مقالات

اسلامی نظام حیات میں عورت کی حیثیت

خلوت کا گوشۂ تنہائی ہو یا جلوت کا جم غفیر، بزم علم و ادب ہو یا رزم حق وباطل، چار دیواری کا محدود کردار ہو یا میدان عمل کی لا محدود سرگرمیاں، گھریلو مسائل میں شراکت کا معاملہ ہو یا امور سلطنت میں مشاورت کا مسئلہ، بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا دفتری امور کی نگرانی، مریضوں کی تیمارداری ہو یا زخمیوں کی مرہم پٹی، غازیانِ اسلام کی معاونت ہو یا میدانِ جہاد میں عملی مشاورت اسلام ہر شعبہ حیات میں مسلمان خواتین سے ایک ناقابل فراموش کردار کی توقع کرتاہے،ایک ایسا کردار جوا مور زندگی کو جیتی جاگتی تصویر بنا دے۔ایک ایسا طرز زندگی کہ جس میں وہ شرم وحیا ء کے پورے تحفظ کے ساتھ زندگی کی تمام تر سرگرمیوں میں حصہ لے سکے اور عصمت و عفت کی پوری ضمانت کے ساتھ ملکی ترقی کے لیے مردوں کا ہاتھ بٹا سکے۔

اسلام نے عورت کو لا علمی و جہالت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال علم و عمل کی لازوال روشنی سے بہرہ ور کیا۔ اسے ذلت و پستی سے نکال شرافت و عظمت کی معراج تک پہنچایا، غلامی اور محکومی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی سے روشناس کرایا اور صدیوں سے دکھ درد سہنے والی اس مخلوق کورشک مہ وپروینبنا دیا۔ غرض عورت کی اس نئی زندگی کا آغاز اور عظمت و بلندی کی طرف نیا سفر اسلام ہی کا مرہون منت ہے۔

واتین کے حقوق کو سمجھنے کے لئے اس کے بارے میں فلاسفہء یونان سے لے کر دور جدید کے دانشوروں تک کے خیالات کو سمجھنا ضروری ہے:

یونانی فلاسفہ:

افلاطون 347 ق م:
شہری حقوق کے اولین داعی افلاطون کے مطابق مر دو عورت دونوں مشابہہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، عورتوں کو بھی وہی حقوق ملنا چاہیں جن سے مرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مردوں کی جنگی تعلیم وتربیت کی طرح خواتین کو بھی تربیت دی جائے اور وہ کھیلوں کے مقابلے میں بھی شرکت کرے۔

ارسطو 322 ق م:
اخلاقی و مشائی فلسفہ کے بانی ارسطو کے مطابق مرد و عورت تخلیقی کمیت و صلاحیت دونوں لحاظ سے مختلف ہیں، جہاں ان کے اخلاق و عادات مختلف اور عقل و احساسات میں فرق ہے وہاں دونوں کے حقوق وفرائض بھی الگ الگ ہیں۔

جدید دانشور:
مغربی مفکرین:

رولانڈ 1944ء:
فرانسیسی دانشور رومن رولانڈ کے مطابق مرد اور عورت کی جسمانی خصوصیات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ ایک کے ہاں توانائی اور دلیری کا عنصر موجودہوتا ہے جبکہ دوسرے کے ہاں نرمی اور لطافت کا احساس پایا جاتا ہے۔

ڈیورانٹ 1981ء:
امریکی ماہر نفسیات ول ڈیورانٹ کے مطابق مرد عورت کے گھریلو روابط اور باہمی تعلق میں فر ق ہوتا ہے او ران میں باہمی مشابہت نہیں پائی جاتی مردکے احساسات نیاز مندانہ اور طالبانہ جبکہ عورت کے احساسات ناز آفرین اور مطلوبانہ ہوتے ہیں۔

اسلامی مفکرین:

کاشف الغطاء 1954ء:
نابغہ روزگار مفکر علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء نے الدین و الاسلام میں عورت کو بے حد خوش فہم اور سادہ قرار دیتے ہوئے مرد کی جانب سے اس کے ہر قسم کے استحصال کو انتہائی قابل مذمت عمل قرار دیا ہے۔

مرتضیٰ مطہری 1979ء:
دور حاضر کے عظیم فلسفی شہید مرتضیٰ مطہری نے مقام حقوق زن دراسلام میں عورت و مرد دونوں کو مشترک انسانی حیثیت اور اس طرح کی قانونی مساوات کا حامل قرار دیا ہے جس میں کسی طرح کی ترجیح یا امتیاز نہ ہو۔

اسلام میں عورت کو جو حیثیت دی گئی ہے وہ دیگر تمام مذاہب کے ہاں کہیں نظر نہیں آتی۔ الہامی مذاہب میں سے یہودیت میں اسے بصولہ یعنی جائیداد منقولہ قرار دے کر مردوں کا محکوم بنایا گیا اور وراثت کے حق سے محروم کیاگیا ہے جبکہ عیسائیت میں اسے اصل شر کا نام دیاگیا جس کی وجہ سے آدم کو جنت سے نکلنا پڑا۔اسے کم تر درجے کی مخلوق سمجھا گیااور اس کی عصمت دری و آبرو ریزی پر معمولی جرمانہ بطور سزا مقرر کیا گیا ہے۔ قدیم مصر میں اسے مرد کو حق مہر خود ادا کرنا پڑتا اور وہ اس کی ملکیت شمار ہوتی تھی۔ ہندومت میں اسے پاؤں کی جوتی کے برابر قرار دے کر اس کے معاشرتی رویوں کو تریا چرتر جیسے تحقیر آمیز ناموں سے پکارا جاتا نیز شادی کے موقعہ پر سوئمبراور شوہرکے مرنے کے بعد ستی جیسی رسم کا شکار بنا دیا جاتا رہا جبکہ اسلام میں اسے ہرروپ میں معاشرے کا اہم ترین رکن کردانا گیا ہے۔ اسی لیے قرآن میں اس کی دوران حمل اور بعد از زچگی تکلیفات کو حملتہ وھنا علیٰ وھن کے الفاظ میں بیان کرکے تحسین کی گئی ہے اور حدیثِ مبارکہ الجنۃ تحت اقدام الامھات میں جنت کو اس کے قدموں تلے قرار دیا گیا ہے۔

اسلام کی تاریخ اپنے آغاز ہی سے ایسی مقدس خواتین کے ذکر سے معمور ہے جن کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ان میں سے ام المومنین جناب خدیجتہ الکبریٰ اور سیدہ کونین جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاکے بعد جناب زینب سلام اللہ علیھاکی شخصیت کاتذکرہ خصوصی اہمیت کاحامل ہےجو علم و فضل،فہم و دانش،شجاعت و شہامت اور فصاحت و بلاغت میں اپنے والد گرامی قدر کا پر تو تھیں۔ کربلا میں ان کاتاریخی کردار اسلامی خواتین کے لئےمنارہ نور کی حیثیت رکھتاہے جس پر چل کر وہ اپنی زندگیوں کو منور کر سکتی ہیں۔

بعد کے دور میں ہمیں سینکڑوں ایسی خواتین کے نام بھی ملتے ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔اگر مغرب کو ھیلینا، قلوپطرہ، وکٹوریہ اور نائٹٹنگیل پرناز ہے تو ہمیں بھی بجا طور پر زبیدہ، نور جہان، چاند بی بی اور حضرت محل جیسی غیر معمولی شخصیت کی حامل عورتوں پرفخر ہے۔ ایسی ہی ایک لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ کے بارے میں جو جنگ طرابلس میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور انہیں پانی پلاتے ہوئے شہید ہو گئی، علامہ اقبال فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

فاطمہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

قرآن مجید میں عورت کے بارے میں دو طرح کی آیات موجود ہیں۔ جہاں پہلی طرح کی آیات میں اس کے جسمانی و نفسیاتی خصائص کا تذکرہ کیا گیا ہے وہاں دوسری قسم کی آیات میں اس کے حقوق و فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ آج کل کا مغرب زدہ طبقہ پہلی آیات کے حوالے سے اسلامی نظام حیات پر زبان طعن دراز کرتا اور کہتا ہے کہ ان میں عورت کو مرد سے کمتر ظاہر کیا گیا ہے جبکہ یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ یہ تو اس کی شخصیت کا Physio Psycho analysis ہے جس سے معاشرے میں اس کے مقام و مرتبے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا جبکہ دوسری متعدد آیات اسے مرد کے برابر بلکہ بہتر سلوک کا مستحق قرار دیتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک آیات درج ذیل ہیں:

ھن لباس لکم وانتم لباس لھن
وہ تمہارا پہناوا اور تم ان کا پہناوا ہو البقرہ۔۱۸۷

فآ توھن اجورھن فریضۃ
اور ان کے مہر انہیں بطور فریضۃ ادا کرو النساء۔ ۲۳

وآتواالنساء صدقٰتھن نحلۃ
اور عورتوں کے مہرخوشدلی سے ادا کرو النساء۔ ۴

ولاتضاروھن لتضیقو اعلیھن
اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ الطلاق۔ ۶

و عاشروھن بالمعروف
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو النساء۔ ۹۱

ولاتمسکوھن ضراراً لتعتد وا
اور مختص ستانے کی خاطر نہ روکے رکھنا کہ یہ زیاتی ہوگی البقرہ۔۱۳۲

وللنساء نصیب ممااکتسبن
اورجو کچھ عورتوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ ہے النساء۔ ۳۲

ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف
عورتوں کے لیے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں البقرہ۔۰۳۲

لایحل لکم ان تاخذوا مما آتیتموھن شیئا
تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ انہیں دے چکے ہو اس سے کچھ واپس لو البقرہ۔ ۲۲۹

فلاجناح علیکم فیمافعلن فی انفسھن بالمعروف
اپنے بارے میں معروف طریقہ سے جو بھی کریں اس کی ذمہ داری تم پر نہیں البقرہ۔۲۳۴

اسلامی ذخیرہ احادیث میں سینکڑوں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں خواتین کے ساتھ نیک سلوک کی نصیحت کی گئی ہے۔ان میں سے حجتہ الوداع کے موقعہ پر فرمائے گئے اس ارشاد مبارک کو خصوصی اہمیت حیثیت حاصل ہے:

‘عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے’

اقبال اور خواتین کے حقوق:

حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ اقبال کا نام دور جدید کے حقوق نسواں کے مفکرین میں سرفہرست ہے۔ذیل میں ان کے کلام میں سے چند اقتباسات د ئیے جارہے ہیں جن میں اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کی عظمت کو اجاگر کیاگیا ہے:

پردہ:
اقبال عورت کے لئے پردے کے زبردست حامی ہیں۔بے پردگی بے حیائی، بے باکی اور ذہنی پراگندگی کو جنم دیتی ہے جو کہ مسلمان عورت کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن پردے سے ان کی مراد مروجہ برقعہ ہرگز نہیں بلکہ ایسا باوقار لباس ہے جو عورت کی زینت کو ڈھانپے،اس کی عصمت کو حریص نظروں سے بچانے میں مددگار ثابت ہو اور زندگی کی سرگرمیوں میں رکاوٹ بھی نہ بنے۔بالفاظ دیگر اسے جلوت میں بھی خلوت مہیا کرے۔

اقبال کے نزدیک عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں اس لئے وہ کہتے ہیں:

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ، آئینہ دل ہے مکدر

بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

اقبال مسلمان عورت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پردے میں رہ کر وہ زندگی کو اس طرح روشن کر سکتی ہے جس طر ح نظروں سے پوشیدہ ہونے کے باوجود ذات باری کی تجلی سے یہ کائنات روشن ہے و منورہے:

جہاں تابی زنور حق بیاموز

کہ او باصد تجلی در حجاب است

امومت:

اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومت میں پوشیدہ ہے۔ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو نیکی اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال، عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہوں گی اس کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کر سکیں گے اور جس قوم کی عورتیں فرائض امومت ادا کرنے سے کتراتی ہوں اس کے عائلی نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں۔ مغربی تمدن اسی لئے زوال پذیر ہے کہ وہاں عورت جذبہ امومت سے محروم ہوتی ہے:

کوئی پوچھے حکیم یوروپ سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بیکار و زن تہی آغوش

اقبال کی نظر میں ماں کی ذات دنیا کی تمام سرگرمیوں کا سرچشمہ ہے۔ بڑے بڑے انقلابات ماؤں کی گود میں پروش پاتے ہیں اس لئے ماں کی ہستی کسی بھی قوم کے لئے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی ماؤں کی قدر نہیں کرتی اس کا نظام ہستی بہت جلد بکھر جاتاہے:

جہاں را محکمی از امہات است

نہاد شاں امین ممکنات است

اگر ایں نکتہ را قومی نداند

نظام کاروبارش بے ثبات است

عورتوں کے لئے مغربی تعلیم کی مخالفت بھی اقبال اس لئے کرتے ہیں کہ اس سے ماں کی مامتا کا جذبہ کمزور ہوتا ہے اور عورت اپنی فطری خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے:

علم او بار امومت برنیافت

برسر شاخش یکے اختر نتافت

ایں گل ازبستان ما نارستہ بہ

داغش از دامانِ ملت شستہ بہ

عورت کے مقام پر اقبال کے نظریات پر تنقید کرنے والے ان کے پیش کردہ نظریہ امومت کوجرمن مفکر شوپنہارShopenhauer-1860 کے نظریہ مادریت سے اخذ کردہ قرار دیتے ہیں۔ وہ ایسا کرتے وقت یہ حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہ تو عورت کو صرف بچے پیدا کرنے والی مشین قرار دیتا ہے اور اسے کوئی اعلیٰ منصب و دیعت نہیں کرتا جبکہ اقبال عورت کی آغٖوش کو قوم کی تربیت گاہ قرار دے کر اس کا منصب اوج ثریا سے بلند کردیتے ہیں:

تعلیم نسواں:

اقبال عورت کے لئے تعلیم کو انتہائی ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ فرزندان قوم کی مثالی تربیت سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتی۔ لیکن وہ عورت کے لئے ایسی تعلیم تجویز کرتے ہیں جو مذہب سے وابستگی پیدا کر کے فرائض کی بجا آوری میں مددگار ثابت ہو۔ وہ ضروری دنیوی تعلیم کے بھی حق میں ہیں مگر اس تعلیم کے سخت خلاف ہیں جو اسے دین و دنیا سے بے بہرہ کر دے اورنام نہاد آزادی کا دلدادہ بنادے:

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ ا مومت

ہے حضرت انساں کے لئے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت

اقبال کے خیال میں عورت کا یہ شرف ہی بہت بڑا ہے کہ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جو اس کا ممنون نہ ہو۔ تمام مشاہیر نے اسی کی گود میں تربیت پائی۔ اگر وہ بذات خودکوئی کارنامہ سر انجام نہ بھی دے تو اس کا مرتبہ کم نہیں ہوگا:

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہرشرف ہے اسی درج کا در مکنوں!

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار ا فلاطوں!

مرد کی برتری:

اقبال عورت پر مرد کی برتری کے قائل ہیں تو اس کی کی وجہ وہی ہے جو قرآن نے بتائی ہے یعنی مرد کا حیاتیاتی اور جسمانی تفوق اور دونوں کے دائرہ کار کا مختلف ہونا۔ وہ مرد اور عورت کی مکمل مساوات کے قائل نہیں ہیں لیکن ان کی رائے میں اس عدم مساوات کا فائدہ بھی عورت ہی کو پہنچتا ہے کیونکہ اس طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد کے کندھوں پر آجاتی ہے۔ ا س سلسلے میں وہ کہتے ہیں:

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نہ پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

مرد کی برتری کی ایک وجہ جو علامہ اقبال نے بیان کی ہے اس اتنا وزن ہے کہ کسی طور پر اس سے انکار ممکن نہیں۔ وہ یہ ہے کہ مرد اپنی خوبیوں کے اظہار پر پوری طرح قدرت رکھتاہے مگر اس کے برعکس عورت کے جوہر مرد کے بغیر کھل ہی نہیں سکتے۔ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں:

جو ہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھوں میں ہے جو ہرعورت کی نمود

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتہ شوق

آتش لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

اپنے ایک لیکچر ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر میں اقبال نے اس مسئلے پر دوٹوک الفاظ میں اپنی رائے دی ہے:
میں مرد اور عورت کی مکمل مساوات کا حامی نہیں کیونکہ قدرت نے ان دونوں کو جدا جدا خدمتیں دی ہیں اور ان فرائض جداگانہ کی صحیح اور باقاعدہ انجام دہی خانوادہ انسانی کی فلاح کے لیے نہایت ضروری ہے۔

مرد کی برتری کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کو مشہور ماہر مدنیات Henrech Mann کے ریاست کے ارتقاء کے بارے میں پدرسری نظریہ سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں پدری کنبہ کو بنیادی اکائی قرار دیا گیا ہے جس کی سربراہی مرد کو حاصل تھی اور جو وسعت اختیار کرکے ریاست کی شکل اختیار کر گیا۔ دوسری طرف مادرسری نظریہ کے حامیوں نے آسٹریلیا،، انڈونیشیا،ملائیشیا، مڈغاسکر میں اور خاص کر ریڈانڈینزکے ہاں مادرسری کنبوں کی موجودگی کو تو ثابت کر دیا مگر وہ عورت کو مرد سے بہترسربراہ کے طور پر تسلیم کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

آزادی نسواں:

اسلام اگرچہ عورتوں کی صیحح تعلیم، حقیقی آزادی اورترقی کا خواہاں ہے مگر اس کے لئے حدود و قیود وضع کی گئی ہیں جن پر عمل ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے ضروری ہے۔اقبال بھی اسلامی نقطہ نظر کے حامی ہیں مگر وہ آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ ان کی رائے میں یہ تحریک عورت کو بے شمار مسائل کا شکار بنادے گی۔ اس کے لیے وہ مغربی معاشرے کی مثال پیش کرتے ہیں کہ جس کی دی ہوئی غیر محدود آزادی اس کے اخلاقی زوال کا باعث بن رہی ہے اور اس نے اس کے معاشرتی تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیا ہے:

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں

گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور

کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

اس بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا بغور جائزہ لے کر فیصلہ کرے کہ اس کے لئے کون سی چیز بہتر ہے۔آزادی نسواں کے گمراہ کن نعرے میں لپٹی ہوئی مادر پدرآزادی یاقدرت کی جانب سے تفویض کردہ فرائض کا احساس جو اس کی عظمت کا ضامن ہے:

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں معذور ہیں، مردان خرد مند

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادی نسواں کہ ز مرد کا گلوبند؟

نام نہاد تجدد پسندوں اور آزادی نسواں کے گمراہ کن نسواں کے گمراہ کن نعرے کے حامیوں کی جانب سے علامہ اقبال کے عورت کے بارے میں نظریات کو تیز و تند تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔انہیں قدامت پسند، تنگ نظر، متعصب اور حقوق نسواں کا دشمن قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی درج ذیل رائے کی سطحیت سے ہمیں اسلام کے سچے شیدائی اقبال کی عظمت کا مزید قائل ہونا پڑتا ہے:

یہ زمرد کی گلوبندی، اور مرد کی نگہبانی کے الفاظ ہٹلر کو زیادہ زیب دیتے ہیں۔ اقبال اور ہٹلر کا یہ اتحاد کتنا عجیب ہے۔ ایک طرف اسلام کا پرستار،مساوات کا نام لیوا، آزادی کا علمبردار اقبال!اور دوسری طرف جنگ کا پرستار، بربریت کا شیدا، آزادی کو بے معنی لفظ قرار دینے والاچنگیز؛ ہٹلر!

مثالی شخصیت:

اقبال نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شخصیت اور کردار کو مسلمان خواتین کے لئے ایک ایسا نمونہ قرار دیا ہے جن کے نقش قدم پر چل کر مسلمان عورت نہ صرف اپنی زندگی کو سنوار کر اسے جنت بنا سکتی ہے بلکہ ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کو حقیقت کا روپ دے سکتی ہے:

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادراں را اسوہ کامل بتول

فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند

چشم ہوش از اسوہ زہراء مبند

اقبال کے نزدیک حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی زندگی میں زہد و تقویٰ، فقرو استغناء، ایثار و قربانی اور وقار و سادگی پوری طر ح جمع تھے اور انہی اوصاف نے ان کے اسوہ کو مسلمان خواتین کے لیے رہتی دنیا تک مثالی بنادیا۔ ان کی عظمت کی اس بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اپنی آغوش عاطفت میں حضر ت امام حسین علیہ السلا م جیسی عظیم شخصیت کو پروان چڑھایا۔ اقبال کی نظر میں جو خاتون اپنی گود میں ایک بھی ایسے بچے کی تربیت کرے جو بڑا ہوکر حق پرستی کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو گویا اس خاتون کی زندگی کا مقصد پورا ہوگیا اسی لئے وہ مسلمان عورت سےمخاطب ہو کر کہتے ہیں:

اگر پندے ز در ویشے بگیری

ہزار امت بمیرد تو نہ میری

بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر

کہ در آغوش شبیرے بگیری

حاصل کلام:

عورت کی حیثیت کے بارے میں اس مجموعی جائزے سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اسلام میں عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا کیاگیا ہے وہ دیگر تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب کے مقابلے میں کہیں بہتر اور قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے عورت کے لیے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں نہ وہ اسے اس قدر پابند بناتی ہیں کہ وہ گھر میں مقید ہو کر رہ جائے اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں کہ وہ سر عام لوگوں کی تفریح طبع کا سبب بنتی پھرے بلکہ وہ اس کے لیے ایک متوازن اور باوقار مقام کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بہترین استعمال کرکے معاشرتی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکے۔ اس سے جہاں اسلامی معاشرے میں دنیا کے تمام مذاہب کے مقابلے میں حقیقت پسندی اور عملیت و فعالیت کے عنصر کی بھرپور موجودگی کا احساس ہوتاہے وہاں اسلام کی صداقت و حقانیت کا بین اور واضح ثبوت بھی میسر آتا ہے۔

کرنل (ریٹائرڈ) سید علی نقی نقوی صاحب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button