رَجَب المُرَجَّب کا مہینہ:
رَجَب یا رَجَب المُرَجَّب قمری اور اسلامی سال کے ساتویں مہینے کو کہا جاتا ہے۔ رجب، ذوالقعدة، ذی الحجہ اور محرم کو اشہر الحرم یعنی حرمت والے مہینے بھی کہا جاتا ہے اور روایات کی رو سے ان مہینوں میں جنگ اور خون ریزی حرام ہے۔ احادیث میں رجب کے مہینے میں حج، عمرہ اور روزہ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
پیغمبر اکرم ؐ سے منقول ہے: «رجب شهر الله و شعبان شهری و رمضان شهر امتی»”رجب خدا کا مہینہ، شعبان میرا مہینہ اور رمضان المبارک میرے امتیوں(بندگان خدا) کا مہینہ ہے”۔اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: "جو شخص اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھے تو گویا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے پورا مہینہ روزہ رکھا ہو۔ اس مہینے کی پہلی شب جمعہ کو لیلة الرغائب کہا جاتا ہے جس کے حوالے سے روایات میں مختلف اعمال اور آداب ذکر ہوئے ہیں۔ اس مہنیے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ جو ایام بیض کے نام سے معروف ہیں، میں اعتکاف جیسی عظیم سنت اور عبادت بھی انجام دی جاتی ہیں جو اسلامی عبادتوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔
اس مہینے میں واقع ہونے والے واقعیات میں سب سے اہم واقعہ پیغمبر اسلامؐ کی بعثت ہے جو اس مہینے کی ستائسویں تاریخ کو پیش آیا۔ اس کے علاوہ امام باقرؑ، امام محمد تقیؑ اور امام علیؑ کی ولادت باسعادت کے ساتھ ساتھ امام ہادیؑ اور امام کاظم ؑ کی شہادت بھی اس مہنیے کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
اس مہینے میں ائمہ معصومین بطور خاص امام حسینؑ اور امام رضاؑ کی زیارت کی بھی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
وجہ نام گذاری
رجب کے معنی بزرک اور عظیم جاننے کے ہیں۔[1] اس بنا پر ماہ رجب سے مراد عظمتوں والا اور محترم مہینہ ہے۔ علم لغت کے ماہرین کے بقول ظہور اسلام سے پہلے بھی رجب کے مہینے کو عربوں کے یہاں محترم سمجھا جاتا تھا اور اس مہینے میں جنگ وغیرہ سے پرہیز کیا جاتا تھا۔[2]
رجب کو بعض دیگر اسامی اور صفات سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک رجب الفرد ہے۔ یہ اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ مہینہ دوسرے حرام مہینوں ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام سے الگ ہے جبکہ دوسرے مہنے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اسی طرح اس مہینہ کو رجب المُضَر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ قبیلہ مُضَر (پیغمبر اکرمؐ کے اجداد میں سے) بطور خاص اس مہینہ کے احترام کے قائل تھے۔ اس کے علاوہ رجب الاصم، رجب المُرَجَّب، رجب الحرام، مُنصَل الأَسِّنہ اور مُنصِل الألّ اس مہینے کے دوسرے نام ہیں۔ [3]
اس مہینے کو «رجب الاصب» اور «رجب الاصم» نام رکھنے کے حوالے سے پیغمبر اسلام ؐ سے منقول ہے:
یُسَمَّی شَهرُ الرَّجبِ الاَصَبَّ ِلاَنَّ الرّحمةَ تُصَبُّ عَلَی اُمَّتی فیه صَبّاً وَ یُقالُ الاصَمُّ لِاَنَّه نُهیَ فیه عَن قِتالِ المُشرکینَ وَ هوَ مِنَ الشُّهورِ الحُرُم.[4]، ترجمہ: اس مہینے کو "اصبّ” کہا جاتا ہے چونکہ اس مہینے میں میری امت پر خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اور اسے "اصم” بھی کہا جاتا ہے چونکہ اس مہینے میں مشرکوں سے جنگ کرنے سے روکا گیا ہے۔
رجب کا مہینہ ظہور اسلام سے پہلے
زمان جاہلیت میں عربوں کے ہاں بھی رجب کا مہینہ خاص احترام اور اہمیت کا حامل تھا۔ اسی وجہ سے اس مہینے میں ان کے ہاں جنگ و خونریزی، قتل و غارت وغیرہ ممنوع اور حرام تھا اور وہ اس ممنوعیت کے پابند بھی تھے۔[5] ظہور اسلام کے بعد اس مہینے کی حرمت اور اہمیت میں مزید اضافہ ہوا اور دینی لحاظ سے اس مہینے کی ایک خاص قداست ہے۔[6]
ماہ رجب کی فضیلت
عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ جب بھی رجب کا مہینہ آتا تو مسلمان پیغمبر اکرمؐ کے گرد جمع ہوتے اس وقت پیغمبر اکرمؐ حمد و ثنائے پروردگار اور گذشتہ پیمغبروں کو یاد کرنے کے بعد فرماتے تھے:
کان رسول الله اذا جاء شهر رجب جمع المسلمون حوله و قام فیهم خطیبا فحمد اللہ و اثنی و ذکر من کان قبله من الانبیاء فصلی علیهم ثم قال ایها المسلمون قد اظلکم شهر عظیم مبارک و هو شهر الاصب یصب فیه الرحمه علی من عبده الا عبدا مشرکا او مظهر بدعة فی الاسلام، الا ان فی شهر رجب لیله من حرم النوم علی نفسه و قام فیها حرّم الله جسده علی النار، و صافحه سبعون الف ملک و یستغفرون له الی یوم مثله، فان عاد عادت الملئکه ثم قال من صام یوما واحدا من شهر رجب اومن من الفزع الاکبر و اجیر من النار [7]
"اے مسلمانوں! عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا کی بندگی کرنے والوں پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں سوائے مشرک اور بدعت گزار کے جس نے اسلام میں کوئی بدعت قائم کیا ہو۔ رجب کے مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو بھی اس رات شب بیداری کرے اور خدا کی عبادت میں مشغول رہے تو خدا اس کے جسم کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے اور ایک ہزار فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں اور ہزرا فرشتے اگلے سال اسی دن تک اس کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جو بھی رجب کے مہینے میں روزہ رکھے تو قیامت کے دن کی سختی اور خوف سے امان میں رہے گا اور جہنم کی آگ سے نجات ملے گا”۔
اس مہینے میں عبادت کی فضیلت
روزہ رکھنا
رجب میں روزہ رکھنے کے مختلف ثواب کا ذکر ہوا ہے:
بہشت کا واجب ہونا اور جہنم کی آگ سے نجات:
امام موسی کاظمؑ فرماتے ہیں:
رجب شهر عظیم یضاعف فیه الحسنات و یمحو فیه السیئات من صام یوما من رجب تباعدت عنه النار مسیرة مائة سنة و من صام ثلاثة ایام وجبت له الجنة
رجب کا مہینہ ایک با برکت مہینہ ہے جس میں نیکیاں دو برابر اور گناہ اس مہینے میں ختم ہو جاتے ہیں۔ جو بھی اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھے جہنم سے ایک سال کے فاصلے تک دور ہو جاتا ہے اور اگر اس مہینے میں تین دن روزہ رکھے اس پر بہشت واجب ہوتی ہے اور جہنم کی آگ اس پر حرام ہو جاتا ہے۔ [8]
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
اِنَّ فِی الجَنّةِ قَصراً لایَدخُلُه اِلّا صُوّامُ رَجَب
بتحقیق بہشت میں ایک ایسا قصر ہے جس میں سوائے رجب میں روزہ رکھنے والوں کے کوئی اور داخل نہیں ہو سکتا۔[9]
حاجتوں کا برآوردہ ہونا اور گناہ سے پاک ہونا، امام رضاؑ فرماتے ہیں:
من صام یومین من رجب رضی الله عنه یوم یلقاه و من صام ثلاثة ایام من رجب رضی الله عنه و ارضاه و ارضی عنه خصمائه یوم یلقاه و من صام سبعة ایام من رجب فتحت له ابواب الجنة الثمانیة و من صام من رجب خمسة عشر یوما قضی الله عز و جل له کل حاجة الا ان یساله فی مأثم او فی قطیعة رحم و من صام شهر رجب کله خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه و اُعتق من النار و دخل الجنة مع المصطفین الاخیار ،
جو شخص رجب میں دو دن روزہ رکھے تو جس دن وہ خدا سے ملاقات کرے گا خدا اس سے راضی ہوگا اور خدا اسے بھی راضی کرے گا اور اس سے حقداروں کو بھی اس دن اس سے راضی کرے گا۔ اور وہ شخص جو اس میہنے میں سات دن روزہ رکھے موت کے وقت اس کی روح کیلئے آسمان کے سات دروازے کھول دئے جائیں گے یہاں تک کہ وہ ملکوت اعلی تک پہنچے اور جو شخص آٹھ دن روزہ رکھے بہشت کے آٹھ دروازے اس پر کھول دئے جائیں گے۔ اور جو شخص پندرہ دن روزہ رکھے خدا اس کی حاجت کو پورا کرے گا مگر یہ کہ اس کی حاجت گناہ اور قطع رحم کے حوالے سے ہو، اور جو شخص پورا رجب کا مہینہ روزہ رکھے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئے جائیں گے گویا کہ وہ تازہ پیدا ہوا ہو اور جہنم کی آگ سے نجات ملے گی اور بہشت میں نیک لوگوں کا ہمنشین ہوگا۔ [10]
عذاب قبر سے نجات: ثوبان قبر میں عذاب میں مبتلاء ایک گروہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں:
فلو صاموا هولاء ایام رجب و قاموا فیها ما عذبوا فی قبورهم۔
اگر یہ لوگ رجب میں روزہ رکھتے اور اس میہنے کی راتوں میں شب بیداری کرتے تو ان کے قبر میں عذاب نہ ہوتا۔
عمرہ رجبیہ
احادیث کی روشنی میں رجب کے مہینے میں عمرہ بجا لانا دوسرے مہینوں میں عمرہ بجا لانے سے بہتر ہے۔ معاویہ بن عمار کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: رجب میں عمرہ بجا لانا بہتر ہے یا رمضان المبارک میں؟ امام نے فرمایا: رجب میں عمرہ بجا لانا بہتر ہے۔ای العمرة افضل؟ عمرة فی رجب او عمرة فی رمضان؟ فقال لا بل عمرة فی شهر رجب۔ [11]
ماہ رجب کے اعمال
مفاتیح الجنان میں ماه رجب کے اعمال کے ذیل میں ذکر ہوا ہے:
مشترک اعمال
امام زین العابدینؑ سے منقول ہے کہ رجب کے مہینے میں یہ دعا پڑہی جائے:
یا مَنْ یمْلِک حَوَائِجَ السَّائِلِینَ وَ یعْلَمُ ضَمِیرَ الصَّامِتِینَ لِکلِّ مَسْأَلَةٍ مِنْک سَمْعٌ حَاضِرٌ وَ جَوَابٌ عَتِیدٌ اللَّهمَّ وَ مَوَاعِیدُک الصَّادِقَةُ وَ أَیادِیک الْفَاضِلَةُ وَ رَحْمَتُک الْوَاسِعَةُ فَأَسْأَلُک أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَقْضِی حَوَائِجِی لِلدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ إِنَّک عَلَی کلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ۔
جو دعا امام صادقؑ سے منقول ہے وہ بھی اس مہینے میں پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے:
خَابَ الْوَافِدُونَ عَلَی غَیرِک وَ خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إِلا لَک وَ ضَاعَ الْمُلِمُّونَ إِلا بِک وَ أَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إِلا مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَک بَابُک مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِینَ وَ خَیرُک مَبْذُولٌ لِلطَّالِبِینَ وَ فَضْلُک مُبَاحٌ لِلسَّائِلِینَ وَ نَیلُک مُتَاحٌ لِلْآمِلِینَ وَ رِزْقُک مَبْسُوطٌ لِمَنْ عَصَاک وَ حِلْمُک مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاک عَادَتُک الْإِحْسَانُ إِلَی الْمُسِیئِینَ وَ سَبِیلُک الْإِبْقَاءُ عَلَی الْمُعْتَدِینَ اللَّهمَّ فَاهدِنِی هدَی الْمُهتَدِینَ وَ ارْزُقْنِی اجْتِهادَ الْمُجْتَهدِینَ وَلا تَجْعَلْنِی مِنَ الْغَافِلِینَ الْمُبْعَدِینَ وَ اغْفِرْ لِی یوْمَ الدِّینِ۔
امام صادقؑ سے منقول ہے کہ اس دعا کو رجب کے مہینے میں پڑھی جائے:
اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُک صَبْرَ الشَّاکرِینَ لَک وَ عَمَلَ الْخَائِفِینَ مِنْک وَ یقِینَ الْعَابِدِینَ لَک اللَّهمَّ أَنْتَ الْعَلِی الْعَظِیمُ وَ أَنَا عَبْدُک الْبَائِسُ الْفَقِیرُ أَنْتَ الْغَنِی الْحَمِیدُ وَ أَنَا الْعَبْدُ الذَّلِیلُ اللَّهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه وَ امْنُنْ بِغِنَاک عَلَی فَقْرِی وَ بِحِلْمِک عَلَی جَهلِی وَ بِقُوَّتِک عَلَی ضَعْفِی یا قَوِی یا عَزِیزُ اللَّهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه الْأَوْصِیاءِ الْمَرْضِیینَ وَ اکفِنِی مَا أَهمَّنِی مِنْ أَمْرِ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
رسول اکرمؐ سے منقول ہے: جو شخص رجب میں 100 مرتبہ أَسْتَغْفِرُ اللَّه الَّذِی لا إِلَه إِلا هوَ وَحْدَه لا شَرِیک لَه وَ أَتُوبُ إِلَیه۔ پڑھے اور اسکے اختتام پر صدقہ دے تو خدا اس پر اپنی رحمت اور مغرت نازل فرماتا ہے اور جو شخص اسے 400 بار پڑھے یا لکھے تو خدا اسے شہید کا ثواب عطا کرتا ہے۔
رسول خداؐ سے منقول ہے: جو شخص رجب میں ہزار مرتبہ "لا إِلَه إِلا الله” کا ورد کرے تو خدا اسے ایک لاکھ حسنہ عطا کرتا ہے اور بہشت میں اسے 100 شہر تعمیر کرتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص رجب کے مہینے میں دن اور رات کو ستر ستر مرتبہ: "أَسْتَغْفِرُ الله وَ أَتُوبُ إِلَیه” پڑھے اور اس کے بعد ہاتھوں کو بلند کرکے یہ کہے: اَللَّهمَّ اغْفِرْ لِی وَ تُبْ عَلَیَّ۔ تو اگر یہ سخص اس مہینے میں اس دنیا سے چلا جائے تو خدا اس پر راضی ہوگا اور رجب کے مہینے کی برکت سے جہنم کی آگ اسے نہیں چھولے گا۔
اس مہینے میں ہزار مرتبہ : أَسْتَغْفِرُ الله ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکرَامِ مِنْ جَمِیعِ الذُّنُوبِ وَ الْآثَامِ۔ کہنا مستحب ہے۔
اس مہینے میں تین دن جمعرات، جمعہ اور ہفتے کا دن روزہ رکھا جائے۔
پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے: جو شخص رجب کی راتوں میں سے کسی رات دس رکعت نماز اس ترتیب کے ساتھ بجائے لائے، سوره حمد اور سوره کافرون ایک ایک مرتبہ سوره توحید تین مرتبہ، تو خدا اس کے گناہوں کو معاف فرماتاہے۔
دعای اَللَّهمَّ یا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَةِ۔
اَللَّهمَّ یا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَةِ وَ الْآلاءِ الْوَازِعَةِ وَ الرَّحْمَةِ الْوَاسِعَةِ وَ الْقُدْرَةِ الْجَامِعَةِ وَ النِّعَمِ الْجَسِیمَةِ وَ الْمَوَاهبِ الْعَظِیمَةِ وَ الْأَیادِی الْجَمِیلَةِ وَ الْعَطَایا الْجَزِیلَةِ یا مَنْ لا ینْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَ لا یمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَ لا یغْلَبُ بِظَهیرٍ یا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَ أَلْهمَ فَأَنْطَقَ وَ ابْتَدَعَ فَشَرَعَ وَ عَلا فَارْتَفَعَ وَ قَدَّرَ فَأَحْسَنَ وَ صَوَّرَ فَأَتْقَنَ وَ احْتَجَّ فَأَبْلَغَ وَ أَنْعَمَ فَأَسْبَغَ وَ أَعْطَی فَأَجْزَلَ وَ مَنَحَ فَأَفْضَلَ یا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفَاتَ نَوَاظِرَ [خَوَاطِرَ] الْأَبْصَارِ وَ دَنَا فِی اللُّطْفِ فَجَازَ هوَاجِسَ الْأَفْكَارِ یا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْكِ فَلا نِدَّ لَه فِی مَلَكُوتِ سُلْطَانِه وَ تَفَرَّدَ بِالْآلاءِ وَ الْكِبْرِیاءِ فَلا ضِدَّ لَه فِی جَبَرُوتِ شَأْنِه یا مَنْ حَارَتْ فِی كِبْرِیاءِ هیبَتِه دَقَائِقُ لَطَائِفِ الْأَوْهامِ وَ انْحَسَرَتْ دُونَ إِدْرَاكِ عَظَمَتِه خَطَائِفُ أَبْصَارِ الْأَنَامِ یا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوه لِهیبَتِه، وَ خَضَعَتِ الرِّقَابُ لِعَظَمَتِه وَ وَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِه أَسْأَلُكَ بِهذِه الْمِدْحَةِ الَّتِی لا تَنْبَغِی إِلا لَكَ وَ بِمَا وَأَیتَ بِه عَلَی نَفْسِكَ لِدَاعِیكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ بِمَا ضَمِنْتَ الْإِجَابَةَ فِیه عَلَی نَفْسِكَ لِلدَّاعِینَ یا أَسْمَعَ السَّامِعِینَ وَ أَبْصَرَ النَّاظِرِینَ وَ أَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ یا ذَا الْقُوَّةِ الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیینَ وَ عَلَی أَهلِ بَیتِه وَ اقْسِمْ لِی فِی شَهرِنَا هذَا خَیرَ مَا قَسَمْتَ وَ احْتِمْ لِی فِی قَضَائِكَ خَیرَ مَا حَتَمْتَ وَ اخْتِمْ لِی بِالسَّعَادَةِ فِیمَنْ خَتَمْتَ وَ أَحْینِی مَا أَحْییتَنِی مَوْفُورا وَ أَمِتْنِی مَسْرُورا وَ مَغْفُورا وَ تَوَلَّ أَنْتَ نَجَاتِی مِنْ مُسَاءَلَةِ الْبَرْزَخِ وَ ادْرَأْ عَنِّی مُنْكَرا وَ نَكِیرا وَ أَرِ عَینِی مُبَشِّرا وَ بَشِیرا وَ اجْعَلْ لِی إِلَی رِضْوَانِكَ وَ جِنَانِكَ [جَنَّاتِكَ] مَصِیرا وَ عَیشا قَرِیرا وَ مُلْكا كَبِیرا وَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه كَثِیراً۔
دعای اول ناحیہ مقدسہ(اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِمَعَانِی جَمِیعِ مَا یدْعُوكَ)
بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِمَعَانِی جَمِیعِ مَا یدْعُوكَ بِه وُلاةُ أَمْرِكَ الْمَأْمُونُونَ عَلَی سِرِّكَ الْمُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ الْوَاصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ الْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ أَسْأَلُكَ بِمَا نَطَقَ فِیهمْ مِنْ مَشِیتِكَ فَجَعَلْتَهمْ مَعَادِنَ لِكَلِمَاتِكَ وَ أَرْكَانا لِتَوْحِیدِكَ وَ آیاتِكَ وَ مَقَامَاتِكَ الَّتِی لا تَعْطِیلَ لَها فِی كُلِّ مَكَانٍ یعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ لا فَرْقَ بَینَكَ وَ بَینَها إِلا أَنَّهمْ عِبَادُكَ وَ خَلْقُكَ فَتْقُها وَ رَتْقُها بِیدِكَ بَدْؤُها مِنْكَ وَ عَوْدُها إِلَیكَ أَعْضَادٌ وَ أَشْهادٌ وَ مُنَاةٌ وَ أَذْوَادٌ وَ حَفَظَةٌ وَ رُوَّادٌ فَبِهمْ مَلَأْتَ سَمَاءَكَ وَ أَرْضَكَ حَتَّی ظَهرَ أَنْ لا إِلَه إِلا أَنْتَ فَبِذَلِكَ أَسْأَلُكَ وَ بِمَوَاقِعِ الْعِزِّ مِنْ رَحْمَتِكَ وَ بِمَقَامَاتِكَ وَ عَلامَاتِكَ أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه وَ أَنْ تَزِیدَنِی إِیمَانا وَ تَثْبِیتا یا بَاطِنا فِی ظُهورِه وَ ظَاهرا فِی بُطُونِه وَ مَكْنُونِه یا مُفَرِّقا بَینَ النُّورِ وَ الدَّیجُورِ یا مَوْصُوفا بِغَیرِ كُنْه وَ مَعْرُوفا بِغَیرِ شِبْه حَادَّ كُلِّ مَحْدُودٍ وَ شَاهدَ كُلِّ مَشْهودٍ وَ مُوجِدَ كُلِّ مَوْجُودٍ وَ مُحْصِی كُلِّ مَعْدُودٍ وَ فَاقِدَ كُلِّ مَفْقُودٍ،لَیسَ دُونَكَ مِنْ مَعْبُودٍ أَهلَ الْكِبْرِیاءِ وَ الْجُودِ یا مَنْ لا یكَیفُ بِكَیفٍ وَ لا یؤَینُ بِأَینٍ یا مُحْتَجِبا عَنْ كُلِّ عَینٍ یا دَیمُومُ یا قَیومُ وَ عَالِمَ كُلِّ مَعْلُومٍ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه وَ عَلَی عِبَادِكَ الْمُنْتَجَبِینَ وَ بَشَرِكَ الْمُحْتَجِبِینَ وَ مَلائِكَتِكَ الْمُقَرَّبِینَ وَ الْبُهمِ الصَّافِّینَ الْحَافِّینَ وَ بَارِكْ لَنَا فِی شَهرِنَا هذَا الْمُرَجَّبِ الْمُكَرَّمِ وَ مَا بَعْدَه مِنَ الْأَشْهرِ الْحُرُمِ وَ أَسْبِغْ عَلَینَا فِیه النِّعَمَ وَ أَجْزِلْ لَنَا فِیه الْقِسَمَ وَ أَبْرِرْ لَنَا فِیه الْقَسَمَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِی وَضَعْتَه عَلَی النَّهارِ فَأَضَاءَ وَ عَلَی اللَّیلِ فَأَظْلَمَ وَ اغْفِرْ لَنَا مَا تَعْلَمُ مِنَّا وَ مَا لا نَعْلَمُ وَ اعْصِمْنَا مِنَ الذُّنُوبِ خَیرَ الْعِصَمِ وَ اكْفِنَا كَوَافِی قَدَرِكَ وَ امْنُنْ عَلَینَا بِحُسْنِ نَظَرِكَ وَ لا تَكِلْنَا إِلَی غَیرِكَ وَ لا تَمْنَعْنَا مِنْ خَیرِكَ وَ بَارِكْ لَنَا فِیمَا كَتَبْتَه لَنَا مِنْ أَعْمَارِنَا وَ أَصْلِحْ لَنَا خَبِیئَةَ أَسْرَارِنَا وَ أَعْطِنَا مِنْكَ الْأَمَانَ وَ اسْتَعْمِلْنَا بِحُسْنِ الْإِیمَانِ وَ بَلِّغْنَا شَهرَ الصِّیامِ وَ مَا بَعْدَه مِنَ الْأَیامِ وَ الْأَعْوَامِ یا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِكْرَامِ۔
دعای دوم ناحیہ مقدسہ(اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِالْمَوْلُودَینِ فِی رَجَبٍ )
اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِالْمَوْلُودَینِ فِی رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی الثَّانِی وَ ابْنِه عَلِی بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ وَ أَتَقَرَّبُ بِهمَا إِلَیكَ خَیرَ الْقُرَبِ یا مَنْ إِلَیه الْمَعْرُوفُ طُلِبَ وَ فِیمَا لَدَیه رُغِبَ أَسْأَلُكَ سُؤَالَ مُقْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْه ذُنُوبُه وَ أَوْثَقَتْه عُیوبُه فَطَالَ عَلَی الْخَطَایا دُءُوبُه وَ مِنَ الرَّزَایا خُطُوبُه یسْأَلُكَ التَّوْبَةَ وَ حُسْنَ الْأَوْبَةِ وَ النُّزُوعَ عَنِ الْحَوْبَةِ وَ مِنَ النَّارِ فَكَاكَ رَقَبَتِه وَ الْعَفْوَ عَمَّا فِی رِبْقَتِه فَأَنْتَ مَوْلای أَعْظَمُ أَمَلِه وَ ثِقَتِه [ثِقَتُه] اللَّهمَّ وَ أَسْأَلُكَ بِمَسَائِلِكَ الشَّرِیفَةِ وَ وَسَائِلِكَ الْمُنِیفَةِ أَنْ تَتَغَمَّدَنِی فِی هذَا الشَّهرِ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ وَاسِعَةٍ وَ نِعْمَةٍ وَازِعَةٍ وَ نَفْسٍ بِمَا رَزَقْتَها قَانِعَةٍ إِلَی نُزُولِ الْحَافِرَةِ وَ مَحَلِّ الْآخِرَةِ وَ مَا هی إِلَیه صَائِرَةٌ۔
ماہ رجب کی پہلی رات
چاند دیکھتے وقت یہ دعا پڑھی جائے:
"اَللَّهمَّ أَهلَّه عَلَینَا بِالْأَمْنِ وَ الْإِیمَانِ وَ السَّلامَةِ وَ الْإِسْلامِ رَبِّی وَ رَبُّک الله عَزَّ وَ جَلَّ۔
غسل کرنا
زیارت امام حسینؑ
نماز مغرب کے بعد 20 رکعت، یعنی دو دو رکعت کی دس نمازیں۔
نماز عشاء کے بعد دو رکعت نماز پڑھی جائے: پہلی رکعت میں حمد اور ألم نشرح ایک ایک مرتبہ، توحید تین مرتبہ اور دوسری رکعت میں حمد، ألم نشرح ، توحید اور معوذتین پڑھی جائے اور سلام کے بعد 30 مرتبہ "لا إِلَه إِلا الله” پڑھی جائے اور 30 مرتبہ صلوات بھیجا جائے۔
روز اول کے اعمال:
روزه رکھنا
غسل کرنا
زیارت امام حسینؑ
نماز سلمان کا پڑھنا
تیرویں رات
دو رکعت نماز پڑھنا جس کے ہر رکعت حمد، یس، تَبارَک المُلْک و توحید پڑھی جائے۔
تیرواں دن
ایام بیض (سیزدهم، چهاردهم و پانزدهم) کا پہلا دن ہے۔
روزه رکھنا
اگر کوئی اعمال اُمّ داوُد کو انجام دے تو اس دن روزہ رکھنا چاہئے۔
پندرویں رات
چھ رکعت نماز اسی کیفیت کے ساتھ پڑھی جائے جو تیرویں رات میں گذر گئی۔
غسل کرنا
احیاء(شب بیداری)
زیارت امام حسینؑ
30 رکعت نماز پڑھنا جس کی ہر رکعت میں ایک بار حمد اور 10 مرتبہ سوره توحید
12 رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد، توحید، فلق، ناس، آیۃ الکرسی ایک ایک مرتبہ اور قَدْر چار مرتبہ پڑھی جائے اور سلام دینے کے بعد بھی چار مرتبہ یہ کہا جائے:
” اَلله اَلله رَبّی لا اُشْرِک بِه شَیئا وَلا اَتَّخِذُ مِنْ دُونِه وَلِیا۔
پندرواں دن
غسل کرنا
زیارت امام حسینؑ
نماز سلمان پڑھنا
4رکعت نماز جس میں سلام دینے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے:
اَللّهمَّ یا مُذِلَّ کلِّ جَبّارٍ ؛ وَ یا مُعِزَّ الْمُؤْمِنینَ اَنْتَ کهفی حینَ تُعْیینِی الْمَذاهبُ؛ وَ اَنْتَ بارِئُ خَلْقی رَحْمَةً بیوَ قَدْ کنْتَ عَنْ خَلْقی غَنِیاً وَ لَوْ لا رَحْمَتُک لَکنْتُ مِنَ الْهالِکینَ وَ اَنْتَ مُؤَیدی بِالنَّصْرِ عَلی اَعْداَّئی وَ لَوْ لا نَصْرُک اِیای لَکنْتُ مِنَ الْمَفْضُوحینَ یا مُرْسِلَ الرَّحْمَةِ مِنْ مَعادِنِها وَ مُنْشِئَ الْبَرَکةِ مِنْ مَواضِعِها یا مَنْ خَصَّ نَفْسَه بِالشُّمُوخِ وَالرِّفْعَةِ فَاَوْلِیاَّؤُه بِعِزِّه یتَعَزَّزُونَ وَ یا مَنْ وَضَعَتْ لَه الْمُلُوک نیرَ الْمَذَلَّةِ عَلی اَعْناقِهمْ فَهمْ مِنْ سَطَواتِه خاَّئِفُونَ اَسئَلُک بِکینُونِیتِک الَّتِی اشْتَقَقْتَها مِنْ کبْرِیاَّئِک وَ اَسئَلُک بِکبْرِیاَّئِک الَّتِی اشْتَقَقْتَها مِنْ عِزَّتِک وَ اَسئَلُک بِعِزَّتِک الَّتِی اسْتَوَیتَ بِها عَلی عَرْشِک فَخَلَقْتَ بِها جَمیعَ خَلْقِک فَهمْ لَک مُذْعِنُونَ اَنْ تُصَلِّی عَلی مُحَمَّدٍ وَ اَهلِ بَیتِه۔
عمل ام داود
ستایسویں رات (عید مبعث)
غسل کرنا
زیارت امیرالمومنینؑ
12 رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد، فلق اور ناس کو ایک ایک بار اور سورہ اخلاص کو چار مرتبہ پڑھی جائے اور نماز کے اختتام پر یہ کہا جائے: لا اله الا الله والله اکبر الحمد لله وسبحان الله ولا حول ولا قوه الا بالله العلی العظیم۔
اس رات کو "لیلة المحیا” بمعنائے بیداری کی رات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔[12]
روز بیست و هفتم
غسل کرنا
روزه رکھنا
صلوات بھیجنا
زیارت امیرالمومنینؑ
زیارت پیغمبر اکرمؐ
12 رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سوره حمد اور یس کو ایک ایک مرتبہ اور نماز کی اختتام پر چار مرتبہ سورہ حمد اور چار مرتبہ یہ پڑھی جائے: لا اله الا الله والله اکبر والحمد لله وسبحان الله ولا حول ولا قوه الا بالله العلی العظیم۔ اس کے بعد چار بار یہ کہا جائے: ” الله ربی لا اشرک به شیئاً۔
ماہ رجب کے واقعات
ماہ رجب کی اہم تاریخی واقعات
ولادت امام محمد باقر ؑ (1 رجب ۵۷ق)
شہادت امام ہادی ؑ (3 رجب ۲۱۲ق)
ولادت حضرت علی اصغر ؑ (9 رجب ۶۰ق)
ولادت امام جواد ؑ (10 رجب ۱۹۵ق)
ولادت امیرالمومنین علیؑ (13 رجب ۱۰سال قبل از بعثت)
وفات حضرت زینب (س) (15 رجب ۶۲ق)
فتح خیبر بہ دست امیرالمومنین علی ؑ (24 رجب ۷ق)
شہادت امام کاظم ؑ (25 رجب ۱۸۳ق)
بعثت پیامبر ؐ (27 رجب)
حوالہ جات:
- مجمع البحرین، ج۲، ۶۷؛ النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر، ج۲، ۱۹۷؛ مسعودی، ج۲، ص۱۸۹
- مجمع البحرین، ج۲، ۶۷.
- دہخدا، علی اکبر، لغتنامہ، ج۲۴، ص۲۹۰
- وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۰، ص۵۱۱
- مجمع البحرین، ج۲، ۶۷.
- دائرة المعارف تشیع، ج ۸، ص ۱۷۶
- «بحارالانوار، ص۴۷، ح۳۳
- بحارالانوار، ج۹۴، ص۳۷
- بحارالانوار، ج۹۴، ص۴۷
- بحارالانوار، ج۹۴، ص۴۲
- من لا یحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق، ج۲، ص۳۴۵
- دائرۃ المعارف تشیع، ج۸، ص ۱۷۶