حضرت امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالبؑ
مرکز افکار اسلامی تمام مومنین کی خدمت میں اعیاد رجبیہ کی مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اسی سلسلہ میں سیرت امیرالمومنین(ع) سے بہتر آشنائی کے لئے مضمون پیش خدمت ہے:
حضرت امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالبؑ
(سید رضا علی صاحب زیدی سنبھلی بی اے شعبہ دینیات شعبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
ولادت:
ولادت حضرت امیرالمومنینؑ کی ولادت 13 رجب سنہ 30ھ کو کعبہ میں ہوئی۔ کس قدر مبارک تھی آغوش فاطمہ بنت ِاسد کی کہ اسی میں پیغمبرِ اسلامؐ نے پرورش پائی اور پھر اسی میں مولود خانہ خدا اور جانشین پیغمبر اعظمؐ نے پرورش پائی کعبہ کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ بنتِ اسد ایک نور کا ٹکڑا اپنی گود میں لے کر باہر آئی اسی نور نے زمانے کو روشن اور منور بنا دیا۔
حضرتؑ کے والدین مکہ کے رائیس اور جزیرہ عرب کے سردار تھے علی علیہ السلام نے آنکھ کھولی تو محمد ؐکو دیکھا آپؑ کی عمر دس یا گیارہ سال کی ہوگی کہ اسلام کی شعائیں اپنی تیز روشنی سے دنیا کو منور کرنے لگی آپؑ کی زندگی کے ابتدائی 13 سال حضرت محمد مصطفیؐ کے ساتھ مکہ میں گزرے۔ شب ہجرت حضرت علی علیہ السلام نے ایک حیرت انگیز مثال پیش کی جب کل اہل مکہ نے یہ طے کرلیا کہ رسول خداؐ کو قتل کریں گے تو حضرتؑ تمام رات اُن کے بستر پر سوتے رہے تاکہ دشمنوں کو یہ نہ معلوم ہو سکے کہ رسول خداؐ کہاں تشریف لے گئے ہیں مشیت الٰہی تھی کہ حضرت علیؑ بچ گئے ورنہ 99 فیصد اُن کو اس موقع پر شہید کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مکہ میں جب بھی لوگ حضرت محمد مصطفیؐ کو ستاتے تو آپؑ اپنی حیثیت کے مطابق مدافعت میں حصہ لیتے حضرت علی علیہ السلام کچھ عرصہ تک مکہ میں رہتے رہے رسول خدا ؐکے پاس مشرکین کی جو امانتیں تھی وہ اُن کو دے کر آپؑ بھی رسول خدا ؐکے پاس مدینہ تشریف لے آئے۔ حضورؐ کے قوت بازو کے اسلام کو جس قدر فائدہ پہنچا ہے اُس کو اسلامی تاریخ کا ہر واقف کار جانتا ہے ۔آپؑ نے اسلام کی خدمت کے لیے کبھی اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ہجرت سے لے کر جنگ نہروان تک کم و بیش 23 مرتبہ آپ کو تلوار بے نیام کرنا پڑی۔
اسلام سے محبت:
حضرت علی ؑکو اسلام سے بہت محبت تھی اور تمام عمر اس کی خدمت میں گزاری آپؑ ہمیشہ اسی بات کے خواہشمند رہتے کہ آپؑ کی کوششیں اسلام کی ترقی میں کام آئیں۔ پیغمبر اعظم ؐوہ تمام کام جو دوسرے لوگ نہیں کر سکتے تھے امیرالمومنین ؑکے ہی سپرد کیا کرتے تھے اور حضرت علیؑ بھی ان کاموں کو ذمہ داری اور تن دہی سے انجام دیتے تھے آپؑ کی بہادری ،دلیری اور اسلام سے جس قدر محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بدر و اُحد کی بڑی لڑائی میں آپؑ کا بدن زخموں سے چور چور ہو گیا تھا مگرآپؑ نے ذرّہ بھی پرواہ نہ کی اور فتح یاب ہوکر قدم ہٹایا۔ امیر المومنینؑ نے محبت اسلام میں جو زحمتیں اٹھائی ہیں اُن کو آپؑ نے کبھی کبھی اپنی تقریروں اور تحریروں میں ظاہر کیا ہو تاکہ دوسرے بھی اپنے دل میں اسلام کا و ہی عشق پیدا کر سکیں اور بڑی سے بڑی قربانی سے حق کے لیے دریغ نہ کریں۔ امیر المومنینؑ نے امیر معاویہ کو ایک خط تحریر فرمایا تھا اور اس میں لکھا تھا:
ہماری قوم نے ہمارے رسولؐ کے قتل کا ارادہ کیا اور ہماری بیخ کنی پر تل گئے۔ ہمارے ساتھ بہت بُرے سلوک کئے ۔خواب و خور ہم پر حرام کر دیااور ہمیں مجبور کردیا کہ ہم گھاٹیوں میں جا کر پناہ لیں۔ جنگ کے شعلے ہمارے خلاف بھڑکائے۔ خدا نے ہم سے چاہا کہ ہم رسولؐ کی حفاظت کریں رسول اللہؐ کا فائدہ یہ تھا کہ جب سخت جنگ ہوتی تھی اور لوگ خوف سے پیچھے قدم رکھتے تھے توآپ اپنے اہل بیت ؑکو آگے کر دیتے تھے اور ان کے ذریعہ سے اصحاب کو تیغ و سنان کی گرمی سے بچا لیتے تھے۔ رسول خداؐ کے ابن عم عبد ابن مارث بدر میں قتل ہوگئے اور حمزہ عم اُحدمیں قتل ہوئے اور جعفر ابن عم رسولؐ جنگ موتہ میں قتل ہوئے۔
اور ارادہ کیا اُس شخص نے کہا کہ اگر میں اس کا نام لینا چاہوں تو لے سکتا ہوں انہیں لوگوں کی طرح شہادت کا لیکن ان کی مدت حیات ختم ہو چکی تھی اس لیے وہ جام شہادت نوش کر گئے اور اس شخص کی مدت حیات باقی تھی اس لئے باوجود شہادت کی کوشش کے اس وقت موت سے ہمکنار نہ ہوسکا۔
یہ آخری شخص جن کا ذکر امیر المومنینؑ نے کیاہے۔ اس سے مراد خود اپنی ذات کو لیا ہے۔ آپؑ نے ہر جنگ میں نہایت دلیری کے ساتھ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر اسلام کی محبت سے سرشار ہو کر میدان جنگ میں قدم رکھا اور کبھی اس کی پروا نہ کی کہ جنگ رشتہ حیات قطع نہ کردے۔
اسلام کے لئے آپؑ کے دل میں بڑی عزت اور جوش تھا حضرت علیؑ وہ پہلے فرد تھے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام ؐکے آواز پر لبیک کہا اور ہمیشہ اسلام اور اس کے بانی کے تعریف میں لب کشا رہتے تھے۔
فرماتے تھے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ خدا کے رسول ہیں خدا نے ان کو سچا دین پھیلانے کے لئے بھیجا ہےاور ان کو ایک کتاب بھی دی ہے۔ خدا نے ان کو اس لیے بھیجا جائے کہ جو لوگ گمرا ہ ہیں انہیں صحیح راستہ بتائیں ان کو تباہی اور گمراہی سے بچائیں۔ ان کو بتائیں کہ تمہارا کوئی پیدا کرنے والا بھی ہے۔
اخلاق اور سخاوت:
امیرالمومنینؑ ایک بلند شخصیت اور کردار کے مالک تھے۔ آپؑ کے نقش قدم پر چل کر بہتوں نےاپنی زندگیاں بنا لیں ۔آپؑ علم کے دریا تھے۔ ادب کے بڑے بڑے عالموں نے آپؑ کو امام مانا ہے۔ آپؑ کی زندگی بہت پاک صاف اور سادہ تھی بہت ہی موٹا جھوٹا کھاتے پہنتے تھے جو کچھ دن بھر کی محنت کے بعد ملتا اسی پر قناعت کرتے۔ تحصیل معاش کے لئے آپؑ چھوٹے بڑے پیشے کے قائل نہ تھے بلکہ آپؑ نے خود ایک یہودی کے باغ میں اجرت پر کام کیا اور جو کچھ وہاں سے اجرت ملی اسی سے اپنے متعلقین کی اپنے اہل محلہ کی اور دوسرے ضرورت مندوں کی ضروریات زندگی مہیا کرتے۔سخاوت میں نہ تو کسی نے آپؑ کی برابری کی ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ ہزاروں لوگ آپؑ کے در سے فیض یاب ہوتے تھے۔ خدا کی راہ میں سب کچھ لوٹا دینے کو تیار رہتے تھے۔ آپؑ نے نیکی کو نیکی کے لئے کرنے کا عملی اصول پیش کیا۔شب کو ضرورت مندوں کے گھر پر خود جاتے اور ضروریات زندگی پہنچا دیا کرتے۔ آپؑ کی سخاوت کا آپؑ کی دریادلی کا اور خلق خدا کی خدمت کا انداز اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپؑ کو ایک اندھا فقیر ملا آپؑ نے اس کی مزاج پرسی کی اس کو کھانا کھلوایا۔ روزانہ آپؑ اس فقیر کے پاس کھانا لے کر جاتے اور ہر طرح سے اس کی خدمت کرتے۔ فقیر نے کئی مرتبہ آپؑ سے نام دریافت کیا مگر آپؑ نام بتانے سے انکار کر دیتے تھے اور یہ جواب دے دیتے کہ فقیر ہوں فقیر کی خدمت کرنے کے لئے آتا ہوں۔ تم کو نام سے کیا واسطہ ہے۔ چار سال تک آپؑ نے اس فقیر کی اسی طرح خدمت کی۔ ایک روز جب آپؑ فقیر کے پاس کھانا لے کر نہیں پہونچے تو فقیر کو بڑی پریشانی اور بے چینی ہوئی۔ فقیر نے اِدھر اُدھر لوگوں سے دریافت کیا کہ ایک شخص روزانہ میرے پاس کھانا لے کر آتا تھا مگر آج وہ کھانا لے کر نہیں آیا جس کی وجہ سے میں سخت پریشان ہوں لوگوں نے اس فقیر سے دریافت کیا کہ اس شخص کا کیا نام ہے فقیر نے جواب دیا کہ میں نے چند مرتبہ اس سے نام دریافت کیا مگر اس نے کبھی مجھے اپنا نام نہیں بتایا ۔ لوگوں نے پھر اُس فقیر سے پوچھا کہ اچھا اس شخص کی کچھ نشانیاں بتاؤ فقیر نے کچھ نشانیاں بتائیں لوگ فورا ًسمجھ گئے کہ حضرت امیر المومنینؑ ہی اُس فقیر کی خدمت کیا کرتے تھے فقیر سے کہا: کہ اے فقیر! جو تیری خدمت کیا کرتے تھے وہ تین دن ہوئے کہ شہید ہو گئے۔ آپ ؑکتنے سخی ۔قوی ایمان، دل کے بڑے اور خدمت خلق کرنے والے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سیکڑوں آدمیوں کی پرورش امیرالمومنینؑ کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو معلوم بھی نہیں تھا کہ کون ان کو کھانا کھلاجاتا ہے یہ حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب آپ ؑنے دائمی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت علیؑ کا یہ مشہور فقرہ ہے۔
یعنی جو شخص تھوڑا سا بھی راہ خدا میں صرف کرے گا خدا اس کو جزائے عظیم دے گا(نہج البلاغہ) کتاب “حکیم الہی” حضرت علیؑ مصنفہ جناب علامہ کا مون پوری ڈاکٹر سید مجتبیٰ حسن صاحب قبلہ مجتہد العصرمیں حافظ ابونعیم اصفہانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرتؑ قوم کے سردار رسول کے جانشین خدا کے پیارے اور دروازہ شہر علم تھے۔ خلقت خدا کی خدمت کرنے والے اور پرہیزگاروں کے پیشوا تھے اور ہر وقت یاد الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضور عبادت سے زیادہ کسی چیز کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ مذہب کے معاملے میں آہنی انسان تھے۔ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے پیغمبر ؐسے علیؑ کی شکایت کی مگررسول خدا ؐآپؑ سے اچھی طرح سے واقف تھے۔ رسولؐ جانتے تھے کی علیؑ ہر وقت یاد الہی میں سر بہ سجود رہتے ہیںوہ مذہب کے معاملے میں بہت پکے ہیں انکی شکایت کرنا فضول ہے۔ رسول خداؐ نے ان شکایت کرنے والوں سےکہا کہ تم جس کی شکایت کر رہے ہو وہ عشق الہی میں سرگشتہ ہے کتاب حکیم الہی (38)مطبوعہ حسنی مشن راولپنڈی پاکستان۔
ایک مرتبہ محبوب الہی نے دعا کی کہ اے خدا تو علیؑ کے دل کو روشن اور ایمان سے آباد رکھ ۔خدا نے اپنے پیارے محبوب کی یہ دعا قبول فرمائی لیکن یہ بھی بتایا کہ علیؑ کو کئی امتحانوں سے گزرنا ہوگا وہ امتحان ایسے ہونگے کہ نہ آج تک دنیا میں کسی کے ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے اور یہی امتحانات ان کو اماموں، امام، پرہیزگاروں کا پیشوا، عبادت گزاروں کا نور، عالموں کا عالم اور یتیموں کا ولی بنا دیں گے۔حضرت علیؑ نہایت صبر وو استقلال سے ان دشوار گزار را ہوں کوعشق الہی میں طے کیا۔
آپ کی تعلیمات:
حضرت علیؑ جو کچھ کہتے تھے اس کا ایک ایک لفظ عشق الہی میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ آپؑ نے لوگوں کو جو تعلیم دی اس میں بتایا کہ سخت ترین عمل تین ہیں۔
- چاہیئے جس حال میں ہو یا د الہی میں محو رہو ۔ (2) دوسری کی مالی امداد کے لئے ہر وقت تیار رہو۔ (3) اور اپنے نفس پر قابو رکھو ۔ جو فرض ہے اس کو فرض جان کر ادا کرو اس کے ادا کرنے میں دیر نہ کرو ۔حضرتؑ نے فرمایا اچھے کام کرو خدا کو یاد رکھو وہ بھی تم کو یاد رکھے گا۔ اگر تم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کو مان لو اور آئندہ کے لئے اس سے توبہ کرو سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو غلطی کرکے اس کے لیے معافی مانگ لیتا ہے اور اس سے توبہ کر لیتا ہے ۔ لوگوں سے آپؑ نے فرمایا کہ تمہارے خوشحالی اس بات میں نہیں ہے کہ تم دولت مند ہو تم کثیرالعیال ہو بلکہ تم دولت مند اور خوش حال اس وقت کہلاؤں گے کہ جب تمہارے پاس صبر کا ذخیرہ ہو اور دنیاوی دولت کے بجائے علم اور دین کی دولت تمہارے پاس ہو اس وقت خدا بھی تمہاری خوشحالی سے خوش ہو گا ۔ تمہارے پاس دین اور علم کی دولت بھی ہے اور تم صابر بھی ہو۔
حضرتؑ نے ایک مرتبہ لوگوں کو چار باتوں کی تعلیم دی جو بہت ہی اہم اور گراں قدر ہیں اور جو دنیا کے کسی فلسفہ میں نہیں ملتیں ۔ آپؑ نے فرمایا:
(1) خدا کے سوا کسی سے بھی امید مت کرو۔ (2) گناہ کے علاوہ کسی سے مت ڈرو ۔ گناہ سے بچو، گناہ ہی سب سے زیادہ خوفناک چیز ہے۔ (3) صبر کرو ۔صبر کی نسبت ایمان سے ویسی ہے جیسی سرکی جسم سے۔ اگر سر کٹ جاتا ہے تو جسم فنا ہوجاتا ہے اگر صبر نہیں تو ایمان کی بھی روح نہیں ہے ہو جاتا ہے اور چوتھی بات جو حضرتؑ نے بتائی وہ یہ ہے کہ اپنی کمی کو پورا کرو۔ آپ کے اندر کوئی کمی ہےتو دوسروں سے معلوم کرکے اسے پورا کرنے کی کوشش کرو ۔جس بات سے ناواقف ہوں اس کو بغیر ہچکچائےصاف صاف کہہ دو۔ اگر وہ کمی تمہارے اندر ہوگی تو بڑہتی جائے گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ آئندہ وہ نقصان کا باعث ہوگی۔
زندگی کے متعلق حضرت علیؑ نے جو بیان دیا ہے اسے ہر انسان کے کان تک پہنچنا چاہیے جو سانس لے رہا ہے۔ آپؑ کے خطبات، آپ کی تقریروں اور خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے کس دنیا کا تصور کیا تھا۔ اور وہ دنیا کیسی تھی۔ اس دنیا اور آج کی دنیا میں کیا فرق ہے۔
پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد لوگ دین کی دولت سے بے پرواہ ہو کر دنیاوی دولت کو سمیٹنے پر لگ گئے تھے۔ بنی امیہ کے دور نے زمانے کی حالت کو بالکل بدل دیا تھا ۔ اسلامی شریعت کو پس پشت ڈال کر اپنی الگ شریعت بنا لی تھی جس میں ہر چیز جائز قرار دے دی گئی تھی۔ امیر اور غریب دو طبقے نظر آنے لگے تھے۔ حضرتؑ سے یہ تمام چیزیں نہ دیکھی گئیں۔ ان کے خلاف آواز بلند کی آپؑ فرماتے تھے۔
بخدا تمہاری ناجائز دولت میری نظر میں سور کے گوشت سے بھی زیادہ مکروہ ہے جو کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔ امیرالمومنینؑ کا ان تقریروں سے یہ مطلب نہیں تھا کہ دنیا سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ دنیا سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھو۔ بلکہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ معاش کے جائز و حلال ذرائع اختیار کریں ۔ اپنے فرض کو نہ بھولیں ،یا دریا الٰہی سے غافل نہ ہوں۔
اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ صرف دنیوی جھگڑوں ہی میں پھنس کر رہ جائیں، زیادہ کے لئے ہوس نہ کریں صرف بندہ شکم ہو کے نہ رہ جائیں بلکہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے لیے کوشش کریں۔