تحریر: آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ الوارف
ترجمہ: سید حیدر عباس رضوی
عرصۂ دراز سے نہج البلاغہ ہمارے درمیان اپنے تمام تر شکوہ و عظمت، الہام بخش اور جھنجوڑنے والے خطبات، وسیع و عریض فکری اور معاشرتی تعلیمات، خدا شناسی پر مشتمل پُر مغز دروس، جذبات انگیز رزم ناموں نیز ستم دیدہ اور مستضعفین کی بلا تفریق حمایت اور دفاع کے مطالب سے لبریز موجود تھی۔
لیکن! صرف خواص ہی اس سے باخبر تھے اور عوام الناس کے درمیان ایک انقلابی، الہام بخش کتاب کی صورت میں زیادہ مقبول نہ تھی۔ یہ ایک ایسا درد دل ہے جس کے علل و اسباب پر دقیق کام کی ضرورت ہے پھر آخر کار نہج البلاغہ جیسی عظیم کتاب نے عدم اطلاع و عدم توجہی کے پردوں کو چاک کرتے ہوئے فراموشی کے غبار کو اپنے وجود سے دور کیا جس کے نتیجہ میں وہ بھی قرآن کریم کی طرح تمام افراد کی دسترس میں پہنچ گئی اور عوام میں بھی اس نے ایک جوش و جذبہ پیدا کر دیا اور شعلۂ انقلاب کو مشتعل کر دیا۔ محافل ومجالس، رزم ناموں، منظومات، نثریات نیز انقلابی تمدن میں بھی اس نے اپنی ایک عظیم جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دشوار ترین اور بحرانی حالات و لمحات میں کس قدر کارساز اور کامیابی بخش کتاب ہو سکتی ہے۔
نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ (گذشتہ طاغوتی قوتیں) نہج البلاغہ جیسی عظیم کتاب کو ایک ممنوع الانتشار کتاب کاعنوان دے کر اسے انقلابی جوانوں کے گھروں سے ضبط کر لیتے تھے ۔ ان کا وہم و خیال صحیح ہی تھا۔ کیونکہ نہج البلاغہ ان کے لئے کبھی دوست نہ بننے والی دشمن اور مظلومین، محرومین اور ستم رسیدہ مسلماموں کے لئے ایک مہربان و دلسوز دوست کا عنوان لئے ہوئے تھی۔
اس کے بعد تو ہر طرف نہج البلاغہ کی شناخت و معرفت کے سلسلہ میں ایک نیا جوش و خروش نمایاں ہو گیا اور تمام صنف کے افراد بالخصوص معارف و تعلیمات اہلبیت اطہار علیہم السلام سے بے بہرہ و دن بہ دن بڑھنے والی تشنگی سے متأثرجوانوں کی بڑی تعداد خود کو نہج البلاغہ سے مانوس کرنے میں لگ گئی تا کہ اپنے وجود کو اس کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب کر سکیں۔ آج شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں نہج البلاغہ موجود نہ ہو اور ہمارے معاشرے میں شاید ہی کوئی ایسا شخص موجود ہو جو اس کی غیر معمولی کشش اور قوت جاذبہ سے متأثر نہ ہوا ہو۔
ہمارا ماننا ہے کہ پوری انسانیت کے امام و پیشوا کا کلام ہونے کے علاوہ جس چیز نے نہج البلاغہ کو ایک خاص آفاقی حیثیت سے ہمکنار کیا وہ اس عظیم کتاب میں پائی جانے والی مندرجہ ذیل خوبیاں ہیں:
زندگی کے روز مرہ اور محسوس مسائل کو بیان کرنے والی کتاب:
اس عظیم کتاب کے تینوں حصوں (خطبات۔ مکتوبات۔ کلمات قصار) میں جگہ جگہ انسانوں سے مربوط ان کی مادی اور معنوی زندگی کے مختلف زندہ اور محسوس مسائل بیان ہوئے ہیں۔ مختلف مقامات پر انسانوں کے درد و غم، رنج و مصیبت اور آلام و مشکلات کا ذکر ہوا ہے اور اس کا علاج بھی بیان کیا گیا ہے۔ نہج البلاغہ قانون کلّی، فلسفیات اور مسائل پردازی سے دور نظر آتی ہے ۔حضرت علی علیہ السلام ایک مرد مجاہد، با عمل انسان، مرد زندگی اور مقاصد کے تحت زندگی بسر کرنے والے کامیاب و کامران انسان تھے۔ آپ کی گفتگو ہر جگہ اسی انداز میں قابل دید و مشاہدہ ہے۔
ہم اگر دیکھتے ہیں کہ افلاطون و ارسطو کے فلسفے عوام الناس کو متحرک اور یونان میں رائج فاسد نظام (دنیا کے دیگر علاقے تو دور کی بات ہے) کو تبدیل کرنے میں ناکام رہے لیکن حضرت علی علیہ السلام کی نہج البلاغہ قرآن کریم اور سنت نبوی کی راہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک مکمل دنیا کو متحرک کر نے میں کامیاب ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی صرف بڑی بڑی باتیں کرتا ہے جس کے نتیجہ میں انسانی زندگی سے دور ہو جاتا ہے تو دوسرا ایک ایک مسئلہ میں اور زندگی کے ہر ایک شعبہ میں نظر آتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرہ اور سماج کے قلب میں وارد ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلا انسانی خیالات کا نتیجہ ہے جو کہ اپنے گرد و پیش کے حالات اور موجودہ نظام کی حاکمیت سے معرض وجود میں آتا ہے اور دوسرا آسمانی تعلیمات کا ماحصل ہے جو کہ فظرت انسانی اور خلقت کے قوانین سے ہم اہنگ، وحی کے سرچشمہ سے جنم لیتا ہے۔
نہج البلاغہ، کاروان بشریت کے جان لیوا دردوں کا مرہم:
دنیا میں کون سی کتاب ایسی ہے کہ جو محرومین و مستضعفین کی اس طرح فریاد رسی کرتی ہو؟ ایسی فریاد جو عوام الناس کی دانش و بینش کے ساتھ ساتھ انہیں ہدف و مقصد کی جانب آگے بڑھانے والی بھی ہو۔ بطور مثال: جب مالک اشتر کو دئیے جانے والے دستور العمل میں سماج و معاشرہ کے لوگوں کی گفتگو فرماتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی ذمہ داریوں کی جانب نہایت ہی باریک بینی، ظرافت اور عمیق و دقیق اشارہ کرتے ہوئے آپ کا لحن اور طرز گفتگو حد درجہ اطمینان اور آرام بخش ہوتا ہے لیکن جب معاشرہ کے محرومین و مستضعفین کی بات کرتے ہیں تو امام کا طرز گفتگو اور انداز تکلم اس قدر تبدیل ہوتا ہے کہ گویا دل کی گہرائیوں سے آواز دے رہے ہوں: ‘‘اللہ اللہ فی الطبقة السفلیٰ من الذین لا حیلہ لھم من المساکین والمحتاجین واھل البئوس والزمنی۔ ”(نہج البلاغہ،مکتوب٥٣)” پھر خصوصیت کے ساتھ اللہ کا خوف کرنا پسماندہ وافتادہ طبقہ کے بارے میں ،جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ۔وہ مسکینوں ،محتاجوں ،فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے ،ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کی صورت سوالی ہوتی ہے”۔
حضرت علی علیہ السلام اپنی اس گفتگو کو اُن کے سلسلہ میں ایک خاص حکم دے کر اس انداز میں مکمل فرماتے ہیں: ”اللہ کی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کا اس نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے… تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو لہٰذا تمہیں دولت کی سرمستی ان سے غافل نہ کر دے … اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا اور نہ تکبر کے ساتھ ان کی طرف سے اپنا رخ پھیرنا… ان کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا جس سے کہ قیامت کے روز اللہ کے سامنے حجت پیش کر سکو کیونکہ رعیت میں دوسروں سے زیادہ یہ انصاف کے محتاج ہیں”۔
اس کے علاوہ حکمرانوں کے اطرافیوں، منشیوں اور دربانوں کی دخالت کے پیش نظر پسماندہ و افتادہ طبقہ سے تعلق رکھنے والو ںیز محرومین ومستضعفین پر عدم توجہی اور اس لئے کہ ان کی آوازیں براہ راست حکمرانوں تک پہنچ سکیں، آپ جناب مالک کو کچھ اس طرح حکم فرماتے ہیں:
”واجعل لذوی الحاجات منک قسماً تفرغ لھم فیہ شخصک و تجلس لھم مجلساً عاماً فتتواضع فیہ للہ الذی خلقک و تعقد عنھم جندک واعوانک من احراسک و شرطک حتی یکلمک متکلمھم غیر متتعتع، فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول فی غیر موطن لن تقدس امہ لا یؤخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیر متتعتع۔”۔
”اور تم اپنے اوقات کا ایک حصہ حاجتمندوں کے لئے معین کر دینا جس میں سب کام چھوڑ کر انہی کے لئے مخصوص ہو جانا اور ان کے لئے ایک عام دربار برپا کرنا اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اللہ کے لئے تواضع و انکساری سے کام لینا اور فوجیوں، نگہبانوں اور پولیس والوں کو ہٹا دینا تا کہ کہنے والے بے دھڑک کہہ سکیں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کئی موقعوں پر فرماتے سنا ہے کہ اس قوم میں پاکیزگی نہیں آ سکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جاتا۔ ”
امام علی علیہ السلا م نے فقط اس عہد نامہ میں ہی نہیں بلکہ بستر شہادت سے اپنی اولاد اور اپنے تمام چاہنے والوں کو یہی پیغام دیا ہے۔ تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملے گا کہ کسی ایک رہبر نے اپنے چیف کمشنر کو صرف ایک پُر تکلف اور شاندار دعوت میں شرکت کے سبب ملامت کی ہو۔ حضرت علی علیہ السلام نے جناب عثمان بن حنیف کو اس مضمون کا خط تحریر فرمایا۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ ثروت مند اور اغنیاء اس دسترخوان پر موجود تھے اور بھوکے اس سے محروم نیز انہیں وہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔ آپ نے شاید ہی سنا ہو کہ ایک رہبر، اپنے چیف کمشنر کا بد ترین درد یہ سمجھے کہ وہ خود رات کھانا کھائے اور پیٹ بھر سوئے لیکن اس کے اطراف و اکناف میں لوگ بھوکے پیٹ ہوں اور وہ اپنے چیف کمشنر سے کہہ رہا ہو: ’’و حسبک داء ان تبیت ببطنة وحولک اکباد تحن الی القدر”
”تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر رات بسر کرو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں”۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں موجود خطوط کے ذریعہ ان لشکروں سے اپنی ناراضگی کا اظہار فرماتے ہیں جو آبادی سے عبور کرتے وقت لوگوں میں مزاحمت ایجاد کرتے ہیں اور دنیا میں رائج سیاست کے برخلاف کہ جو فوج کی ضرورت پڑنے پر فوج کی تمام تر انتہا پسندیوں سے چشم پوشی کرتی ہے، نہج البلاغہ میں موجود مکتوب نمبر ٦٠ میں حکم فرماتے ہیں کہ ہر ایک سپاہی شہروں اور دیہاتوں سے گزرتے وقت ہر قسم کی مزاحمت اور لوگوں کے حقوق اور ان کے اموال کے غصب کرنے سے اجتناب کرے۔ مگر یہ کہ اپنی پریشانی کے اختتام اور بھوک کے خاتمہ کی خاطر صرف ضرورت بھر، جان کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں جان بچانے کے لئے استعمال کریں۔
اس خط میں آپ بالخصوص اس بات پر تاکید فرماتے ہیں کہ میں حرکت کرنے والے لشکر کا خبرگیر ہوں، ان سے مربوط ہر طرح کی شکایت میرے پاس پہنچانا تا کہ میں مسئلہ حل کر سکوں۔
امیر المؤمنین علیہ السلام کی نِجی زندگی جو نہج البلاغہ میں بطور واضح متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے، مستضعفین، محرومین اور پسماندہ و دور افتادہ افراد سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کے لئے خود ایک نمونۂ عمل ہے، جو ہر جگہ ان کے ساتھ اور ان کے پاس موجود ہیں۔
خلاصہ یہ کہ نہج البلاغہ رنجیدہ لوگوں کی حامی،مستضعفین کی پشت پناہی کرنے والی،محرومین کی یار وغم خوار اور ظالموں، ستمگروں نیز مستکبرین کی سرسخت دشمن کتاب کا نام ہے۔ اسی وجہ سے جب امیر المومنین علیہ السلام لشکر کے کمانڈرز کے لئے اہم شرط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طاقت کے نشہ میں چور لوگوں کے سامنے طاقتور، محکم و مستحکم اور مستضعفین و کمزور افراد کے سامنے مہربان اور نرم دل رہو۔ ”ویرأف بالضعفاء وینبو علیٰ الاقویاء۔” (نہج البلاغہ، مکتوب٥٣)” کمزوروں پر رحم کھاتا ہو اور طاقتوروں کے سامنے اکڑ جاتا ہو”۔
نہج البلاغہ اور آزادی:
ہم جانتے ہیں کہ پیغمبران خدا کے اہم ترین انسانی اہداف میں سے ایک انسانوں کو اسارت کی زنجیروں سے آزاد کرنا تھا جو کہ ”و یضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم۔” (سورۂ اعراف،آیت١٥٧) کے تحت ایک وسیع پیمانہ پر انجام پذیر ہوتا ہے۔نہج البلاغہ میں پیغمبروں کا یہ اساسی ہدف اور پروگرام بنحو احسن بیان کیا گیا ہے اور انسانوں کی قید و بند سے رہائی مختلف زاویوں سے بطور دقیق بیان کی گئی ہے۔ من مانی کرنے والے ستمگروں کی زنجیر ستم سے آزادی، جو کہ محرومین اور زحمت کش افراد کو اذیتیں دیتا رہتا ہے؛ جہل و جہالت اور نادانی و بے خبری سے آزادی، جو کہ من مانی کرنے والوں کی جسارتوں کا اصل منبع و سر چشمہ اور ان کی طاقت میں ظلم وستم کی افزائش کے لئے پیش خیمہ قرار پاتاہے؛ ھویٰ و ھوس، خواہشات نفسانی، حرص، طمع اور لالچ، شہوت، غرور نخوت اور تکبر نیز تمام رذائل اخلاقی سے آزادی، جو کہ تمام اسارتوں سے بدتر ہے اور ان سے مقابلہ اسلام کے نظام میں جہاد اکبر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار میں جگہ جگہ پر جہاد بالنفس کی تاکید پائی جاتی ہے جب کہ اس جیسے موضوعات کافی کم ہیں جن پر اتنی زیادہ تاکید موجود ہو۔ بعض لوگوں کی سوچ کے بر خلاف اس طرح کے خطبات اور کلمات صرف اخلاقیات پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ مسائل سے روبرو ہوتے وقت براہ راست ان سے مقابلہ کی خاطر اجتماعی موقف اختیار کرتے ہیں، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی شکستوں، پیچھے ہٹ جانے کے عوامل، پروپگنڈے، تفریق، معاشرے میں موجود اختلافات کا اصل سبب یہی اخلاقیات کی پستی اور اس کے منفی پہلو جیسے خود پسندی،حسادت، خود خواہی، انانیت، غرور و تکبر اور خود بینی ہیں۔
نہج البلاغہ اور اجتماعی عدالت:
ایک ایسی دنیا میں کہ جہاں ہر طرف ظلم وجور اور تعصب و بے عدالتی کا بازار گرم ہو اور ظالمین ،مظلومین کا خون چوسنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہوں ،عدل وانصاف کا جو بھی نغمہ فضا میں گونج اٹھے، جذاب و دلکش اور امید دلانے والا ہوگا۔ اور اگر کہیں عدل و انصاف ہر اعتبار سے حاکم ہو جائے تو اس کی بات ہی کچھ اور ہو گی۔
نہج البلاغہ کی تابندگی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس نے ہر جگہ مظلومین و مستضعفین اور ستم دیدگان کی حمایت اور ان کے لئے عدالت خواہی کا نعرہ بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ظالمین اور ستمگروں سے دوستی میں نہ بدلنے والی دشمنی کا اعلان کیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کا نام نامی ہر جگہ عدالت و انصاف پسندی کے اصول کا ترجمان ہے اور نہج البلاغہ جیسی با عظمت کتاب کا نام دل ودماغ میں اس کے خطوط وحدود کی ترسیم کرنے والا ہے۔کیونکہ خطبات،مکتوبات اور کلمات قصار میں مظلوموں کی حمایت اور ستمگروں سے عداوت کی گفتگو آئی ہے۔ لہٰذا تعجب کی کوئی گنجائش نہیں کہ نہج البلاغہ آج کی دنیا میں پائے جانے والے ظلم و فساد سے مقابلہ کرنے کے لئے مستضعفین کے لئے قواعد و ضوابط بیان کرے اور پاک و پاکیزہ چشمہ کے اطراف میں جمع ہونے والے پیاسوں کی طرح عدالت پسند اور عدالت پرور افراد اکٹھا ہوتے رہیں۔
نہج البلاغہ کی جامعیت:
نہج البلاغہ کی جذابیت کا ایک اور اہم سبب یہ ہے کہ جس میدان میں بھی نظر آتی ہے، حق مطلب اس طرح ادا کرتی ہے اور مسائل کی نہایت باریک بینی سے ایسی تشریح کرتی ہے کہ لگتا ہے جیسے اس کے بیان کرنے والے نے اپنی تمام عمر اسی موضوع پر صرف کی ہے اور وہ اسی میں ماہر و حاذق ہے۔
جب امام عالی مقام توحید پروردگار کے بارے میں ایک خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور خدا وند عالم کے اسما وصفات جمال و جلال کا تذکرہ فرماتے ہیں تو انسانی شکل میں ایک عظیم الٰہی فلسفی کا چہرہ مجسم ہو جاتا ہے کہ جس نے سالہا سال توحید کے سلسلہ میں گفتگو کی ہو اور بیش قیمت موتیوں کو اس میں پرویا ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور بات نہ کی ہو۔
نہ تو ”تجسم” کی طرف قدم آگے بڑھاتا ہے اور نہ ہی ”صفات سے انکار”۔ اور اس طرح خدا وند عالم کی تعریف بیان فرماتا ہے کہ انسان دل کی بینائی سے اسے ہر جگہ، آسمانوں میں، زمین میں اور اپنے وجود میں حاضر و ناظر پاتا ہے۔ کچھ اس طرح کہ اس کی روح معرفت پروردگار کے نور سے سرشار و منور نظر آنے لگتی ہے۔
نہج البلاغہ کی ورق گردانی کرتے وقت اچانک ہماری نگاہ خطبۂ جہاد پر ٹِک جاتی ہے،ہ م ایک ایسے بہادر اور دلیر سپہ سالار کو دیکھتے ہیں جس نے رزمیہ لباس زیب تن کر رکھا ہے اور دقیق ترین احکام نیز جنگی ٹکنیک سے اپنے لشکر والوں اور افسروں کو باخبر کرتا ہے؛ اس طرح کہ جیسے اس کا پوری زندگی میدان جنگ اور فنون جنگ کے علاوہ کسی اور چیز سے سروکار ہی نہ رہا ہو۔
نہج البلاغہ کی ورق گردانی کریں تو امام عالی مقام کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالے اور امت کی رہبری کا فریضہ انجام دیتے ہوئے پاتے ہیں کہ جو ملک چلانے کے اصول و ضوابط کی گورنروں اور کمشنروں کے سامنے تشریح فرماتے ہیں۔ تمدن کے زوال اور عروج پانے کے اسباب، ظالم و ستمگر قوموں کا انجام اور معاشرتی، سیاسی اور فوجی آرام وسکون کی وصولیابی کا راستہ محکم تعبیرات میں بیان فرماتے ہیں کچھ اس انداز میں گویا پوری زندگی حکومت کے سوا کوئی اور کام انجام ہی نہ دیا ہو۔
ایک بار اور اس کی ورق گردانی کرتے ہیں، امام عالی مقام کو اخلاق،تہذیب نفس اور تربیت ارواح و افکار کا درس دیتے ہوئے پاتے ہیں، ھمام نامی ایک پرہیزگار شخص نے آپ سے متقین کی صفات پر مشتمل ایک نئے درس کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی تشنگی کچھ اس قدر ہے کہ ایک یا دو پیمانوں سے اس کی تشنگی دور ہوتی نہیں دکھتی۔ امام علیہ السلام اس کے سامنے اپنے علم کا دریا بہا دیتے ہیں، تقویٰ ،پرہیزگاری اور تہذیب نفس کا درس دیتے ہیں اور متقین کی تقریباً ایک سو صفات کا عمیق مطالب کے ساتھ سالکان راہ حق کے لئے بہترین انداز میں تذکرہ فرماتے ہیں، کچھ اس طرح کہ گویا صدیوں سے اسی مسند پر اسی انداز میں مخلوقات کی ہدایت اور تربیت نفوس نیز اخلاقیات کی تدریس میں مشغول رہے ہوں۔ اس انداز میں کہ سوال کرنے والا (ھمام) اس گفتگو کو سننے کے بعد ایک چیخ مارتا ہے اور زمین پر منہ کے بل گر جاتا ہے۔ گفتگو کا یہ اثر تاریخ میں کہیں اور نظر نہیں آتا ہے۔
سچ میں نہج البلاغہ کے یہ مختلف مناظر جن میں سے ہر ایک اپنے آپ میں بے نظیر ہے، نہایت تعجب انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس عظیم کتاب کی خوبیوں میں سے ایک ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ نہج البلاغہ ایک ایسی کتاب ہے جو آج، کل اور آنے والے دنوں میں کام آنے والی ہے۔ جس کا موجودہ اور آئندہ نسل پر اپنا خاص اثر ہے:
سورج کی دمک کے مانند
پھول کی لطافت کی طرح
بجلی کی کڑک جیسا
توفان کی صدا کے مانند
موجوں کی طغیانی کی طرح
اور…آسمانوں میں موجود دسترس سے دور ستاروں جیسا۔