نہج البلاغہ میں شخصیت علیؑ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
از حجۃ الاسلام مولانا سید تلمیذ الحسنین رضوی
قرآن مجید کے بعد معتبر ترین کتاب کا نام نہج البلاغہ ہے۔ اس کتاب کے لئے مشہور ہے کہ یہ تَحْتَ کَلَامِ الْخَالِقِ اور فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْق ہے۔ اس کتاب میں امیر المومنین امام المتقین حضرت علی علیہ السلام کے بیان کردہ 241 خطبات 79 مکتوبات اور وصایا اور 480 زرّیں اقوال ہیں جو حکمتوں سے پُر ہیں۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خطبات مکتوبات اور اقوال کو سب سے پہلے جس نے یکجا کر کے نہج البلاغہ کی صورت میں پیش کیا وہ شریف ابو الحسن محمد الرضی بن حسن الموسوی متوفی 404 ھ ہیں ہم ان تمام چیزوں کو اُن کتابوں میں بکھرا ہوا پاتے ہیں جو اس سے پہلے تحریر کی گئیں ہیں اور مقبول خاص و عام ہیں۔
نہج البلاغہ سوانح حیات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت باقاعدہ انداز میں بیان کی گئی ہے البتہ اس میں مولائے کائنات نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے کچھ گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جسے ہم نذرِقارئین کر رہے ہیں۔
مولائے کائنات مکتوب نمبر28 میں فرماتے ہیں:
وَ لَوْ لَا مَا نَهَی اللهُ عَنْهُ مِنْ تَزْكِیَةِ الْمَرْءِ نَفْسَهٗ، لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَآئِلَ جَمَّةً، تَعْرِفُهَا قُلُوْبُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ لَا تَمُجُّهَا اٰذَانُ السَّامِعِیْنَ. فَدَعْ عَنْكَ مَنْ مَّالَتْ بِهِ الرَّمِیَّةُ، فَاِنَّا صَنَآئِعُ رَبِّنَا، وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَآئِعُ لَـنَا۔
اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اپنی تعریف کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو بیان کرنے والا بے شمار فضائل بیان کرتا جنہیں صاحبان ایمان کے دل پہچانتے ہیں اور سننے والوں کی سماعتیں بھی انہیں جُدا کرنا نہیں چاہتیں، ہمیں دیکھو جو پروردگار کے براہِ راست ساختہ و پرداختہ ہیں اور باقی لوگ ہمارے احسانات کا نتیجہ ہیں۔
اسلام نے حسب و نسب کے فرق کو مٹایا ہے “لَا فَضْلَ لِعَربِیٍّ عَلیٰ عَجَمِیٍّ اِلاَّ بِالتَّقْویٰ”کہہ کر فضیلت کے معیار کو تبدیل کر دیا ہے۔ عرب کے باشندے خود کو سب سے اعلی و ارفع گردانتے تھے وہ گھوڑا خریدتے وقت بھی اس کے حسب ونسب کو جانچتے اور پرکھتے تھے۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا: کُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا حَسَبِی وَ نَسِبِی۔
تمام اقوامِ عرب میں قریش فضیلت کے مالک تھے اور قریش میں بنی ہاشم سب سے اعلی و ارفع تسلیم کیے جاتے تھے۔حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 17 میں معاویہ بن ابی سفیان کو اپنے حسب و نسب کے بارے میں بتلایا ہے اور یاد دلایا ہے کہ وہ کون ہے اور علی کون ہے اس کے حیثیت کیا ہے اور علی کا مقام کتنا اعلی و ارفع ہے۔
فرماتے ہیں:
اَمَّا قَوْلُكَ: اِنَّا بَنُوْ عَبْدِ مَنَافٍ، فَكَذلِكَ نَحْنُ، وَ لٰكِنْ لَّیْسَ اُمَیَّةُ كَهَاشِمٍ، وَ لَا حَرْبٌ كَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَ لَا اَبُوْسُفْیَانَ كَاَبِیْ طَالِبٍ، وَ لَا الْمُهَاجِرُ كَالطَّلِیْقِ، وَ لَا الصَّرِیْحُ كَاللَّصِیْقِ، وَ لَا الْمُحِقُّ كَالْمُبطِلِ، وَ لَا الْمُؤْمِنُ كَالْمُدْغِلِ.
جہاں تک تمہارا یہ قول ہے کہ ہم سب عبد مناف کی اولاد ہیں تو یہ بات درست ہے لیکن نا تو امیہ ہاشم جیسا ہو سکتا ہے اور نہ ہی حرب عبدالمطلب کی طرح ہے اور نہ ہی ابوسفیان حضرت ابو طالب کا ہمسر ہو سکتا ہے اور نہ راہِ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا اور نہ واضح نسب والے کا قیاس شجرے میں منسلک کیے جانے والےپر ہو سکتا ہے اور نہ حق داروں کو باطل پسندوں کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مومن کسی منافق اور دوغلے کا پلہ ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؑکو بچپن ہی سے اپنے پاس رکھا اور حضرت ابو طالبؑ کی ذمّہ داریوں کو کم کرنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی تعلیم و تربیت کی ذمّہ داری خود قبول کر لی اور حضرت علی علیہ السلام نے ان کے زیر سایہ تربیت حاصل کی اس بات کو مولائے کائنات نے اپنے ایک خطبے میں جس کا نام القاصعہ ہے جو نہج البلاغہ کا ایک طویل ترین خطبہ ہے اس کا نمبر 189 ہے اس میں مختلف عناوین نہایت عمدہ انداز میں بیان کئے گئے ہیں ۔ایک عنوان فضل الوحی ہے اس کے ذیل میں مولائے کائنات نے اپنے بچپن کا ذکر کیا ہے اور پہلی وحی کے نزول کی گفتگو کی ہے۔
فرماتے ہیں:
اَنَا وَضَعْتُ فِی الصِّغَرِ بِكَلَاكِلِ الْعَرَبِ، وَ كَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُوْنِ رَبِیْعَةَ وَ مُضَرَ. وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ، وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ: وَضَعَنِیْ فِیْ حِجْرِهٖ وَ اَنَا وَلَدٌ یَّضُمُّنِیْۤ اِلٰی صَدْرِهٖ، وَ یَكْنُفُنِیْ فِیْ فِرَاشِهٖ، وَ یُمِسُّنِیْ جَسَدَهٗ، وَ یُشِمُّنِیْ عَرْفَهٗ. وَ كَانَ یَمْضَغُ الشَّیْءَ ثُمَّ یُلْقِمُنِیْهِ، وَ مَا وَجَدَ لِیْ كَذْبَةً فِیْ قَوْلٍ، وَ لَا خَطْلَةً فِیْ فِعْلٍ.
وَ لَقَدْ قَرَنَ اللهُ بِهٖ ﷺ- مِنْ لَّدُنْ اَنْ كَانَ فَطِیْمًا اَعْظَمَ مَلَكٍ مِّنْ مَّلٰٓئِكَتِهٖ یَسْلُكُ بِهٖ طَرِیْقَ الْمَكَارِمِ، وَ مَحَاسِنَ اَخْلَاقِ الْعَالَمِ، لَیْلَهٗ وَ نَهَارَهٗ، وَ لَقَدْ كُنْتُ اَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اُمِّهٖ، یَرْفَعُ لِیْ فِیْ كُلِّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلَاقِهٖ عَلَمًا، وَ یَاْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدَآءِ بِهٖ، وَ لَقَدْ كَانَ یُجَاوِرُ فِیْ كُلِّ سَنَةٍ بِحِرَآءَ، فَاَرَاهُ وَ لَا یَرَاهُ غَیْرِیْ، وَ لَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وَّاحِدٌ یَّوْمَئِذٍ فِی الْاِسْلَامِ غَیْرَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ وَ خَدِیْجَةَ وَ اَنَا ثَالِثُهُمَا، اَرٰی نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الرِّسَالَةِ، وَ اَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ.
مجھے پہچانو! میں نے کم سنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ اور مُضَر کے سینگوں کو توڑ دیا تھا ۔تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرمﷺ سے مجھے کس قدر قریبی قرابت اور مخصوص منزلت حاصل ہے۔ انھوں نے بچپنے میں مجھے اپنی گود میں اس طرح جگہ دی ہے کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے، اپنے بستر پر سلا دیتے تھے اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے نوازتے تھے اور غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھے کھلاتے تھے۔ نہ انہوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ ہی میرے کسی عمل میں کوئی غلطی دیکھی۔
اور میں ان کے پیچھے پیچھے اس طرح چلتا رہتا تھا جس طرح بچہ ناقہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ۔آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ اور وہ ہرسال کچھ عرصہ سال غارِ حرا میں گزارہ کرتے تھے اور وہاں پر میرے علاوہ کوئی اور انہیں نہیں دیکھتا تھا میں وحی و رسالت کے نور کا مشاہدہ کیا کرتا تھا اور خوشبوئے رسالت سے دل و دماغ کو مُعَطّر و مُعَنبر رکھتا تھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے مکتوب نمبر 28 میں معاویہ کو آئینہ دکھایا اور پھر سرزنش کے انداز میں اس سے خطاب فرمایا اور تقابلی انداز میں اپنا تعارف کرایا مولائے کائنات نے فرمایا:
وَ اِنَّكَ لَذَهَّابٌ فِی التِّیْهِ، رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ. اَلَا تَرٰی غَیْرَ مُخْبِرٍ لَّكَ وَ لٰكِنْۢ بِنِعْمَةِ اللهِ اُحَدِّثُ ـ اَنَّ قَوْمًا اسْتُشْهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ لِكُلٍّ فَضْلٌ، حَتّٰۤی اِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِیْدُنَا قِیْلَ: ’’سَیِّدُ الشُّهَدَآءِ‘‘، وَ خَصَّهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِسَبْعِیْنَ تَكْبِیْرَةً عِنْدَ صَلٰوتِهٖ عَلَیْهِ!. اَوَ لَا تَرٰۤی اَنَّ قَوْمًا قُطِعَتْ اَیْدِیْهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ـ وَ لِكُلٍّ فَضْلٌ ـ حَتّٰۤی اِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ، قِیْلَ: ’’الطَّیَّارُ فِی الْجَنَّةِ‘‘ وَ ’’ذُو الْجَنَاحَیْنِ‘‘!.
اے معاویہ تو تو ہمیشہ گمراہیوں میں ہاتھ پاؤں مارنے والا اور درمیانی راہ سے انحراف کرنے والاہے میں تجھے باخبر نہیں کر رہا ہوں بلکہ اللہ کی نعمت کو بیان کر رہا ہوں ور نہ کیا تجھے نہیں معلوم کہ مہاجرین و انصار کی ایک بڑی جماعت نے راہِ خدا میں جانیں دی ہیں اور سب صاحبان فضل ہیں لیکن جب ہمارا کوئی شہید ہوا تو اسے سید الشہداء کہاں گیا اور رسول اکرمﷺ نے اس کے جنازے کی نماز میں ستر تکبیریں کہی ہیں۔ اسی طرح تجھے معلوم ہے کہ راہِ خدا میں بہت سوں کے ہاتھ کٹے ہیں اور وہ صاحبانِ اشرف ہیں لیکن جب ہمارے آدمی کے ہاتھ کاٹے گئے تو اسے جنت میں طیّار اور ذوالجناحین بنا دیا گیا۔
اسی مکتوب میں آگے چل کر فرماتے ہیں تم ہماری برابری نہیں کر سکتے اور ہو بھی کیسے سکتے ہو۔
وَ مِنَّا النَّبِیُّ وَ مِنْكُمُ الْمُكَذِّبُ، وَ مِنَّاۤ اَسَدُ اللهِ وَ مِنْكُمْ اَسَدُ الْاَحْلَافِ، وَ مِنَّا سَیِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مِنْكُمْ صِبْیَةُ النَّارِ، وَ مِنَّا خَیْرُ نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنِ وَ مِنْكُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ، فِیْ كَثِیْرٍ مِّمَّا لَنَا وَ عَلَیْكُمْ!.
اور ہم میں سے نبی ہیں اور تم میں جھٹلانے والا (ابو جہل) ہم میں اسد اللہ (حضرت حمزہ )اور تم میں اسداالاحلاف ( ابو سفیان) اور ہم میں سے سردارانِ جوانان جنت (حسنؑ و حسینؑ) اور تم میں جہنمی لڑکے (آل مروان) اور ہم میں سردارِ زنان جہان (حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا) اور تم میں حَمَّالَةُ الْحَطَبِ ( اُم جمیل بنت حرب، معاویہ کی پھوپھی ابو لہب کی بیوی) اور ایسی بہت ہی باتیں ہیں جو ہماری بلندی اور تمہاری پستی کے آئینہ دار ہیں۔
مکتوب نمبر 10 میں فرماتے ہیں۔ جس میں معاویہ بن ابی سفیان سے خطاب ہے۔
وَ مَتٰی كُنْتُمْ یَا مُعَاوِیَةُ سَاسَةَ الرَّعِیَّةِ، وَ وُلَاةَ اَمْرِ الْاُمَّةِ؟ بِغَیْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ، وَ لَا شَرَفٍۭ بَاسِقٍ۔۔۔۔وَقَدْ دَعَوْتَ اِلَی الْحَرْبِ، فَدَعِ النَّاسَ جَانِبًا وَ اخْرُجْ اِلَیَّ، وَ اَعْفِ الْفَرِیْقَیْنِ مِنَ الْقِتَالِ، لِیُعْلَمَ اَیُّنَا الْمَرِیْنُ عَلٰی قَلْبِهٖ، وَ الْمُغَطّٰی عَلٰی بَصَرِهٖ!. فَاَنَاۤ اَبُوْ حَسَنٍ قَاتِلُ جَدِّكَ وَ خَالِكَ وَ اَخِیْكَ شَدْخًا یَّوْمَ بَدْرٍ، وَ ذٰلِكَ السَّیْفُ مَعِیْ، وَ بِذٰلِكَ الْقَلْبِ اَلْقٰی عَدُوِّیْ، مَا اسْتَبْدَلْتُ دِیْنًا، وَ لَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِیًّا، وَ اِنِّیْ لَعَلَی الْمِنْهَاجِ الَّذِیْ تَرَكْتُمُوْهُ طَآئِعِیْنَ، وَ َدَخَلْتُمْ فِیْهِ مُكْرَهِیْنَ.
اے معاویہ ذرا یہ تو بتلاؤ کہ تم کب عرب کے سیاست مدار اور امت کے نگہ دار تھے جب کہ تمہارے پاس نہ کوئی سابقہ شرف تھا اور نہ کوئی بلند و بالا عزت۔۔۔۔ تم نے مجھے جنگ کی دعوت دی ہے تو بہتر یہ ہے کہ لوگوں کو الگ کر دو اور بذات خود میدان میں آ جاؤ فریقین کو جنگ سے معاف کر دو اور ہم تم براہ راست مقابلہ کر لیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور کس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ میں وہی ابوالحسن (حسن کا والد گرامی ہوں) جس نے روزِ بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ) ماموں (ولید بن عتبہ) اور بھائی( حنظلہ بن ابی سفیان) کا سر توڑ کر غزوۂ بدر کے موقع پر خاتمہ کر دیا تھا اور ابھی وہی تلوار میرے پاس موجود ہے اور میں اسی ہمت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا میں نے نہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ ہی نیا نبی اختیار کیا ہے اور میں اسی راہ پر گامزن ہوں جسے تم نے جان بوجھ کر چھوڑ رکھا تھا پھر مجبوراً اس میں داخل ہوئے تھے۔
خطبہ قاصعہ نمبر 189 میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور محاسن جو رسول اللہ ﷺؑ نے بیان فرمائے ہیں اسے نہج البلاغہ میں مولائے کائنات نے بیان کیا ہے۔
نبی اکرمﷺ پر جب غاِر حرا میں پہلی وحی کا نزول ہوا تو حضرت علی علیہ السلام وہاں پر موجود تھے وہ فرماتے ہیں:
وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطٰنِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْهِ- ﷺ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا هٰذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: “هٰذَا الشَّیْطٰنُ قَدْ اَیِسَ مِنْ عِبَادَتِهٖ، اِنَّكَ تَسْمَعُ مَاۤ اَسْمَعُ، وَ تَرٰی مَاۤ اَرٰی، اِلَّاۤ اَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، وَ لٰكِنَّكَ وَزِیْرٌ، وَ اِنَّكَ لَعَلٰی خَیْرٍ”.
میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آواز سنی تھی اور عرض کی تھی یا رسول اللہ! یہ چیخ کیسی ہے؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ شیطان ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہو گیا ہے تم وہ سب کچھ سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں اور تم وہ ہر چیز دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں صرف فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو لیکن تم میرے وزیر ہو اور یقیناً بے شک تم خیر پر ہو۔
قرآن کی رو سے حضرت علی علیہ السلام رسالت و نبوت کے گواہ اور شاہد ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ۔ (سورہ رعد۴۳)
اور کافر یہ کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں ( اے نبی) آپ فرما دیجئے میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے خطبہ 109 میں اہل بیت کے عنوان سے فضائل اہل بیت علیہم السلام بیان فرمائے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام اہل بیت کے فرد اور رُکنِ رکین ہیں فرماتے ہیں۔
نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ، وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ، وَ مُخْتَلَفُ الْمَلٰٓئِكَةِ، وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، وَ یَنَابِیْعُ الْحِكَمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا یَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ، وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا یَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.
ہم نبوت کا شجرہ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ، علم کے مُعَاوِن اور حکمتوں کے چشمے ہیں ہمارا ناصر و مُحِبّ ہمیشہ رحمت کا منتظر رہتا ہے اور ہمارے دشمن اور کینہ پرور کو قہر الٰہی کا انتظار کرنا چاہیے ہر لفظ قابل غور اور ہر جملہ لائقِ توجہ اور تشریح طلب ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کے لئے بار بار نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا اَنَا دَارُ الحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کو یہ حسرت آخرِ عمر تک رہی کہ اُن سے کوئی اخذ علم کرنے والا نہیں وہ سلونی سلونی کہتے رہتے مگر کوئی سوال کرنے والا اور پوچھنے والا نہ تھا یہی پیغام انہوں نے قول نمبر147 کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے اور اپنے عزیز ترین شاگرد اور صحابی کمیل بن زیاد کو ذریعہ بنایا ہے کمیل فرماتے ہیں کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ تھاما اور قبرستان کی طرف لے کر چلے جب آبادی سے باہر نکل گئے ایک لمبی آہ کھینچ کر فرمایا اے کمیل بن زیاد دیکھو! یہ دل ایک طرح کے ظرف ہیں لہذا سب سے بہتر وہ دل ہے جو سب سے زیادہ حکمتوں کو محفوظ کر سکے۔ اب تم مجھ سے ان باتوں کو محفوظ کر لو۔
لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں خدا رسیدہ عالم ۔راہِ نجات پر چلنے والا طالب علم۔ اور عوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آواز کے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا کے ساتھ لہرانے لگتا ہے اس نے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کا سہارا لیا ہے۔
(اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے علم اور مال کا موازنہ کرکے بتایا کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے)
پھر فرمایا اے کمیل دیکھو! اس سینہ میں علم کا ایک خزانہ ہے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا “کاش مجھے اس کے اٹھانے والے مل جاتے” پھر مولائے کائنات نے حاملانِ علم کی اقسام بیان فرمائیں جن میں کوئی بھی صحیح علم کا حامل نہ پایا۔
اس کے بعد آپ نے حجت خداوندی اور حقیقی علم رکھنے والوں کا ذکر کیا ہے۔
مولا کائنات کو ظاہری خلافت کے دور میں نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا آپ عدل و انصاف کے جس نظام کا قیام چاہتے تھے اس میں رکاٹیں ڈالیں گئیں تین جنگیں مسلط کر دی گئیں ناکثین (جمل) قاسطین (صفین)مارقین (خوارج)کے ساتھ جنگ۔ جنگ صفین زور شورسے جاری تھی امام علیہ السلام کا پلّہ بھاری تھا، فتح و کامرانی سامنے دکھائی دے رہی تھی معاویہ نے نیزے پہ قرآن بلند کروا دیے کہ ہم قرآن کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے حضرت علی علیہ السلام کے لیے نہایت مشکل مرحلہ تھا کہ قرآن کو حکم بنائیں یا نہ بنائیں یہ معاویہ کی چال تھی مکر و فریب تھا جعل سازی تھی حضرت علی علیہ السلام کو مجبوراً جنگ بند کرنی پڑی معاویہ کا قرآن سے کیا تعلق تھا وہ ایک طرح کی سازش تھی اسی کا پردہ چاک کیا ہے اورتحکیم کے بارے میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا ہے۔
اِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ، وَ اِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْاٰنَ. وَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اِنَّمَا هُوَ خَطٌّ مَّسْتُوْرٌ بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانٍ، وَ لَا بُدَّ لَهٗ مِنْ تَرْجُمَانٍ، وَ اِنَّمَا یَنْطِقُ عَنْهُ الرِّجَالُ. وَ لَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ اِلٰی اَنْ نُّحَكِّمَ بَیْنَنَا الْقُرْاٰنَ لَمْ نَكُنِ الْفَرِیْقَ الْمُتَوَلِّیَ عَنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالٰی، وَ قَدْ قَالَ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ﴾، فَرَدُّهٗۤ اِلَی اللهِ اَنْ نَّحْكُمَ بِكِتَابِهٖ، وَ رَدُّهٗۤ اِلَی الرَّسُوْلِ اَنْ نَّاْخُذَ بِسُنَّتِهٖ، فَاِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِیْ كِتَابِ اللهِ فَنَحْنُ اَحَقُّ النَّاسِ بِهٖ، وَ اِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ فَنَحْنُ اَوْلَاهُمْ بِهٖ.
یاد رکھو ہم نے افرادکو حکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو حکم قرار دیا تھا اور قرآن وہی کتاب جو دو دفتیوں کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود نہیں بولتا اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں اورہم قرآن سے روگردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے فرمایا ہے اپنے اختلافات کو خدا اور رسول کی طرف موڑ دو اور خدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول کی طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ حق دار ہم ہی ہیں۔ اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لیے سب سے اولیٰ اور اقرب ہم ہی ہیں۔
مولائے کائنات کی حیاتِ مبارکہ نہایت سادہ تھی دنیا کی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا کھانا بہت معمولی تھا زیادہ تر جو کی روٹی آپ کی غذا ہوتی تھی آپ نے یہی بات اپنے مکتوب نمبر 45 میں عثمان بن حنیف کو تحریر فرمائی تھی جو بصرہ میں آپ کے مقرر کردہ گورنر تھے۔
اَلَا وَ اِنَّ لِكُلِّ مَاْمُوْمٍ اِمَامًا یَّقْتَدِیْ بِهٖ، وَ یَسْتَضِیْٓءُ بِنُوْرِ عِلْمِهٖ، اَلَا وَ اِنَّ اِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفٰى مِنْ دُنْیَاهُ بِطِمْرَیْهِ، وَ مِنْ طُعْمِهٖ بِقُرْصَیْهِ، اَلَا وَ اِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُوْنَ عَلٰى ذٰلِكَ، وَ لٰكِنْ اَعِیْنُوْنِیْ بِوَرَعٍ وَّ اجْتِهَادٍ، وَ عِفَّةٍ وَّ سَدَادٍ. فَوَاللّٰهِ! مَا كَنَزْتُ مِنْ دُنْیَاكُمْ تِبْرًا، وَ لَا ادَّخَرْتُ مِنْ غَنَآئِمِهَا وَفْرًا، وَ لَاۤ اَعْدَدْتُّ لِبَالِیْ ثَوْبَیَّ طِمْرًا.
یاد رکھو !ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتدا کرتا ہے اور اسی کے نور علم سے کسبِ ضیاء کرتا ہے اور تمہارے امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر گزارا کیا ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے ہو لیکن کم سے کم اپنی احتیاط، کوشش کرو،اور سلامت روی میں میری مدد کرو۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے نہ کوئی سونا جمع کیا ہے اور نہ ہی اس مال و متاع میں سے کوئی ذخیرہ اکٹھا کیا ہے اور نہ ان دو بوسیدہ کپڑوں کے بدلے کوئی اور معمولی کپڑا مہیا کیا ہے۔
مولائے متقیان اسی مکتوب میں آگے چل کر فرماتے ہیں اور نصیحت کرتے ہیں۔
اَ اَقْنَعُ مِنْ نَّفْسِیْ بِاَنْ یُّقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لَاۤ اُشَارِكَهُمْ فِیْ مَكَارِهِ الدَّهْرِ؟ اَوْ اَكُوْنَ اُسْوَةً لَّهُمْ فِیْ جُشُوْبَةِ الْعَیْشِ؟ فَمَا خُلِقْتُ لِیَشْغَلَنِیْۤ اَكْلُ الطَّیِّبٰتِ كَالْبَهِیْمَةِ الْمَرْبُوْطَةِ هَمُّهَا عَلَفُهَا۔
کیا میرا نفس اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہے کہ مجھے امیرالمومنین کہاجائے اور میں زمانے کے ناخوشگوار حالات میں مومنین کا شریک حال نہ بنّو اور معمولی غذا کے استعمال میں ان کے واسطے نمونہ نہ پیش کر سکوں۔ میں اس لیے تو نہیں پیدا کیا گیا ہوں کہ مجھے بہترین غذاؤں کا کھانا مشغول کرلے اور میں جانوروں کے مانند ہو جاؤں کہ وہ بندھے ہوتے ہیں تو ان کا کل مقصد چارہ ہوتا ہے۔
امیر المومنین امام المتقین حضرت علی علیہ السلام قیامت تک آنے والے ہر فرد کے لیے قائد، حاکم، رہبر ،رہنما اور اسوہ حسنہ ہیں۔ آپ نے بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم دنیائے انسانیت کو ایسا نظام حکومت عطا کیا ہے کہ اگر ابنائے زمان اس پر عمل پیرا ہوں تو دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائےہر فرد کو اس کا حق ملے ہر شخص روٹی کپڑا اور مکان کا مالک بن جائے ۔مالک اشتر کو جو مکتوب تحریرکیا ہے جس کا نمبر 53 ہے جب انہیں مصر کا والی اور حاکم بنایا تھا۔ یہ آئین، دستور اور نظامِ حکومت کا ایک دستاویز ہے۔ اور صاحبان علم نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اس سے بہتر قانون اور دستور اور نظام حکومت نہیں ہو سکتا۔
حضرت علی علیہ السلام نے داخلی انتشار اور تین جنگوں کے باوجود ہر فرد بشر کے لئے سامان حیات مہیا کیااسے جینے کا قرینہ اور زندگی کا سلیقہ سکھایا امن راحت اطمینان اور سکون مہیا فرمایا۔
اور حضرت علیؑ اپنی ظاہری خلافت کے انتظام و انصرام سے نہایت مطمئن اور شادمان تھے۔
۱۹ رمضان المبارک کی صبح کو جب عبدالرحمن بن ملجم نے چھپ کر وار کیا اور آپ کے سر مبارک پر ضرب لگائی تو بے ساختہ آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات جاری ہوئے ۔ فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ ربِّ کعبہ کی قسم میں دنیا سے کامیاب اور کامران جا رہا ہوں
کسے را میسر نشد این سعادت
بکعبہ ولادت بمسجد شہادت
حجۃ الاسلام مولانا سید تلمیذ الحسنین رضوی
ڈاؤن لوڈ PDF مقالہ: نہج البلاغہ میں شخصیت علیؑ