علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم
ہر تحریک کی کامیابی کا اہم راز اس کی مؤثر اور مقتدر قیادت میں پوشیدہ ہوتا ہے اور پاکستان کے شیعیان حیدر کرار انتہائی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیادت جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جس کی برکتیں ہرخاص وعام کے لئے یکساں ہیں، قیادت ہی وحدت کانشان ہوتی ہے اوروحدت میں ہی قوم کی بقاء مضمر ہے۔
قیادت کے بغیر نہ تو انفرادی زندگی میں استواری آ سکتی ہے اور نہ اجتماعی زندگی میں بیداری ہو سکتی ہے، نہ فرد کی اصلاح ہو سکتی ہے، اور نہ معاشرے کو فلاح سے آراستہ کیا جا سکتا ہے، نہ تو سماجی بے راہ رویوں پر قابو پایا جا سکتا ہے، نہ ہی حق شناسی کی منزل نصیب ہوسکتی ہے اور نہ ہی فرض شناسی کے لئے کوئی صحیح قدم رکھا جا سکتا ہے۔
اسی وجہ سے قرآنی فلسفے ”ولکل قوم ھاد“ کے مطابق دنیا کے ہرخطہ میں ایک الٰہی نمائندے کا ہونا ضروری قرار پایا، خواہ یہ الٰہی نمائندہ حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت خاتم النبیینؐ یا خاتم الاوصیا ءسرکار حضرت مہدی موعود صلوٰة اللہ علیھم تک کی شکل میں منصوص من اللہ ہو یا بارہویں سرکار حضرت مہدی علیہ افضل الصلوٰة والسلام کے پردہ غیب میں جانے کے بعد علماء حقہ اور فقہاء جامع الشرائط کی شکل میں ہو، بہرحال قوم کی ہدایت کے لئے ہر دور میں ایک الٰہی نمائندہ موجود رہا ہے جس نے اپنی سکت کے مطابق، وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سیاسی، اجتماعی اور مذہبی امور میں اپنی قوم کی ہدایت کی ہے۔
اس مضمون میں قائد ملت جعفریہ حضرت علامہ مفتی جعفرحسین مرحوم کی سیاسی مذہبی خدمات کو اختصار کے ساتھ پیش کرتے ہیں تا کہ قارئین کرام اپنی قیادت کی کوششوں کی قدر دانی کرتے ہوئے اتحاد و وحدت کے ساتھ ان کے چھوڑے ہوئے راستے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
ادارہ تحفظ حقوق شیعہ
مارچ 1948ء میں اس ادارہ کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب مفاد پرست اور ذاتی مقاصد رکھنے والے چند نام نہاد روایتی رہنماؤں نے ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس“ کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظور کروائی جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ ”ہم شیعان حیدر کرار کے پاکستان میں وہ ہی حقوق ہیں جو دوسرے اہلسنت برادران کے ہیں اور دیگر مسلمانوں سے الگ ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں“۔ اس اجلاس کی صدارت راجہ غضنفرعلی کررہے تھے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر وہ قرارداد مان لی جاتی تو اس وقت جن سیاسی اور مذہبی مسائل سے ہماری قوم دوچار اور ان کی دست یابی کے لئے قربانیاں دے رہی تھی وہ سب بے سود ہو کر رہ جاتیں اور کسی طرح بھی ہم اپنے مطالبات پیش نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ اس ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس“ میں ہم یہ قرارداد منظورکر چکے ہوتے کہ ہمارے کوئی مستقل حقوق نہیں تو اب مستقل مذہبی آزادی کی گفتگو کرنا ہمارے لئے قانونی طور پر مشکل ہو جاتا۔ لہذا جب اس کی خبر حضرت علامہ مفتی جعفر حسین قبلہ اور علامہ حافظ کفایت حسین قبلہ کو ہوئی تو انہوں نے دور اندیشی کے ساتھ انتہائی سخت رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ”یہ غلط ہے کہ ہمارے دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی اور حقوق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے ہماری کچھ الگ خصوصیات اور حقوق ہیں کہ جن کے تحفظ سے ہم دستبردار نہیں ہو سکتے“۔
مذکورہ کانفرنس کے چند روز بعد ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان“ کا لاہور میں قیام عمل میں آیا اور مفتی صاحب قبلہ پہلے صدر، حافظ کفایت حسین نائب صدر اور خطیب آل محمد (ص) سید اظہرحسین زیدی صاحب قبلہ جونیئر نائب صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ نے اپنے منصب کی احساس ذمہ داری کے تحت ملک بھر کے طوفانی دورے کئے شہر شہر، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ اور گلی گلی جا کر ملت کو سازش سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ہمارے کچھ جداگانہ حقوق بھی ہیں۔ آپ کی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور اس طرح ایک طرف سے ملت کے اندر اجتمائی شعور اور بیداری کی لہر پیدا ہوئی تو دوسری طرف سے پوری قوم نے یک زبان ہو کر شیعہ کانفرنس میں منظور کردہ قرارداد کو مسترد کر دیا۔
درحقیقت اس ادارہ کے اہم اغراض و مقاصد کو مندرجہ ذیل نکات میں ذکر کیا جا سکتا ہے:
1۔ قوم میں ہم آہنگی اور ہمفکری پیدا کرتے ہوئے متحد اور متفق کرنا۔
2۔ ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس“ میں منظور شدہ شق کو عوامی اور جمہوری انداز میں مسترد کرنا۔
3۔ قوم میں اپنے حقوق کے مطالبات کی لہر پیدا کرنا۔
(اسی ادارہ کی حقائق پر مبنی کوششوں کے نتیجہ میں آگے چل کر یہ تحریک شیعہ مطالبات کمیٹی کا رخ اختیار کر گئی)۔
اس طرح سے مرحوم مفتی جعفرحسین صاحب نے اپنی دور اندیشی اور تیزبین نگاہوں سے پاکستان کی تاریخ سے منوایا کہ مملکت خداداد پاکستان اسلامی نظریے پر قائم ہوا ہے۔ شیعہ قوم اس ملک کا اہم حصہ ہے جس نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس وقت اپنے ملک کے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لہذا اسلامی نکتہ نگاہ سے انہیں اپنے مذہب کے مطابق آزادی کاحق حاصل ہوگا۔
اگراس وقت کے سیاسی، اجتماعی، وسائل کی کمی اور مذہبی حالات کو نظر میں رکھا جائے تو ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ“ کے اغراض و مقاصد سے عوام کو روشناس کرانا اور قوم کو اپنے ساتھ لے کر چلنا نہایت ہی نازک اور کٹھن مرحلہ تھا جسے مفتی صاحب نے سر انجام دیا اور ادارہ کے تمام تر اجتماعی اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
آپ نے 1949ء میں تعلیمات اسلامی بورڈ کے رکن کے طور پرمنتخب ہو کر اپنے قوم کی ترجمانی سر انجام دی۔
جب پاکستان کی آئین سازی کا مرحلہ آیا تو غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے یہ ظاہر کیا جانے لگا کہ اس ملک میں تو مختلف مکاتب فکر کے لوگ رہتے ہیں لہذا کون سے مکتب کے مطابق اس ملک کو اسلامی قرار دیا جائے۔ اس طرح سے اس ملک کو اسلامی ملک قراردیے جانے سے بہتر ہے کہ یہاں لائیک حکومت بنائے جائے تو 1951 ء میں مختلف مکاتب فکر کے علماء نے مل کر 22 نکاتی فارمولا پیش کیا ان علماء کے اجلاس میں اپنے مکتب کی ترجمانی کرتے ہوئے بھرپور کردار ادا کیا۔
18 مئی 1952ء کوچودھری ظفراللہ خان قادیانی نے جہانگیر پارک کراچی میں تقریر کی جس کے نتیجہ میں انجمن آل مسلمین پاکستان کے زیر انتظام کراچی میں ہی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، اس کانفرنس کے انعقاد میں قائد ملت جعفریہ سرکار مفتی جعفر حسین کا بھی اہم رول تھا اس کانفرنس میں مندرجہ ذیل اہمیت قراردادیں پاس ہوئیں۔
1۔ قادیانیوں (احمدی گروپ) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتے ہوئے انہیں حکومت کے اہم اور کلیدی عہدوں سے برطرف کیاجائے۔
2۔ چودھری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔
علامہ سید محمد دہلوی کی دور قیادت میں دہلوی صاحب کا بھرپور ساتھ دیا یہاں تک کہ صدر ایوب خان نے شیعہ اکابرین اور علماء پر مشتمل 50 رکنی وفد سے ملاقات کی اور شیعہ مطالبات کو حق بجانب سمجھتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لئے پانچ شیعہ اور چار حکومت کی نمائندگی میں مشتمل افراد پر ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ شیعہ نمائندگی میں جن پانچ افراد کے نام تھے ان میں علامہ سید محمد دہلوی کے علاوہ مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامھم جیسی اہم شخصیات تھیں، چنانچہ آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی تگ و دو سے دو نومبر 1968ء کو حکومت نے نصاب تعلیم کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا۔
”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” اور سید محمد دہلوی صاحب کی دور قیادت میں قومی حقوق کے دفاع میں بھرپور کردار کی وجہ سے صدر ایوب خان کی دور حکومت میں دو بار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔
1977 میں اپنے مکتب کی نمائندگی میں ”ایم۔ آر۔ ڈی“ تحریک برائے بحالی جمہوریت کی بھرپور حمایت کااعلان کیا۔
جب ملک کی تقدیر جنرل ضیاء کے حوالہ کی گئی اور اس نے عوام کی دکھتی نبض پرہاتھ رکھتے ہوئے اسلامآئیزیشن کا مبہم اعلان کیا تو 12/13 اپریل 1979ء کے عظیم الشان اجتماع میں یک آواز ہوکر آپ کو بعنوان قائد ملت جعفریہ پاکستان روشناس کرایا گیا۔
مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ نے قبائے قیادت زیب تن کرنے کے بعد عوامی رابطہ مہم تیز کر دی۔ قوم و ملت کو تحریک کے اہداف سے روشناس کرانے لئے ملک کے مختلف مقامات پرتشریف لے گئے۔
قائد مرحوم مفتی صاحب پیرسنی کے باوجود ملک کے گوشہ و کنار میں تحریک کے اہداف کو واضح کرتے ہوئے اپنی قوم کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات کا بھی جائزہ لیتے رہے۔
ملکی حالات اور شیعہ قوم کی ضرورت کے پیش نظر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا پہلا اجلاس 20 اپریل 1979ء کو گوجرانوالہ شہر میں منعقد ہوا جس میں تحریک کو ایک تنظیمی شکل دی گئی اور ”سپریم و مرکزی کونسلز“ جیسے اہم دو ادارے عمل میں لائے گئے اور اس طرح سے مفتی صاحب نے اس اجلاس میں قوم کے تمام علماء اور اکابرین کو اپنے ساتھ ملا کر چلنے کا عزم کرتے ہوئے ملک بھر سے علماء، زعما، دانشور، صحافی، وکلاء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے حضرات کو ان اداروں میں نامزد فرمایا اور انہی میں سے چھ افراد؛ سید وزارت حسین نقوی بکھر، مولانا سید ریاض حسین نجفی لاہور، سید اختر حسین شائق انبالوی لاہور، سید امداد حسین شاہ ہمدانی ایڈوکیٹ سرگودھا، کرنل محمد خان چکوال اور سید اقتدار علی پشاور پرمشتمل دستور سازکمیٹی بھی تشکیل دی گئی تاکہ باقائدہ تحریک کا ضابطہ اور آئین تشکیل دیا جا سکے اور اسی طرح اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ اس تحریک کا ایک اعلیٰ وفد صدر جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کرکے اسے اپنی تحریک کے اہداف، مقاصد اور قومی جذبات سے آگاہ کرے گا۔
جنرل ضیاء سے تحریک کے پہلے وفد کی ملاقات
23 اپریل 1979ء کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا پہلا وفد ضیاء الحق سے ملنے کے لئے اسلام آباد پہنچا اور جنرل ضیاء کی ملاقات سے قبل وزیر مذہبی امور محمود اے ہارون سے ملاقات کی۔ انہوں نے ضیاء الحق سے تبادلہ خیال کے بعد تحریک کے وفد کو صدر پاکستان جنرل ضیاء سے ملاقات کے لئے 26 اپریل کا وقت دیا۔ لیکن جب طے شدہ تاریخ پر تحریک کے وفد سے ضیاء نے ملاقات نہ کی تو یہ وفد27 اپریل کو گورنر پنجاب جنرل سوار خان سے ملا اور ان سے اپیل کی کہ صدر اپنے رائج کردہ اسلامائزیشن نظام میں ملت جعفریہ کی بھرپور نمائندگی اور تحفظ کااعلان کرے بصورت دیگر 30 اپریل تک تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے وفد سے ملاقات کرکے انہیں اپنے مؤقف سے آگاہ کرے۔
جنرل موصوف نے 29 اپریل کو وزارت مذہبی امور کے توسط سے جواب دینے کا وعدہ کیا مگر قائدین تحریک کو 29 اپریل تک کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
30 اپریل کی صبح کی اخبارات اور ریڈیو میں یہ خبر منظر عام پر آئی کہ صدر مملکت 5مئی کو شیعہ وفد سے ملاقات کر کے ان کا مؤقف معلوم کریں گے! اس تعجب خیز خبر سے تحریک کے اکابرین میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی کہ تحریک کے اکابرین تو اپنا مؤقف بیان کر چکے ہیں اور حکومت کے جواب کے منتظر ہیں۔
چنانچہ ملت جعفریہ سے جنرل ضیاء کی اس بے رخی اور لاپرواہی کے بدولت 30 اپریل 1979ء کو قائد تحریک علامہ مفتی جعفر حسین نےلاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے احتجاجاً اسلامی نظریاتی کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت پر واضح کیا کہ اب صدر ضیاء سے ملاقات کا وقت تحریک نفاذفقہ جعفریہ پاکستان کے اعلیٰ اختیاراتی ادارے معین کریں گے۔
مفتی صاحب کی وارننگ کو سمجھتے ہوئے 5 مئی 1979ء کو ضیاء الحق نے تحریک کے وفد سے ملاقات کرنے کی خواہش کی جس پر تحریک کے فیصلے کے مطابق قائد ملت علامہ مفتی جعفر حسین کی سربراہی میں مولانا مرزا یوسف حسین مرحوم، مولانا حسین بخش جاڑا مرحوم، مولانا محمد حسین نجفی، مولانا ملک اعجاز حسین خوشاب اور سید وزارت حسین نقوی پر مشتمل چھ رکنی وفد نے صدر ضیاء سے ملاقات کی۔ صدرنے وعدہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں 9 مئی 1979ء کو کراچی کی پریس کانفرنس میں اہم اعلان کریں گے۔ لیکن 9 مئی کو جنرل ضیاء نے کراچی میں غیر مبہم سا اعلان یوں کیا کہ ”نظام مصطفیٰ“ کے نفاذمیں کسی فقہ کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔ صدر کا یہ اعلان اور جزئیات فقہ جعفریہ کے پرسنل لاء تک محدود تھیں جبکہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان پبلک لا میں اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کررہی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کا یہ غیر مبہم سا اعلان سن کر علامہ مفتی جعفر حسین نے عوامی رابطہ مہم تیز کر دی اور ملک گیر دورے جات کی صورت میں قوم کو حقائق اور خدمات سے آگاہ کرنے لگے قائد کے ان دورہ جات اور ہمت نے ملک کے اندر ایک تہلکہ مچا دیا۔
6 جولائی 1980 کا تاریخ ساز کنویشن اور معاہدہ اسلام آباد
قائد ملت جعفریہ حضرت علامہ مفتی جعفر حسین اور ان کے رفقاء تحریک کے استحکام اور درپیش مسائل کے متعلق لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف تھے کہ وقت کے ڈکٹیٹر نے اپنی اور اپنے آقاؤں کی پسند کا اسلام نافذ کرنے والے خواب کے تحت 20 جون 1980ء کو زکواة اور عشر آرڈیننس جاری کیا جس میں مکتب تشیع کو یکسر نظر انداز کیا گیا تھا۔ جنرل ضیاء کے اس اقدام سے ملت جعفریہ کی مایوسیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ جس پر تحریک کے ذمہ داران، اکابرین اور قائدملت کو حکومت کے پے درپے ایسے اقدامات کے بارے میں مجبوراً راہ تلاش کرنا پڑی۔
لہذا قائد مرحوم مفتی جعفر حسین نے 4/5 جولائی کو اسلام آباد میں ایک شیعہ کنونشن کا اعلان کردیا ملک بھر سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا۔
علامہ مفتی جعفرحسین کے اس اعلان نے ضیاء الحق کو از حد پریشان کر دیا۔ جس کے ازالہ کے لئے اس نے 2 جولائی کے روز چند روایتی نام نہاد شیعہ رہنماؤں (جن کا تحریک کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہ تھا) سے ملاقات کرکے تمام شیعہ مطالبات تسلیم کر لینے کااعلان کیا۔ جسے قائد مرحوم نے رد کرتے ہوئے اسے روایتی مکاری قرار دیا کیونکہ در اصل یہ حکومت کی طرف سے قومی کنونشن کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی۔
قوم نے اپنے محبوب قائد علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں اسلام آباد کی شاہراؤں پر ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی۔ ابھی احتجاج کاسلسلہ جاری ہی تھا کہ تین بجے سہ پہر کو قائد مرحوم مفتی جعفر حسین کی خدمت میں وفاقی وزیر مذہبی امور محمود ہارون کی مذاکراتی دعوت پہنچائی گئی۔ جس کے بعد آپ علماء کے وفد سمیت مذاکرات کے لئے تشریف لے گئے۔ مگر مذکرات بے سود رہے، علامہ مفتی صاحب نے قوم کے درمیان واپس آتے ہی مختصر خطاب کیا اور قوم کو سیکریٹریٹ کی جانب مارچ کرنے اور مطالبات کی منظوری تک اسے اپنے حصار میں رکھنے کاحکم دے دیا۔
شیعہ قوم نے اپنے محبوب قائد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مکمل طور پر مرکزی سیکریٹریٹ کا محاصرہ کرتے ہوئے اسے اپنے قبضہ میں کرلیا جو پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ تھا۔ البتہ اس تاریخی کارنامے میں ہمارے کچھ جوان پولیس مقابلے میں زخمی ہوئے اور اسی طرح ہمارا قیمتی جوان محمد حسین شاد شہادت کی موت سے ہمکنار ہوا۔
تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مفتی صاحب کی قیادت میں مرکزی سیکریٹریٹ کا محاصرہ مظبوط سے مظبوط تر ہوتا گیا تو اس کے مقابلے میں فوج نے بھی 5 اور 6 جولائی کی شب مظاہرین کے خلاف اپنے مورچے سنبھال لئے اور فوجی دائرہ بھی تنگ تر ہوتا نظر آنے لگا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں کئی وارڈ خالی کروا دیے گئے اور ایمبولینسوں کو بھی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب طوفانی، موسلا دھار بارش نے لاکھوں افراد کو بے حال کر دیا تھا۔ مگر ان تمام نامساعد حالات کے باوجود کسی فرد کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی اور مرتے دم تک اپنے محبوب قائد کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے اسی عزم و جزم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
جب خفیہ اداروں کی وزیر مذہبی امور سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اور شیعہ اجتماع کے جذبہ کے متعلق موصولہ اطلاعات ضیاء الحق پر صورتحال واضح ہوئیں تو اس نے 6 جولائی کے روز تحریک کے اکابرین اور قائدملت کو مذکرات کی دعوت دی۔
صدر سے ملاقات کے لئے علامہ سید صفدر حسین نجفی، علامہ سیدگلاب علی شاہ صاحب اور کرنل فدا حسین پر مشتمل ایک وفد قائد ملت مرحوم مفتی جعفرحسین کی زیر قیادت صدر ہاؤس روانہ ہوا۔ جہاں مذکرات کے بعد صدر ضیاء الحق کی جانب سے کسی قوم کے ساتھ یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا۔ جو شیعہ قومی قیادت کے ساتھ طے پارہا تھا جسے بعد میں معاہدہ اسلام آباد کے نام سے شہرت ملی اس طرح سے اسلام کی تاریخ نے دیکھا کہ بالآخر وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے تحریری طور پر شیعہ مطالبات پردستخط کردئے۔
معاہدہ کے بعد اس اعلیٰ اور فاتح وفد نے اپنی قوم کو مبارکباد پیش کی اور قائد ملت مرحوم مفتی جعفر حسین نے مختصر خطاب میں قوم کے حوصلوں اوراعتماد کو سراہتے ہوئے مذاکرات کی صورتحال سے آگاہ فرمایا اور اسی کے ساتھ انہیں پر امن طور پر منتشر ہونے کا حکم بھی دیا۔ جس کے بعد لاکھوں افراد شہید محمد حسین شاد کی یاد میں ”شہید فقہ جعفریہ خون تیرا رنگ لایا ہے“ کے نعرے لگاتے ہوئے سیکریٹریٹ سے واپس چل پڑے۔
شیعہ قوم نے حضرت علامہ مفتی جعفرحسینؒ کے دور قیادت میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جو مطالبات حکومت کے سامنے پیش کئے وہ اس طرح سے تھے۔
1۔ آزادانہ طور پر عزاداری امام حسین علیہ السلام کی اجازت ہونی چاہئے اور اس کے تمام تر حفاظتی امورحکومت پر عائد ہوتے ہیں۔
2۔ شیعہ اسٹوڈنس کے لئے اسکولوں میں جداگانہ اپنی فقہ کے مطابق نصاب دینیات کا انتظام ہونا چاہئے۔
3۔ درسی کتب سے قابل اعتراض و دل آزار مواد کا اخراج کیا جائے۔
4۔ تمام ترشیعہ اوقاف کی نگرانی کے لئے شیعہ بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
5۔ حکومت کی طرف سے (بنک اکاؤنٹ) زکواة کی وصولی سے استثناء قرار دیا جائے۔
ملت تشیع کے اس عظیم اور تاریخی کارنامے سے بہت مثبت نتائج ابھر کر سامنے آئے سب سے پہلی بات یہ تھی کہ شیعہ قوم نے ایک مظبوط پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑ کر اپنی طاقت کا لوہا منوایا جس سے دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کو بھی شیعہ قوم کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ ہوا۔ تو دوسری طرف پاکستان کا حکمران طبقہ جو عرصہ دراز سے مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کو سیاسی اور اجتماعی طور پر ایک مردہ قوم سمجھ کر ہمیشہ نظرانداز کرتا رہا تھا کو یہ باور کرنا پڑا کہ شیعان حیدر کرار ایک مہذب قوم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا ایک قوی اور طاقتور فرقہ ہے، اس سے بڑھ کر خود شیعہ قوم کو بھی اپنے اتحاد و وحدت کے اثرات کے علاوہ اپنے مکتب کی ترجمانی کے لئے ایک مستقل سیاسی و مذہبی پلیٹ فارم کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ ہوا۔
بہرحال وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جنرل ضیاء نے مفتی صاحب کے تمام تر قومی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے معاہدہ اسلام آباد پر دستخط کر دئے مگر حساسیت کے حامل (بنک اکاؤنٹ ) زکواة وصولی سے استثناء قراردئے جانے کے مطالبے کے علاوہ بقیہ مطالبات کو زیر التواء قرار دے کر اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔ قائدمرحوم مفتی جعفر حسین معاہدہ اسلام آباد پر عمل درآمد کے مطالبات دہراتے رہے اور اس سلسلے میں حکومت کی غداریوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا۔
قائد مرحوم اس جد و جہد میں نہ صرف شیعیان حیدر کرار کے حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل رہے بلکہ شیعہ قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک و ملت کے مفاد میں ہونے والے ہر اس مثبت اقدام کا ساتھ دیا اور ان امور میں بھی سرگرم رہے جن کی اس وقت ملک وملت کو ضرورت تھی جیسا کہ بحالی جمہوریت کے لئے قائم کردہ ملک گیر تحریک ایم ۔آر۔ ڈی کا مکمل ساتھ دیتے ہوئے ثابت کیا کہ جہاں پاکستان میں اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں وہاں ہمیں پاکستان کے تحفظ کی بھی فکر ہے اور پاکستانی عوام کے حقوق کی حفاظت کرنا بھی ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے اس طرح سے قائد مرحوم مفتی جعفر حسین نے عملی طور پر تحریک جعفریہ کا سیاسی امور سے مبرا ہونے کا انکار کرتے ہوئے اپنے آخری انٹرویو میں بحالی جمہوریت تحریک ایم ۔آر۔ ڈی میں شمولیت کا کھل کر اعلان کیا اور انہی قومی، مذہبی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے، بالآخر 29 اگست 1983ء کو ساڑھے پانچ بجے دعوت حق پر لبیک کہہ کر ہمیشہ کے لئے کربلا گامے شاہ لاہور میں ائمہ اہل بیت کے جوار میں آرامی ہوئے۔ خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے اوران کی قبر کو نور اہل بیت اطہار سے منور فرمائے (آمین)۔
تالیفات
نہج البلاغہ کا اردو ترجمہ
یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں سید شریف رضیؒ حضرت امیر علیہ السلام کے یہ خطبات، خطوط اور کلمات قصار کہ جو ان کی نظر میں فصاحت و بلاغت کے انتہائی آخری درجہ کو پہنچے ہوئے تھے، جمع کیے اور اسی مناسبت سے اس کتاب کا نام نہج البلاغہ (یعنی بلاغت کا راستہ) رکھا۔ یہ کتاب پوری دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھنے کی بنا پر مشہور ہے۔ اس کتاب پر زبان عربی،فارسی اوانگریزی میں بہت سی شروحات اور ترجمہ لکھے جاچکے ہیں۔ مفتی صاحب نے اہل اردو زبان پر احسان کرتے ہوئے اس عظیم شہ پارے کو اردو زبان میں ترجمہ اور مختصر شرح کے ساتھ پیش کیا۔ آج تک جس کسی نے اس کتاب کو ایک مرتبہ پڑھا اس کا گرویدہ ہو گیا۔
صحیفہ کاملہ کا اردو ترجمہ
یہ کتاب چوتھے امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں پر مشتمل ہے ان تمام دعاؤں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اور خود امام عالی مقام علیہ السلام سے ہم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے۔ یہ کتاب جو کہ زبور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہے تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشہور عالم دین طنطاوی جوہری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران، اور یہ اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک مشہور بزرگ ہستی کے کلمات ہیں۔ یہ دونوں کلام، وہ آسمان سے نازل شدہ کلام، اور یہ اہل بیت علیہم السلام کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندان اسلام، اے اہل سنت، اے اہل تشیع! کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف، جن سے عجائب قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے، زمین کے اوپر زندہ رہنے کا سامان کرو۔
آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے۔ یہ دونوں تراجم اردو ادب کا شاہکار بھی ہیں۔
سیرت امیرالمومنین علیہ السلام
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ نے مولا علی علیہ السلام کی زندگی اور سیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے۔