کلام الامام امام الکلام
مرکز افکار اسلامی تمام مومنین کی خدمت میں اعیاد رجبیہ بالخصوص ۱۳ رجب المرجب جشن مولود کعبہ(ع) کی پیشگی مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اسی سلسلہ میں کلام امیرالمومنین(ع) سے بہتر آشنائی کے لئے مضمون پیش خدمت ہے:
کلام الامام امام الکلام
ملفوظات جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام
(نوشتہ جناب سید اطہر حسین صاحب جعفری ،سابق معلم السنہ الشرقیہ ،عسکریہ، دائرہ معارف عسکریہ، ایران و عراق و غیرہ۔)
کتاب کشف الظنون اور ایسی ہی اور کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے امیر المومنین کے اقوال کو جمع کیا وہ ابوعثمان عمرو ابن بحر جاحظ ہیں ۔ انہوں نے گویا پھول سے خوشبو اور عطر سے روح لےکر بے شمار اقوال مرتضیؑ سے صرف سو چن کر اپنی کتاب “بدائع الغرر من کلام امیر المومنین حیدر” میں جمع کر دیئے ہیں۔ بقیہ ملفوظات کو غالبا ًآئندہ ارباب علم کے لیے چھوڑ دیا ہوگا کہ وہ بھی اس علمی خدمت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
ورنہ اس مختصر کو آنحضرت کے جملہ ملفوظات کے ساتھ وہی نسبت ہے جو شبنم کے قطرے کو بحرنا پیدا کنار کے ساتھ۔ صاحب کتاب مذکور جاحظ کے لقب سے مشہور تھے۔ عربی میں جاحظ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر کی طرف اُبھرے ہوئے ہوں۔ اتفاق سے قدرت کی جانب سے حُسن سیرت کا حصہ جتنا زیادہ آپ کو ملا تھا اتنا ہی کم حُسن صورت کا۔ آپ سیاہ فام اور بدشکل کریہ النظر تھے۔ آپ کی ہیبت نا کی کا اندازہ اُس حکایت سے ہوسکتا ہے جو آپ کے متعلق مشہور ہے۔ منقول ہے کہ کسی عورت کا بچہ بہت رویا کرتا تھا ۔کسی ظریف نے اُس سے کہہ دیا کہ اگر کسی تختی پر شیطان کی صورت نقش کرا کے بچہ کی گردن میں اُسے ڈال دیا جائے تو اُس کا رونا بند ہو جائے گا چنانچہ کسی نقاش کی دکان پر جا کر اس عورت نے فرمائش کی ۔ نقاش نے کہا کہ شیطان کو میرے سامنے لے آ۔ تو میں اس کی صورت کندہ کر دو ں۔ایک دن اتفاق سے سرّراہ اُس کی ملاقات جاحظ سے ہوگئی۔وہ آپ کو منت و سماجت کرکے نقاش کی دکان پر لے گئی اور آپ کو وہاں کھڑا کرکے اور نقاش سے اشارہ کر کے خود چلتی ہوئی ۔باوجود کافی غور و خوض کے اس کی یہ حرکت آپ کی پیشانی پر بل تک نہیں آیا اور آپ مسکراتے ہوئے چل دیئے۔
علامہ موصوف نے اس مقدمہ خاص میں وہ کام کیا ہے جس کی آئندہ نسلیں اگر آپ کی ممنون ہوں تو بجا ہوگا۔ کیونکہ کلام امیرالمومنینؑ کے جمع کرنے میں آپ ہی نے سب سے پہلے قلم اٹھایا اور دوسروں کے لئے ترغیب کا سبب ہوئے۔
اس کے بعد علامہ اوحدعبدالواحد بن محمد بن عبد الوحید تمیمی نے “غرر الحکم و درر الکلم”نام ایک کتاب لکھی جس میں آپ نے علامہ جاحظ کی تقلید میں امام ہمام کے کلام بلاغت نظام کو جمع کیا ہے۔
علامہ تمیمی فرماتے ہیں کہ میں نے طول کلام کے خوف سے بہت کلمات چھوڑ دئیے اور صرف ان کلمات پر اکتفا کی ہے جن سے رنج و غم کے بیمار کو شفا اور ارباب علم و ادب کو کافی فائدہ حاصل ہو۔ کتاب مذکور حروف تہجی اور فصول پر مرتب ہے۔ باب الہمزہ سے باب الباء تک عمدہ ترتیب سے ملفوظات کو جمع کیا گیا ہے۔ کثیر الحجم اور جامع کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب “الحکم العلویہ من کلام امیر المومنین سیدنا علی المرتضی” ہے۔ یہ نسخہ بیروت میں طبع ہوا ہے۔ چوتھی کتاب زمخشری ہے اس میں بھی سو ملفوظات درج ہیں۔
ان بزرگوں کے علاوہ محمد بن محمد بن عبد الجلیل العمری الرشید الوطواط البلخی نے کتاب “مطلوب کل طالب من کلام امیر المؤمنین سیدنا علیؑ بن ابی طالبؑ”تالیف کی ہے۔ اس میں وہی سو کلمات درج ہیں ۔جن کو علامہ جاحظ نے اپنی کتاب “بدایع الغرر” میں جمع کیا ہے۔ اور اس جدّت کے ساتھ کے نثر میں اس کے فارسی ترجمے کے ساتھ ساتھ ایک ایک قطعے میں اس ملفوظ کے مضمون و مفہوم کو نظم کا جامہ پہنا دیا ہے۔ رشید وطواط نے ایسے جلیل القدر مضامین کو اس خوبی سے نظم کیا ہے کہ اسے دیکھ کر سخندانان زمانہ متحیّر ہو جاتے ہیں۔ غالباً اُسی خدمت کے صلہ میں آپ کو خاقانی اور انوری جیسے ماہرین فن پر تفوق کی سند حاصل ہوئی ہے۔ یہ نادر روز گار رسالہ کیاب ہی نہیں بلکہ نایاب ہوگیا ہے۔
خوش قسمتی سے ایک قدیم قلمی نسخہ بوسیدہ دُریدہ مجھے دستیاب ہوگیا۔ اُسے دیکھ کر بے اختیار جی چاہا کہ اگر اُس کا اردو ترجمہ ہو جائے تو اِن دُر ہائے بے بہا کی تجلّی سے ہر طالب علم اپنی چشم بصیرت کو روشن کر سکے۔ لہذا مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر چند ملفوظات ناظرین اخبار کی ضیافت طبع کے طور پرذیلاً درج کئے جاتے ہیں۔ علامہ وطواط بلخی الاصل میں علم و عروض و قوانین میں امام وقت اور پیشوائے فن سمجھے جاتے تھے۔ کتاب “حدایق السحر” اور “فواید الفلاید” آپ کے تصانیف سے بے مثل شمار کی جاتی ہیں۔ آپ مدت دراز تک سلطان ایل ارسلان خوارزم شاہ کے کاتب الخاص اور دبیر الانشاء رہے۔ سنہ 589 ھ میں بعمر 93 سال فضائے عالم سے قضا کی۔ اپنے زمانے میں آپ کے فضل و کمال میں کوئی عدیل و نظیر نہ تھا۔
ملفوظات مبارکہ
لَوْ كُشِفَ الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيناً.
خلاصہ ترجمہ و مفہوم: اگر پردہ ہٹا لیا جائے تو بھی میرے یقین میں زیادتی نہ ہو گی یعنی ارشاد امام ہے کہ دنیا دارحجاب ہے اس میں رہتے ہوئے بھی مجھے امور آخرت مثلا حشر و نشر، ثواب و عذاب، جنت و دوزخ وغیرہ کا حال جتنا معلوم ہے اگر دنیا کا یہ درمیانی پردہ ہٹا کر مجھے دار آخرت کی سیر کرائی جائے تو بھی میرے موجود علم و یقین میں ذرّہ برابر کی زیادتی نہ ہو گی۔یعنی میرا آج کا علم الیقین کل کے عین الیقین کے برابر ہوگا۔
قطعہ فارسی رشید وطواط
حالِ خلد و جحیم دانستم بے یقین آں چناں کہ می یابد
گر حجاب از میانہ بر گیرند از یقیں ذرّہ نیفز اید۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
خلاصہ ترجمہ و مفہوم: جس نے اپنے نفس کو پہچانا تو گویا اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا یعنی جو شخص اپنے نفسوں پر گہری نگاہ ڈالتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ ایک وقت میں اس کا وجود نہ تھا بعد میں وہ موجود ہوا بس اس کو نیستی سے ہستی میں لانے والا ضرور کوئی ہے اور وہی اس کا پروردگار ہے خلاصہ یہ سمجھ رکھنے والا آدمی خود کی شناخت سے خدا کو پہچان لیتا ہے۔
قطعہ
بر وجود خدائے عز وجل ہست نفس تو حجت قاطع
چوں بدانی تو نفس را دانی کو ہست مصنوع و ایز دش صانع
اَلْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ
خلاصہ ترجمہ و مفہوم: آدمی اپنی زبان کے پردے میں چھپا ہوا رہتا ہے یعنی جب تک آدمی بات نہیں کرتا لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ وہ عالم ہیں یا جاہل، احمق ہے یا عاقل، جب وہ کلام کرتا ہے تو اس کی عقل وفراست اور فضل و کیاست کا مرتبہ معلوم ہو جاتا ہے چنانچہ شیخ سعدی نے بھی فرمایا ہے اور غالباً اُسی کلام سے اخذ کیا ہے۔
تامرد سخن ناگفتہ نباشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
مرد پنہاں شود زیر زباں تا نگوید سخن ، ندانندش
خوب گوید ۔ لبیب گویندش زشت گوید سفیہ خوانندش
بشر مال بخیل بحادث او وارث
خلاصہ ترجمہ و مفہوم:کنجوس کے مال کو حوادث زمانہ یا ترکہ کھانے والے کی خوشخبری دے دو۔ یعنی کنجوس کا مال یا تو ناگہانی واقعات کی بدولت برباد ہو جائے گا یا اس کے کسی وارث کے ہاتھ پڑے گا جو اسے خوب اڑائے گا مگر کنجوس کو زندگی میں غم و غصے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ کنجوسی اسے اجازت ہی نہ دے گی کہ وہ خود کھا پی کر آرام اٹھائے یا نیک کاموں میں مال صرف کرکے آخرت کا اجر حاصل کرے۔
ہر کرا مال ہست و محور ون نیست او ا زاں مال بہرہ کے دارد
یا بتا راج حادثات دہد یا بمیراث خوار بگذرد
انظر الی ما قال ولا تنظر الی من قال
خلاصہ ترجمہ و مفہوم:ٍ کہنے والے کو نہ دیکھو بلکہ اس کے قول کو دیکھو یعنی اس بات کا خیال نہ کرو کہ کہنے والا کون ہے عالم ہے یا جاہل شریف ہے یا رذیل، بلکہ یہ دیکھو کہ اس نے کیا کہا ہے اگر اس کا قول نیک و مفید اور شرع کے موافق ہو تو اسے قبول کرو ورنہ ترک کر دو۔
شرف قائل و خساء ست او
در سخن کے کنند ہیچ اثر
تو سخن را مگر کی حالش چیست
در گزا رندہ سخن منگر