آئینہ امامت یعنی نہج البلاغہ
﷽
جناب آغا محمد سلطان مرزا صاحب دھلوی
ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سشن جج و مصنف البلاغ المبین وغیرہ۔
یہ ایک صحیح امر واقعہ کا اظہار ہے کہ جناب امیر علیہ السلام کا کلام جو نہج البلاغہ کے نام سے جمع کیا گیا ہے وہ ’’دُوْنَ کَلَامِ الْخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِ‘‘ ہے۔ اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جس نے “نہج البلاغہ” کو شروع سے آخر تک غور سے نہیں پڑھا۔۔۔۔اُس کو جناب امیر علیہ السلام کی عظمت، اعلمیت، افضلیت و رفعتِ شان کا صحیح اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ وہ ایک معجزۂ امامت ہے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اصلی و حقیقی امام کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے۔ جس شخص نے نہج البلاغہ کے مضامین پر غور نہیں کیا وہ جناب رسول خدا ﷺکے اس ارشاد کو کہ “اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا” سمجھ ہی نہیں سکتا۔
لیکن جس شخص نے نہج البلاغہ کو غور سے پڑھا ہے وہ اُس علم کی حقیقت جانتا ہے جس کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے۔ نہج البلاغہ ایک آئینہ ہے کہ جس میں امامت کا عکس نظر آتا ہے۔جس طرح کلام اللہ کی زبان اور اُس کی عربیت اس کی کمترین فضیلت ہے،اسی طرح نہج البلاغہ کی زبان اور عربیت ایک فضیلت تو ضرور ہے، لیکن اس کی دیگر خوبیوں اور فضائل میں سب سے کم فضیلت ہے۔ قرآن شریف کا اصلی معجزہ اس کا مضمون ہے۔اسی طرح نہج البلاغہ کی اصل خوبی اس کا خزانۂ علم ہے۔ زبان کی نسبت تو یہ ہے کہ اگر کوئی زبانداں ویسی عربی نہیں تو اس سے ملتی جلتی یا دسویں درجہ کی تو لکھ لے گا۔خدائی حیثیت سے وہ کیا خدا کا معجزہ ہوا جس کے دسویں حصہ تک انسان کے رسائی ممکن ہے۔ اصلی معجزہ تو یہ ہے کہ اس کی نوعیت ہی انسانی طاقت سے باہر ہو۔ مثلاً یہ معجزہ ہے کہ خدا روزانہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب کی طرف غروب کرتا ہے، یا غیر ذی روح میں روح ڈال کر جاندار بنا دیتا ہے۔ انسان اور اس کا سائینٹس کتنا ہی زور لگا ئے روح کا ہزارواں حصہ بھی بے جان میں نہ ڈال سکے گا۔ سورج کو ایک جَو کے برابر بھی اِدھر سے اُدھر نہ کر سکے گا۔جو حقائق الٰہیّت قرآن شریف نے واضح کئے ہیں اور جن اسرارورموز کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے، وہاں تک دماغِ انسانی نہ ابھی تک پہنچا ہے نہ آیندہ پہنچ سکے گا۔ یہ ہے اصلی معجزہ۔ اسی طرح جو علوم نہج البلاغہ میں تفصیلاً یا کنایۃً بیان کیے گئے ہیں وہ اِس مجموعہ علم کا انتہائی درجہ ہیں جو مشیّت ایزدی نے انسان کو عطا کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ علمِ خداوندی کے مقابلہ میں تو وہ کچھ بھی نہیں “وَمَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا” لیکن اُن تمام علوم سے بالاتر ہیں جو انسان اپنی کوشش سے حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ہے اس فقرہ کا مطلب کہ “دُوْنَ کَلَامِ الْخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِ”۔
نہج البلاغہ کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں۔ اور ان میں بہترین علامہ ابن ابی الحدید کی ہے۔لیکن ہماری رائے میں نہج البلاغہ کی اصلی اور حقیقی شرح ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ وجہ ظاہر ہے، جب تک مصنف کے علم و تخیل تک شارح کا علم و تخیل نہیں پہنچے گا وہ اس کی شرح ہی نہیں کر سکتا۔ کلام اللہ کی بہت سی تفسیر لکھی گئی ہیں، لیکن آخر کار سمجھنے والوں نے کہہ دیا کہ ان میں سب کچھ ہے سوائے تفسیر کے۔ آئمہ علیہم السلام بہترشرح لکھ سکتے تھے اور انہوں نے لکھی،لیکن اتنی ہی جتنی کہ انسان سمجھ سکے، اور اگر اور مفصل کرتے توانسان سمجھ نہ سکتا۔ اور جب سمجھ نہ سکتا تو اور زیادہ گمراہ ہو جاتا۔
یہی حالت نہج البلاغہ کی ہے۔ اب بیسویں صدی میں سائِنس اِس قابل ہوا ہے کہ وہ جناب امیر ؑ کے اس کلام کو سمجھ سکے جس میں آپ دنیا و افلاک کی تخلیق کا ذکر فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابتدائی حالت میں صرف گہرے بخارات اور پھر پانی تھے۔ اب آلات کے ذریعے سے معائنہ کرکے سائنس بتا سکتا ہے کہ کہکشاں ایسے ہی بخارات کے مجموعات کا سلسلہ ہے جس میں سے ہزارہا قرنوں کے بعد سیارے اور ستارے بنتے رہتے ہیں۔ اور یہ کہ زمین کی حالت بھی پہلے ایسی ہی تھی۔ یہ امامت کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ علامہ ابن ابی الحدید تیرہویں صدی عیسوی میں اس کے متعلق کیا لکھتے؟
توحید کے وہ حقائق آپ نے بتائے ہیں جہاں تک عقلِ انسانی کا جانا محال تھا۔ ان کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی توحید کیا ہے۔ اتنے فرقے جو اسلام کے ہوئے ہیں اُنہوں نے کہاں کہاں توحید کے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ تقدیر وتقسیم ازلی کے نکات، انسان کی سعی اور اس کے امکانات، تسلیم و رضا ، صبر و شکر ، سزا و جزا ، خیر و شر ،شیطانی وسوسات، رحمانی خیالات، مناظر قدرت پر غور و فکر کی ضرورت، جہالت کے مضر اثرات، ان تمام امور کو نہایت واضح کرکے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ پڑھنے کے بعد تعجب ہوتا ہے کہ باوجود اس ذخیرہ علم کے ہوتے ہوئے پھر اتنے گمراہ فرقے اسلام میں کیوں ہوئے۔ وجہ وہ ہی ہے کہ لوگوں نے دامن اہلبیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا، ان کی تعلیم سے اعراض کیا،گمراہ ہوگئے۔
اخلاقیات، فلسفہ،صحیح اصولِ معیشت، قواعد معاشرت، امورِ تمدّن و ریاسست ، رموز مملکت و سیاست ،یہ علوم اگر کہیں آپ کو اپنے انتہائی درجۂ کمال میں ملیں گے تو “نہج البلاغہ” میں ملیں گے۔ حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں نے اکثر کہا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام امور سیاست سے ناواقف تھے، اُن کا یہ کہنا باعث تعجب نہیں، کیونکہ عداوت کا پہلا کام خوبیوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ہم البلاغ المبین میں اچھی طرح ثابت کرچکے ہیں کہ جو حضرت کی غلطیاں بیان کی جاتی ہیں وہ دراصل کمال تدبیر و سیاست پر مبنی افعال تھے۔
نہج البلاغہ کے مطالعہ کرنے والے کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت علی علیہ السلام نے حکومت الہیّہ کے خدّوخال نہایت واضح و نمایاں کر کے اِس میں دکھائے ہیں اور لوگوں کو بتایا ہے کہ اصول اسلامی کے مطابق کس طرح حکومت کرنی چاہیئے۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی حکومت میں وہ تین نہایت اہم امور مناسب و متوازن تناسب کے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی جن کا یہ امتزاج حکومت الہیہ کو سلطنت فرعونیہ سے ممیز کرتا ہے۔ وہ یہ ہیں: حُسن انتظام، انصاف، رحم۔ باوجود اس ترقی و عروج کے جو انسانی دماغ نے حاصل کر لیا ہے اور جس پر فخر کیا جاتا ہے ابھی تک تخئیل انسانی ایسی حکومت کی تشکیل کر کے اُسے زیر عمل تو کیا لا سکتی تھی وہ تو ابھی یہی نہیں سمجھ سکی ہے کہ ان تینوں چیزوں کا ایک جا ہونا ممکن بھی ہے۔ یہ امامت کا معجزہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں بیسویں صدی عیسوی کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ تمہارے سامنے حکومتِ حقیقی کا نمونہ رکھ دیا۔ ایسی حکومت کہ جس میں رعایا امن و امان وراحت کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ اب اس تک پہنچنے کی کوشش کرنا یا نہ کرنا تمہارا کام ہے۔ آپ ؑنے جو فرامین و ہدایات اپنےعُمال، حکام ِلشکر ،عا ملانِ صدقات و زکوۃ کے پاس بھیجے ہیں، اُن پر غور تو کرو کس طرح ان تینوں امور کو ملایا ہے۔ پہلے عدل و رحم کو ملایا، حسنِ انتظام اس کا خود بخود نتیجہ نکل آیا۔
عثمان ابن حنیف عامل بصرہ کو اہل بصرہ کی ایک جماعت نے دعوتِ طعام پر مدعو کیا، اور اس نے قبول کرلیا، اُس کو آپ نے ایک طویل مراسلہ اس طرز کی برائی میں لکھا ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں: “اے حنیف! میرا گمان نہ تھا کہ تو اُس جماعت کی دعوت قبول کرے گا جن کے محتاج لوگ دعوت سے محروم ہوں اور جن کے مال دار دعوت میں طلب کیے جائیں”۔
ہر ملک میں، ہر حکومت میں، بادشاہت ہو یا جمہوریت، دولت مند با رسوخ لوگوں کی ایک جماعت بن جاتی ہے۔ غریبوں پر ظلم کرنا، انصاف کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنا اِس جماعت کا شیوا ہوتا ہے ۔یا تو یہ جماعت حکومت پر حاوی ہو جاتی ہے یا حکومت اپنی ساری طاقت اس جماعت کو دبائے رکھنے میں لگا دیتی ہے جس کا نتیجہ ایک دائمی کش مکش ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ایک ایسا قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو رسُوخ و اقتدار کی یہ ٹھیکہ دار جماعت پیدا ہی نہ ہو۔ آپ ؑ نے بتایا کہ رعایا کے کس طبقہ سے دل جوئی کرنی چاہیئے اور کس طبقہ کو دور رکھنا چاہیئے۔ غرباء ہمیشہ تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں ۔دنیا کی نعمتوں سے محروم، اس کی سختیوں سے مانوس،رحم کا تقاضا ہے اور انصاف کا بھی تقاضا ہے کہ ان کی دلجوئی کی جائے۔ اگر بادشاہ اُن کی دلجوئی کرے گا اور ان کو اپنی محبت کا گرویدہ بنا لے گا تو اقتضا ء رحم و انصاف بھی ہوا اور یہی حسن انتظام ہے۔ کیونکہ اگر بادشاہ اپنے تئیں با رسوخ امراء کے حلقہ میں محدود رکھتا ہے تو اس کا اثر براہ راست غربا کے طبقہ تک نہیں پہنچتا۔اور اس کو اکثر وہ لوگ جانتے بھی نہیں۔ امراء کی جماعت اُن پر اپنا اقتدار قائم رکھتی ہے، اپنا دست نگر بنا لیتی ہے۔ اور پھر اُن کی کثرت کی بنا پر ہمیشہ بادشاہ کو دبانے کی کوشش کرتی ہے بر عکس اِس کے اگر بادشاہ براہ راست غربا کی جماعت کو اپنے زیر اثر رکھتے تو پھر یہ امراء کی جماعت سر نہیں اُٹھا سکتی ۔زمانہ وسطے کی یورپ کی بیرن اور بادشاہ کی طاقت آزمائیاں ہمارے اس قول کو اچھی طرح ثابت کرتی ہیں۔
دیکھئے !حضرت علی علیہ السلام نے کیسا عمدہ اصول حکمرانی قائم کر دیا، جس سے اسلام کے احکام عدل ورحم بھی پورے ہوئے اور حسنِ انتظام بھی ہو گیا اور اپنی حکومت بھی نہایت جائز طریقے سے مستحکم ہوگئی۔ اس سے بہتر اصول حکومت کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اس درجہ تک پہنچنے کے لئے تو ابھی بیسویں صدی کو کئی صدیاں چاہئیں۔ ابھی تو مہذب دنیا اس ہی مرحلہ پر ہے جہاں بادشاہ اور اراکین حکومت کو دعوت طعام دینے یا اُن کی طرف سے دعوت طعام کی عزت حاصل کرنے کے لیے رسوخ و دولت کی شرائط ضروری سمجھی جاتی ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس زمانۂ حال میں جس کی ترقی و تہذیب کی تعریف ہو رہی ہے ٹیکس کس طرح وصول کیا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے اس اسلامی حاکم کا طریقہ بھی سنیئے۔
محصل زکوۃ اور عامل صدقات کو لکھتے ہیں:۔
’’اگر تو کسی قبیلہ کے پاس پہنچے تو ان کے گھر میں نہ داخل ہو۔ بلکہ اُن کی آبگاہ پر اتر، پھر نہایت تسکین و وقار کے ساتھ اُن کے پاس جا، انھیں سلام کر، ان کی تعظیم میں ذرّہ برابر کوتاہی نہ کر ۔پھر اُن سے کہہ: اے بندگانِ خدا !مجھے خدا کے ولی اور خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ کیا تمہارے اموال میں خدائے تعالیٰ کا کچھ حق ہے؟ اگر ہے تو اس کو ولی خدا کے پاس پہنچا دو۔اگر کوئی کہے کہ اُس کے پاس نہیں ہے تو پھر اس سے نہ مانگو۔ اگر کوئی اقرار کرے تو اس کے ساتھ روانہ ہو جاؤ۔ اُس کو نہ ڈراؤ۔ نہ خوف دلاؤ۔ نہ ظلم کرو۔ نہ سختی کرو ۔پھر جو کچھ سونا چاندی وہ تم کو دے وہ لے لو۔ اور اگر اس کے پاس گائے بکریاں یا اونٹ ہوں تو بغیر اُن کے مالک کی اجازت کے اس کے گلے میں نہ داخل ہو۔ ان کے مالک کے ساتھ سختی و ظلم سے نہ پیش آؤ۔ ان چوپایوں کو ادھر ادھر نہ دوڑاؤ۔ ان کے مالک کو بدحال اور رنجیدہ نہ کرو ۔اس مال کے دو حصّے کر دو۔ اور مالک کو اختیار دو کہ جس حصّے کو وہ چاہے لے لے۔ جب وہ ایک حصّہ پسند کرلے تو ہر گز اُس پر اعتراض نہ کرو۔پھر جو باقی رہے اس کے دو حصّے کردو۔پھر مالک ہی کو پسند کرنے کا اختیار دو۔اور ہرگز اس کے پسند کرنے پر معترض نہ ہو۔ برابر یہی عمل کرتے رہو۔حتی کہ اس کے مال میں سے وہ شے باقی رہ جائے جس میں خدائے تعالیٰ کا حق پورا ہو سکتا ہے۔اس وقت خدائے تعالیٰ والے حصّہ پر قبضہ کر لو۔ اگر مالک تیری اس تقسیم کو باطل سمجھے تو پھر اِس مال کو مخلوط کر دو اور پھر وہی عمل کرو جو پہلے کر چکے ہو”۔(نہج البلاغہ: وصیت۲۵)
کیا عروج اورترقی کے زمانۂ حال کے انکم ٹیکس افسران اسی طرح رعایا کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہیں؟
حضرت علی علیہ السلام نے عمالِ خراج کو بھی اسی طرح خداوند تعالیٰ سے ڈرا کر صبر و انصاف و رافت کی تلقین فرمائی اور ہدایت کی کہ لوگوں کو طلب خراج کی بابت محبوس نہ کرو، ادائے خراج کے لئے اس قدر مضطر نہ کرو کہ وہ اپنے گرمی جاڑے کی لباسوں اور غلاموں کو بیچ کر خراج ادا کریں۔ اور ادائے خراج کے لیے اپنے چوپائیوں کو بیچ ڈالیں۔ درہم کے ادا کرنے کے لیے کسی کو تازیانہ نہ مارو۔ کسی شخص کے مال کو ہاتھ نہ لگاؤ، خواہ نماز گزارمسلمان کا ہو خواہ ذمّی کافر کا۔(نہج البلاغہ:مکتوب ۵۱)
جب کسی گاؤوں کے لوگوں کی زمینوں پر سے آپ کی فوج کو گزرنا ہوتا تھا تو آپ سرداران فوج کو ہدایت فرماتے تھے اپنی فوج کو قابو میں رکھیں۔ ان کے گزرنے سے گاؤں والوں کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے۔ غرور و تمکنت سے اُن سےگفتگو نہ کریں۔ بغیر پوری قیمت دیے ہوئے کوئی چیز نہ لیں۔ ظلم کا شائبہ تک اُن کےافعال و اقوال میں نہ ہو۔ اور ساتھ ہی ان ہدایات کی اطلاع اہل قریہ کو بھی دے دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر میری فوج ان ہدایات پر عمل نہ کرے تو تم مجھ کو براہ راست مطلع کرنا۔ یہ وہ انصاف عام و اعلانیہ کا طریقہ ہے جو اس بیسویں صدی تک میں زیر عمل نہ آ سکا۔ بلکہ آج کل تو جو ہدایات افواج کو دی جاتی ہیں وہ خفیہ ہی رہتی ہیں۔
غرضکہ ہر ایک شعبۂ زندگی اور ہر ایک عمل انسانی کے متعلق اگر کوئی شخص بہترین کتاب پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہج البلاغہ پڑھے۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔حکماء یونان قدیم اور فلاسفران فرنگستان حال کی کتابیں میری نظر سے گزری ہیں۔ان سب کتابوں کے مطالعہ کے بعد میں کہتا ہوں کہ جو کچھ نہج البلاغہ میں آپ کو ملے گا وہ ان سب سے بہتر ہوگا۔ ان کتابوں کے نام اور ان کی شکل و صُورت اور ان کی بڑی بڑی اصطلاحیں آپ کو مرعوب کر سکتی ہیں۔ جس بات کو وہ کئی صفات سیاہ کرنے کے بعد اور دور از کار بحثیں کرنے کے بعد کہتے ہیں وہ نہج البلاغہ کے مختصر فقروں میں مِل جائے گی۔ امر واقع تو یہ ہے کہ نہج البلاغہ ایک آئینہ ہے جس میں امامت کا عکس آپ کو نہایت نمایاں اور واضح نظر آئے گا۔
جب حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں نے دیکھا کہ نہج البلاغہ کے مطالعہ سے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت بہت واضح اور ارفع نظر آتی ہے تو کہنے لگے کہ یہ حضرت علی کا علیہ السلام کلام ہی نہیں ۔ ہم نے اپنی کتاب “البلاغ المبین” میں اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ یہ سارا جناب امیر علیہ السلام کا کلام ہے۔ یہاں ہم چند امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں ناظرین مندرجہ ذیل امور کی طرف غور کریں۔
(۱):علامہ رضی رحمۃ اللہ علیہ جامع کتاب کو ضرورت نہ تھی کہ وہ جناب امیر ؑ پر یہ بہتان عظیم کہتے۔ جو اُنہوں نے نہیں کیا تھا وہ ان کی طرف منسوب کرتے۔ ان کا علم،زہد، ایمان ، اعتقاد اور مذہب اس کے مانع تھے۔
(۲): اگر وہ یہ دھوکہ کرنا بھی چاہتے تو بے فائدہ ہوتا کیونکہ اُس زمانہ کے لوگ تو فوراً معلوم کر لیتے جناب امیر ؑ کا یہ کلام نہیں ہے۔ اتنا کچھ اس کی تردید میں وہ لکھتے کہ علامہ رضی کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا اور علماء کی محفلوں میں جانے کے قابل نہ رہتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس زمانے کے اور اس کے بعد کے آنے والے زمانوں کے لوگوں نے مطلقاً اس پر شبہ ظاہر نہیں کیا، یہ اعتراض تو زمانۂ حال کی ایجاد ہے۔ لہذا ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ علامہ رضی نے یہ دھوکہ بازی نہیں کی۔اُن کا سن وفات 406ہجری ہے۔
(۳):خود مضمون و زبان وغوامض و نکات و اسرار و رموز جو اس کتاب میں مرکوز ہیں بتا رہے ہیں کہ وہ جناب امیر ؑ کے سوا کسی اور کا کلام نہیں ہو سکتے۔
(۴):جناب امیر ؑ اور علامہ رضی کے کلام میں زمین و آسمان کا فرق ہے، فوراً یہ دھوکہ ظاہر ہو جاتا۔
(۵): ابو السحارات مبارک مجد الدین ابن الجزری متوفی ۶۰۶ ہجری نے اپنی مشہور کتاب نہایہ فی غریب الحدیث میں نہج البلاغہ کے بے شمار الفاظ کو کلام جناب امیر ؑ تسلیم کر کے حل کیا ہے۔
(۶): محمد بن علی بن طباطبا معروف بابن طقطقی اپنی کتاب الفخری فی الادب السّلطانیہ و الدول الاسلامیہ میں نہج البلاغہ کو کلام جناب امیر ؑ تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ کتاب ہے جس سے حکمت و مواعظ ، توحید، شجاعت، زہد و علو ہمت کی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور اس کا ایک ادنیٰ فائدہ فصاحت و بلاغت ہے۔
(۷):ملا علی قوشجی نے اپنی شرح تجرید میں نہج البلاغہ کو جناب امیر ؑ کا کلام تسلیم کیا ہے۔
(۸): علامہ مصلح شیخ محمد عبدہ م توفی ۱۲۳۳ ہجری نے نہج البلاغہ کو مع اپنےتفسیری نوٹ و حواشی کے مصر میں چھپوایا اور اس کو بلا شک و شبہ کلام جناب امیر ؑ تسلیم کیا ۔مقدمۂ کتاب میں نہج البلاغہ کی جو تعریف انہوں نے لکھی ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔
(۹): استاد محمد محی الدین عبد الحمید نے جو جامع ازہر میں کلیۃ اللغۃالعربیہ کے مدرس ہیں، نہج البلاغہ کے اوپر تعلیقی حواشی تحریر کیے ہیں اور نہایت عمدہ دلائل کے ساتھ اس کو کلام جناب امیر ؑ ثابت کیا ہے۔
(۱۰): علامہ احمد بن منصور گازرونی مفتاح الفتوح میں، ملایعقوب لاہوری شرح تہذیب الکلام میں، شیخ احمد بن مصطفےٰ المعروف بہ طاشکیری زادہ کتاب شقائق نعمانیہ فی علاء الدولۃ العثمانیہ میں، علامہ تفتازانی شرح مقاصد میں نہج البلاغہ کو کلام جناب امیرؑ تسلیم کرتے ہیں۔
جو اصحاب اس امر پر مزید تحقیقات کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری کتاب البلاغ المبین مطالعہ کریں جس میں خطبہ شقشقیہ کو علیحدہ بھی کلام جناب امیر ؑ ثابت کیا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت شیعان علی بن ابی طالب میں بھی نہج البلاغہ کی اشاعت ایسی نہیں ہوئی جیسی ہونی چاہیئے تھی اور نہ اُس سے وہ کام لیا گیا جو لیا جا سکتا تھا۔ نہایت سخت ضرورت ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کو مع ترجمہ اردو نہایت خوش خط دیدہ زیب صورت میں شایع کیا جائے۔ اس کے مقالۂ افتتاحیہ میں مجموعی حیثیت سے نہج البلاغہ کے مضامین کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے اور اُس کو مختلف عنوانوں کے نیچے تقسیم کیا جائے اور اُس کے علوم و فنون کو جلی سرخیوں کے ساتھ نمایاں کر کے ہر ایک اصول و تھیوری پر جو کہ نہج البلاغہ کے مطالعہ سے مستنبط ہوتے ہیں مختصر بحث کی جائے ۔اور فلاسفر ان فرنگ قدیم و حال و علمائے مذہب عیسائیت و حکمائے دہریت کے جو خیالات اُن اُصول پر ہوں اُن سے مقابلہ کیا جائے۔ اور جہاں جہاں اُن کے خیالات کا تصادم نہج البلاغہ سے ہوتا ہے وہاں اُس کو خاص طور سے نمایاں کرکے اُن کی غلطی کو واضح کیا جائے۔ جناب مرزا محمد جواد صاحب مالک نظامی پریس لکھنؤ نے جنہوں نے پہلے بھی ایسے دینی کام بہت کیے ہیں، نہج البلاغہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے۔خداوند تعالیٰ اُنہیں کامیابی عطاکرے۔اگر انہوں نے طریقہ متذکر ۂ بالا کے مطابق اشاعت کی تو انشاءاللہ اُن کی یہ کوشش بہت مقبول ہو گی۔
محمد سلطان مرزا
جناب آغا محمد سلطان مرزا صاحب دھلوی ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سشن جج و مصنف البلاغ المبین،سیرت فاطمہ زھراء علیہا السلام وغیرہ، نےیہ مضمون سلسبیل فصاحت ترجمہ و شرح نہج البلاغہ حصہ سوم کے مقدمہ کے طور تحریر فرمایا۔سلسبیل فصاحت نہج البلاغہ کا قدیم ترجمہ ہے۔اس کی پہلی دو جلدوں کا ترجمہ مولانا سید ظفر مہدی نقوی الجائسی نصیر آبادی نے کیا۔اس کی پہلی جلد میں خطبہ ۱ سے ۲۲ تک کا ترجمہ اور حاشیہ ہے اور یہ ترجمہ ۱۹۴۰ میں راجہ محمود باد مرحوم کے ادارے کی طرف سے ۱۹۴۰ میں شایع ہوا۔دوسری جلد میں سو خطبات کا ترجمہ کیا گیا۔آپ اس سلسلہ کو آگے نہ بڑھا سکے اور دنیا سے کوچ فرما گئے۔اس کی تیسری جلد کا ترجمہ سلسبیل فصاحت ہی کے نام سے خطبہ نمبر ۱۲۳ سے ۱۸۹ تک جناب مولانا سید محمد صادق صاحب آل سرکار انجم العلماءؒ نے کیا۔