ | کتاب التوحید | ۳۵ | ۲۱۱ | ۲۰ | کتاب الطلاق | ۸۱ | ۴۹۹ |
۴ | کتاب الحجۃ | ۱۲۹ | ۱۰۱۶ | ۲۱ | کتاب العتق والتدبیر و الکتابۃ | ۱۹ | ۱۱۴ |
۵ | کتاب الکفر والایمان | ۲۰۸ | ۱۶۰۷ | ۲۲ | کتاب الصید | ۱۷ | ۱۱۹ |
۶ | کتاب الدّعاء | ۶۱ | ۴۱۸ | ۲۳ | کتاب الذبائح | ۱۵ | ۷۴ |
۷ | کتاب فضل القرآن | ۱۴ | ۱۲۳ | ۲۴ | کتاب الاطعمہ (ابواب الحبوب) | ۱۳۴ | ۷۰۹ |
۸ | کتاب العشرۃ | ۳۰ | ۱۱۹ | ۲۵ | کتاب الاشربۃ ابواب الانبذہ | ۳۸ | ۲۶۸ |
۹ | کتاب الطہارۃ | ۴۵ | ۳۴۰ | ۲۶ | کتاب الزی والتجمل و المروءہ
الگ نام دیا ہے |
۴۶ | ۵۵۳ |
۱۰ | کتاب الحیض | ۲۵ | ۹۳ | ۲۷ | کتاب الدواجن | ۱۳ | ۱۰۶ |
۱۱ | کتاب الجنائز | ۹۷ | ۴۱۲ | ۲۸ | کتاب الوصایا | ۳۹ | ۲۴۰ |
۱۲ | کتاب الصلوٰۃ | ۱۰۳ | ۹۲۷ | ۲۹ | کتاب المواریث | ۶۶ | ۳۱۰ |
۱۳ | کتاب الزکوٰۃ | ۸۹ | ۵۲۸ | ۳۰ | کتاب الحدود | ۶۳ | ۴۴۸ |
۱۴ | کتاب الصّیام | ۸۳ | ۴۵۲ | ۳۱ | کتاب الدیات | ۵۶ | ۳۶۹ |
۱۵ | کتاب الحج | ۲۳۷ | ۱۴۸۵ | ۳۲ | کتاب الشہادات | ۲۳ | ۱۱۹ |
۱۶ | کتاب الجہاد | ۲۶ | ۱۴۹ | ۳۳ | کتاب القضاء والاحکام | ۱۹ | ۷۸ |
۱۷ | کتاب المعیشۃ | ۱۵۸ | ۱۰۶۱ | ۳۴ | کتاب الایمان النذور و الکفارات | ۱۸ | ۱۵۰ |
سلسلۂ روایات
کافی کی روایات کے سند کے سلسلے میں ان کے مشائخ کی فہرست میں تیس افراد سے زیادہ کے نام آتے ہیں لیکن کلینی رازی نے زیادہ تر روایات کو ان آٹھ افراد سے نقل کیا ہے:
ثقۃ الاسلام علیہ الرحمہ نے احادیث کی اسناد میں عدۃ من اصحابنا فرمایا ہے اور آپ نے خود اس کی تشریح فرمائی ہے۔
“عدۃ من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ” ہو تو جماعت سے مراد یہ لوگ ہوں گے:
۱۔ محمد بن یحییٰ العطّار، ۲۔ محمد بن موسیٰ الکمندانی، ۳۔ دائودبن کورہ، ۴۔ احمد بن ادریس، ۵۔ علی بن ابراہیم بن ہاشم
اور اگر “عدۃ من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد” ہو تو جماعتِ اصحاب سے یہ لوگ مراد ہوں گے:
۱۔ علی بن ابراہیم بن ہاشم، ۲۔ علی بن محمد بن عبداللہ بن اذینہ، ۳۔ احمد بن عبداللہ بن اُمیہ، ۴۔ علی بن حسین
اور جب عدۃ من اصحابنا عن سہل بن زیاد ہو تو جماعتِ اصحاب سے یہ لوگ مراد ہوں گے:
۱۔ علی بن محمد علّان، ۲۔ محمد بن ابی عبداللہ، ۳۔ محمد بن الحسن، ۴۔ محمد بن عقیل الکلینی۔
الروضۃ من الکافی کے موضوعات:
۱۔ امیرالمومنین(ع) کے خطبات
۲۔ فضیلت شیعہ اور فضل اَئمہؑ کے بارے میں احادیث
۳۔ خواب کی حقیقت اور ان کی اقسام
۴۔ بیماریاں اور ان کا علاج
۵۔ دنیا کی پیدائش
۶۔ اَئمہ کرام ؑ کی وصیتیں اور پند و نصائح
۷۔ علاماتِ ظہور
۸۔ یاجوج ماجوج
۹۔ حدیث الفقہاء والعلماء
۱۰۔ چند آیاتِ قرآنی کی تفسیر و تاویل
۱۱۔ غزوئہ اُحد، صلح حدیبیہ، ہجرتِ پیغمبر اکرمؐ
۱۲۔ صفین میں حضرت علیؑ کی تقریر
۱۳۔ چند اصحاب کے حالاتِ زندگی، ابوذرؓ، زید بن علیؓ، سلمان فارسیؓ، جعفر بن ابی طالبؓ۔
۱۴۔ حدیثِ معراج
کتاب الکافی محدّثین، علماء و مجتہدین اور محققین میں نہایت مقبول ہے۔ ہر زمانے کے علما خواہ وہ متقدمین ہوں یا متاخرین، سب علم حدیث سے واقفیت کے لیے اسی کتاب سے رجوع کرتے تھے اور محدّثین کی تحقیق کا دار و مدار اسی کتاب پر ہے، ہر دور میں اسی کتاب سے درسِ حدیث دیا جاتا رہا ہے۔ بڑے بڑے علما نے اس پر حواشی تحریر کیے ہیں اور اس کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کتابیں لکھیں اور اس کی شرحیں تحریر کی ہیں۔
کافی پر حاشیہ لکھنے والے اور شرح کرنے والے
۱۔الشیخ محمد بن الحسن زین الدین (الشہید الثانی) العاملی نے اُصول کافی پر حاشیہ تحریر فرمایا ہے۔
۲۔الشیخ علی بن محمد بن الحسن بن زید الدین (الشہید الثانی) انھوں نے کافی کی ایک شرح لکھی جس کا نام الدّر المنظوم فی کلام المعصومؑ ہے، یہ شرح مکمل نہ ہوسکی، صرف ایک جلد میں کتاب العقل اور کتاب العلم شائع ہوئی۔
۳۔ السیّد بدرالدین بن احمد الحسینی العاملی الانصاری نے اُصول کافی پر حاشیہ لکھا ہے۔
۴۔ مولانا محمد امین الاستر آبادی نے اُصول کافی کا حاشیہ تحریر فرمایا۔
۵۔ السیّد الاجل محمد باقر بن شمس الدین محمد الحسینی الاستر آبادی، انھوں نے کتاب کافی پر حواشی تحریر کیے اور ان کی کتاب الرواشح السماویہ فی شرح الاحادیث الامامیہ کافی کی مشہور شرح ہے۔
۶۔ صدر الدین محمد بن ابراہیم الشیرازی انھوں نے کتاب الکافی کی شرح لکھی، رامپور کے کتب خانے میں اس کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے، جو کافی کی کتاب العقل اور کتاب العلم کی شرح ہے، ملّا صدرا نے اسے ۱۰۴۴ھ میں تمام کیا تھا۔
۷۔ حسام الدین محمد صالح بن احمد المازندرانی، انھوں نے اُصول کافی کی شرح کی ہے اور کہیں کہیں ملّا صدرا کی شرح پر اعتراض بھی کیا ہے، کتاب العقل والعلم اور کتاب التوحید کی شرح ہے۔
۸۔ مولانا الشیخ خلیل بن غازی القزوینی شیخ بہائی اور میر باقر داماد کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے ۱۰۵۷ھ میں کافی کی شرح لکھنا شروع کی جس کا نام شافی فی شرح الکافی رکھا۔
۹۔ مولانا محمد باقر بن محمد تقی بن مقصود علی الاصفہانی یہ علّامہ مجلسی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی کتاب کا نام بحارالانوار ہے جو ۱۱۰ جلدوں پر مشتمل ہے، وہ آپ کے محدث ہونے کا زندہ ثبوت ہے، آپ نے الکافی کی نہایت جامع اورمبسوط شرح لکھی ہے جس کا نام “مرآۃ العقول فی شرح اخبار الرسول” ہے، علّامہ موصوف نے ہر حدیث کے ساتھ یہ بھی تحریر کر دیا ہے کہ یہ حدیث کس قسم کی ہے۔