آج کی دنیا کے لوگوں کی پریشانیوں کا علاج
علامہ فیض الاسلام سید علی نقی اصفہانی نہج البلاغہ کے مقدمہ میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ہر کوئی پریشان ہے اور علاج کی فکر میں ہے مگر اُس کا حل نہیں جانتا۔ ان پریشانیوں سے نجات کی راہ نہج البلاغہ میں حضرت امیر المومنین ؑ کے فرامین کو غور سے پڑھنے اور اُن پر عمل کرنے میں ہے۔ اس مختصر کتاب میں زندگی کے کسی پہلو کو خالی نہیں چھوڑا گیا اور اس پر عمل سعادت وسرداری کا ضامن ہے کیونکہ یہ کتاب فرامینِ پیغمبر اکرم ؐ کا نتیجہ اور حقائق قرآن کریم کے معانی کو سمجھنے کے لئے راہنما ہے۔ جو بھی اچھائی و بھلائی اورآسائش و راحت کا خواہاں ہے وہ نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے اور اسے اپنی زندگی کے لیے دستور و سرمشق قرار دے۔
بادشاہ وو زراء اور سیاستمدار پڑھیں تاکہ ملک کے استقلال کی حفاظت کر سکیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھانا اور رعایاسے برتاؤ کا طریقہ سیکھ سکیں۔ اسمبلیوں کے ممبران پڑھیں تاکہ دین کے دستور پر عمل کریں، شہروں کے حکمران وسردار پڑھیں تاکہ اپنے زیر سرپرستی لوگوں کو سہولیات میسر کرسکیں۔ فوج کے افسر پڑھیں تاکہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کےلیے تیار رہیں اور جنگوں میں فتح یاب ہوسکیں۔ غنی و فقیر پڑھیں تاکہ تکبر اور رشک سے محفوظ رہیں۔
علماء و دانشمندان پڑھیں تاکہ علم سے فیض یاب ہوں۔مجتہدین پڑھیں تاکہ استنباط کی راہوں سے آگاہ ہوں ۔ مبلغ و مربی پڑھیں تاکہ دین کو دُینا کے بدلے میں نہ بیچیں اور اللہ کی مرضیاں خرید سکیں۔ واعظ وخطیب پڑھیں تاکہ وعظ و خطابت کا طریقہ جان سکیں۔ مؤلف و مصنف پڑھیں تاکہ مہمل باتوں میں وقت ضائع نہ کریں اور قلم کی عفت کی حفاظت کریں اور ایسے مطالب لکھیں کہ خود اور اُن کی نسلیں اُس پر فخر کریں۔ فصیح وبلیغ اور ادیب و خطیب پڑھیں تاکہ فصاحت و بلاغت کے خرمن اور کلام کی مٹھاس سے خوشہ چینی کر سکیں۔ تاجر وکاروباری اور طبیب پڑھیں تاکہ تجارت وطبابت میں خدا کو مدنظر رکھیں حلال منافع حاصل کریں تاکہ خدا اور خلق خدا کے سامنے سرخرو ہوں۔ جج و وکلاء پڑھیں تاکہ انصاف و معاملات میں چند پیسوں کی خاطر نا حق فیصلے نہ کریں۔
طالب علم و صاحبان شعور پڑھیں تاکہ اس شجر علم سے پھل حاصل کریں اور گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں کو پہچان سکیں۔ جوان پڑھیں تاکہ جوانی کی فرصت و طاقت کو ضائع نہ کریں، فلسفی پڑھیں تاکہ مبداءو معاد کے بارے میں جس تاریکی میں ہیں اُس سے نجات حاصل کریں۔ یہودی وعیسائی پڑھیں تاکہ اپنی کتابوں سے اس کی تطبیق کر کے حق و حقیت کو جان لیں۔ بھٹکے ہوئے اور گمراہ پڑھیں تاکہ انجام کے خطرے سے آگاہ ہوکر اوررسوائی سے خوف کھا کر اس سے زیادہ گمراہ کرنے والے نہ رہیں۔ زاہد و پار سا پڑھیں تاکہ امام المتقین ؑکے زہد و تقویٰ کی راہ کو دیکھتے ہوئے غلط راہوں پر قدم نہ رکھیں۔ پڑھے لکھے اَن پڑھوں کے لیے پڑھیں تاکہ اُن کو علم حاصل کرنے ،علم کی لذت سے آشنا ہونے اور دین و دنیا کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر آمادہ کر سکیں۔ خلاصہ یہ کہ تمام افراد بشر پڑھیں تاکہ ہمیشہ کی سعادت اور دنیا و آخرت کی ترقی کو پا سکیں۔
نہج البلاغہ کے اس مبلغ کے لئے آیت اللہ خامنہ ی مختلف تقاریر میں فرماتے ہیں: ’’دانش مند اور مخصوص افراد کے علاوہ لوگ نہج البلاغہ کے نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے پہلی بار آپ نے نہج البلاغہ کا عام فہم ترجمہ کیا اور لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچایا ۔اور نہج البلاغہ کی صدا کو لوگوں تک پہنچایا۔ ہمارے زمانے میں پہلی شخصیت جو نہج البلاغہ کو سامنے لائی وہ مرحوم فیض الاسلام تھے۔خود چلے گئے لیکن نہج البلاغہ کا مفید ترجمہ لوگوں کو دے گئے۔ میرا فرض بنتا ہے کہ میں ہر جگہ اُن کا ذکر کرو ں تاکہ معاشرے میں اُن کی یہ خدمت بھلائی نہ دی جا ئے ۔اِن سے پہلے عوامی معاشرے اور علمی و روشن فکر طبقے میں حتی کہ دینی مدارس کے طلبہ بھی نہج البلاغہ سے آشنا نہیں تھے۔ ہمیں آج اس بخشش و عطا کے حق میں کمی کو نہج البلاغہ پر عمل کرکے پورا کرنا چاہیے۔
نہج البلاغہ کے اس فارسی ترجمے سے جہاں ایران کے فارسی زبان لوگ مستفید ہوئے ہیں ،وہیں اردو دان طبقہ پربھی اِس ترجمہ کا نہایت مثبت اثر ہوا ۔نہج البلاغہ کےاہلسنت مترجم علامہ سید رئیس احمد جعفری ندوی اپنے ترجمہ کے شروع میں لکھتے ہیں: میرے پیش نظر نہج البلاغہ کے چند نسخے رہے ہیں۔
(1) ایک نسخہ وہ جو مصر سے چھپا ہے اور جس کی شرح دیار مصر کے مفتی مرحوم علامہ محمد عبد ہ نے نہایت نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی کے ساتھ فرمائی ہے اس سے میں نے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور جہاں فائدہ اٹھایا ہے ، حوالہ دیا ہے۔
(2) دوسرا نسخہ وہ ہے ، جو نہایت ہی زیادہ شاندار طریقے پر ایران (طہران) سے شایع ہوا ہے ۔اس کا فارسی ترجمہ ضروری تشریحات کے ساتھ اور حسب موقع حواشی اور ذیلی مندرجات کے ساتھ علامہ علی نقی فیض الاسلام مجتہد العصر ایران نے فارسی زبان میں کیا ہے۔ اس سے میں نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ گراں بہا نعمت میرے سامنے نہ ہوتی تو شاید میں یہ کام نہ کر پاتا ۔بار بار اس کے حوالے آپ کی نظروں سے گزریں گے۔
ندوی صاحب اس مقدمہ میں جسے اُنہوں نے( شذرات )کا نام دیا ہے ایک اور مرحلہ پر لکھتے ہیں:میں پھر کہتا ہوں کہ اگرعلامہ فیض الا سلام سید علی نقی کا فارسی ترجمہ مجھے دستیاب نہ ہو جاتا تو ہر گز صرف اپنی استعداد پر یہ کارِ اہم مجھ سے انجام نہیں پا سکتا تھا۔ واضح ہوکہ سید رئیس احمد جعفری ندوی مرحوم کا یہ ترجمہ پاکستان میں اردو کا پہلا ترجمہ تھا۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کا ترجمہ اس کے بعد تحریر ہوا۔مفتی صاحب نے ’’لاہور سے جس ترجمہ کو مکمل کہہ کرشایع کیا گیا ‘‘کے الفاظ میں اس ترجمہ کا ذکر کیا ہے۔
علامہ فیض الاسلام کا نام نہج البلاغہ کے نام کے ساتھ زندہ ہے اور یقیناً فیض امیر المومنین علیہ السلام سے آخرت کی منزل میں بھی مستفید ہوں گے ۔اللہ سبحانہ ہم سب کو کلام امام ؑ کو عام کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔