نہج البلاغہ اور کامیاب زندگی کے اصول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان فطری اعتبار سے کمال کی جستجو میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اور ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے اپنی زندگی میں کامیابیاں نصیب ہوں اور ناکامی سے ہر انسان نفرت کرتا ہے۔ایک بچہ اپنے بچپن میں بھی اچھے لباس کو پسند کرتا ہے۔ اچھے سے اچھا کھلونا انتخاب کرتا ہے۔ بچپن ہی سے کامیابیوں سے خوش ہوتا ہے۔ ناکامیوں سے پریشان ہوتا ہے۔
کوئی چیز حاصل کر لے یا کچھ یاد کر لے تو اس سے خوشی محسوس کرتا ہے اور اگر کبھی اس سے کوئی چیز ضائع ہو جائے یا پھر کچھ بھول جائے تو پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں کامیابی کوئی حادثاتی عمل نہیں بلکہ یہ دنیا عمل و رد عمل کی دنیا ہے۔ جس انسان جو کرتا ہے اس کا نتیجہ پا لیتا ہے۔ ہم بسا اوقات بہت سی چیزوں قسمت و مقدر کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن جب ہم علمی اعتبار سے غور و خوض کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے مقدر کو خود ہی بناتا ہے اللہ نے انسان کو مختار پیدا کیا ہے اگرچہ اسے مکمل اختیار نہیں دیا بلکہ بعض معاملات کا تعقلق قضا سے ہے یعنی ہمارے حتمی مقدر سے ہے جیسے انسان ایک دن موت تو آنی ہی ہے لیکن اللہ نے انسان کو اس کا اختیار ضرور دیا ہے کہ انسان اپنی عمر کو کم یا زیادہ کر سکے۔ کچھ ایسے گناہ ہیں جو انسانی زندگی کو کم کر دیتے ہیں اور کچھ ایسے نیک اعمال ہیں جن سے انسان کی زندگی کے کچھ سال اضافہ ہو سکتے ہیں۔
تو اس کتابچے میں انسانی زندگی کی کامیابی کے ان اصولوں پہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ جن اصولوں پہ عمل کر کے انسان کامیابی کی عظیم منازل کو پاسکتا ہے۔
شاید بہت سے دانشوروں نے اس موضوع پہ کچھ کہا ہوگا یا بہت کچھ لکھا ہوگا چونکہ یہ موضوع ہر معاشرے کی ضرورت ہے اور انسان یہ جاننا چاہے گا کہ وہ کیا کرے جس سے ناکامیوں سے بچ سکتے ہوں۔
اس عظیم موضوع پہ بحث کے لئے ہم ایک ایسی کتاب کی رو سے بحث کرنا شروع کی ہے کہ جس کا تعلق اس ہستی سے ہے۔ جو تاریخ انسانیت میں ایسی شخصیت ہے جس نے ممبر پہ بیٹھ ایک ایسا عظیم دعوی کیا کہ پوری انسانیت کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ فرمایا سلونی قبل ان تفقدونی۔ پوچھو مجھ سے جو بھی پوچھنا چاہتے ہو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے چلا جاؤں اور جس نے اپنی زندگی کے خونی اختتام اور شہادت کے نظارے کو دیکھ کر فرمایا۔ فزت و رب الکعبہ کہ مجھے رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہو گیا۔ اور ان اوصاف کی حامل ذات کو تاریخ امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نام سے جانتی ہے۔ اور میں کامیاب زندگی کے اصولوں تک پہنچنے کے لئے نہج البلاغہ جیسی عظیم کتاب ہدایت کی طرف رجوع کر رہا ہوں جو کلام حق اور قران کے بعد ایک ایسی کتاب ہے جس کا تعلق ناطق قران امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ ہے۔
1۔ کامیابی اللہ کی طرف سے
انسان اپنی زندگی میں جو بھی کامیابی حاصل کرتا ہے اس کا تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ ہے اور اس کے بغیر کوئی کامیابی سے ہمکنارنہیں ہو سکتا۔ توفیقات دینے والی وہی ذات ہے اور توفیق حقیقت میں کامیابی کا دوسرا نام ہے کئی لوگوں کو توفیق دی جاتی ہے اور کچھ سے توفیقات لے لی جاتیں ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔ "لا ینفع اجتہاد بغیر توفیق” کوئی کوشش توفیق کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اور ہر کام میں کامیابی کے لئے رہبر و راہنما کی ضرورت ہے اور توفیق سے بہتر کوئی راہنما نہیں ہو سکتا لہذا فرمایا کہ ” لا قائد خیر من توفیق”
اللہ کی طرف سے توفیق سے بہتر کوئی رہبر و راہنما نہیں۔ لہذا امیر المومنین پھر فرماتے ہیں وما توفیقی الا باللہ۔ میری ہر توفیق اللہ کی جانب سے ہے۔ اللہ پہ عقیدہ اور اسی کی ذات پہ بھروسہ اور اسی سے توفیقات طلب کرنا حقیقت میں انسانی زندگی میں کامیابی کا بہت بڑا راز ہے۔
2۔ دین پہ ایمان اور پرہیزگاری
پہلے کامیابی کے راز کے ساتھ ساتھ ایمان اور عمل صالح دو عظیم کامیابی کے راز ہیں۔ جیسا کہ سورہ والعصر میں قران کریم نے ارشاد فرمایا کہ وقت اور زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے مگر وہ کہ جو اللہ پہ ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح انجام دیتے ہیں۔ اور قران کریم نے کیا خوب ارشاد فرمایا کہ” قد افلح المؤمنون۔ تحقیق کامیاب صرف مومنین ہیں۔
لہذا امیر المومنین نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں۔ ” فان تقوی اللہ مفتاح سداد” کہ پرہیزگاری۔ اور تقوی ہر بند دروازے کے لئے چابی ہیں۔ و ذخیرۃ معاد یعنی خدا کی بندگی اور تقوی آخرت کا بہترین ذخیرہ ہے اور عتق من کل ملکہ یعنی ہر غلامی کی زنجیروں سے آزادی ہے و نجاۃ من کل ھلکۃ اور یہ ہر ھلاکت سے نجات کا ذریعہ بھی ہے۔
ایک اور جگہ مولائے کائنات کچھ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں۔ فمن اخذ بالتقوی غربت عنہ الشدائد بعد دنوھا ۔ اگر کسی نے تقوی پیشہ کیا تو سختیاں اس کے نزدیک آنے کے بعد بھاگ جائیں گی۔ و احلولت لہ الامور بعد مرارتھا۔ معاملات تلخی میں جانے کے بعد فورا شیرینی میں تبدیل ہو جائیں گے۔ وانفرجت عنہ الامواج بعد تراکمھا۔ مشکلات کی موجیں اس کو اپنے گھیرے میں لینے کے بعد اس کے راستے کھول دیں گی۔
اگرچہ ان کلمات میں سے ہر ایک کلمہ کلام کا امام ہے اور اس پہ ایک ایک جملے پہ بحث ضروری ہے لیکن یہاں چونکہ ہمارا موضوع کچھ اور ہے۔
اکثر اوقات لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین پہ عمل کرنے یا تقوی و پرہیز گاری سے وہ ایک ناکام زندگی گذاریں گے لہذا وہ روشن فکر بن دین سے دوری اختیار کرتے ہیں تا کہ دنیا میں کامیابی حاصل کر سکیں لیکن بقول قران وہ زندگی کے ایک موڑ پہ پہنچتے ہیں جہاں کہا جائے گا۔ خسر الدنیا والاخرہ ۔ دنیا و اخرت میں اسے گھاٹا ہوا۔ لہذا امیر المومنین علیہ السلام اپنی حقیقت بین آنکھوں انسانوں کو ہدایت فرما رہے ہیں کہ کامیابی تقوی و پرہیز گاری اور اللہ کی بندگی اور اس کے سامنے تسلیم ہونے میں ہے۔
3۔ زندگی کا با مقصد ہونا:
دنیا میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں ایک جن کا جینا مقصد ہے دوسرا جن کے جینے کا مقصد ہے۔ جن کا جینا مقصد ان کا ہم و غم یہ ہے وہ کیسے بہتر سے بہتر زندگی گذار سکیں۔ اور وہ اگر اس مقصد میں کامیاب نہ ہوں تو مایوسیوں کا شکار ہو کر خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کی زندگی با مقصد یہ زندگی اس مقصد کے حصول کے لئے گذارتے ہیں اور ان کی زندگی معنی دار ہوتی ہے۔ ایک با سعادت زندگی گذارنے کے لئے زندگی کا با مقصد ہونا ضروری ہے۔ لہذا امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔ فما خلق امرؤ عبثا۔ کسی بھی انسان کو بغیر مقصد کے خلق نہیں کیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام قران کریم سے الہام لیتے ہوئے کہ قران نے فرمایا۔ افحسبتم انما خلقناکم عبثا۔ کیا تم نے تصور کرلیا ہے کہ ہم نے تمہیں بغیر کسی مقصد کے خلق کیا ہے۔ امام نے ارشاد فرمایا کہ انسان بے مقصد خلق نہیں ہوا بلکہ اسے خالق حقیقی نے ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔
انسان اپنی اس مختصر زندگی میں کئی قسم کے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا بلکہ اسے اپنی زندگی ترجیحات کی تشخیص دینی چاہیے اور ان ترجیحات اور اہم اہداف کے حصول کے لئے جدو جہد کرنی چاہیے۔
لہذا اسی نکتے کی طرف امام علیہ السلام نے کچھ اس طرح اشارہ فرمایا کہ ” من اشتغل بغیر المہم ضیع الاھم۔ انسان کی زندگی میں کچھ کام اہمیت کے حامل ہیں کچھ کم اہمیت رکھنے والے ہیں اور جو لوگ اپنے آپ کو غیر اہم کاموں میں مصروف کر لیتے ہیں ان کے اہم کام ضائع ہو جاتے ہیں۔
البتہ مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے مقدس وسیلہ کی بھی ضرورت ہے ورنہ اگر وسیلہ غیر مقدس ہو تو انسان کبھی عظیم مقاصد نہیں پہنچ سکتا۔ غسل کرنے کے لئے اگر گندہ پانی استعمال کیا جائے تو غسل تو بجائے خود انسان مزید گندگی کا شکار ہو جائے گا۔ لہذا امیر بیان حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔ کہ ” ما ظفر من ظفر الاثم بہ والغالب بالشر مغلوب” جس کام کے ذریعے گناہ کامیاب ہو وہ کامیابی نہیں ہوتی اور برائی کے ذریعے غلبہ پانے والا شخص کبھی غالب نہیں ہو سکتا۔
4۔ نظم و ضبط
انسان کی زندگی میں کامیابی کا ایک اہم راز نظم و ضبط ہے اور اس کائنات کی خلقت میں خلاق کائنات میں مکمل نظم و ضبط رکھا ہے لہذا کبھی سورج اپنے وقت سے ایک سیکنڈ پہلے نہیں ابھر سکتا اور ہر شی کا اپنا ایک دائرہ کار ہے اور وہ اسی دائرہ کار میں گردش کرتے ہیں۔اور اگر انسان کی زندگی میں نظم و ضبط نہ ہو تو یہ نظم عالم کے ساتھ سازگار نہیں اور یہ کائنات جو مکمل نظم و ضبط کے ساتھ گردش کر رہی ہے بے نظم انسان اس کائنات میں نا ہماھنگ ہو کر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے امیر کلام و بیان علی علیہ السلام اپنی وصیت میں اپنے بیٹوں اور دیگر تمام چاہنے والوں کو مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں۔ اوصیکم بتقوی اللہ و نظم امرکم۔ میں تمہیں اللہ کی بندگی کی وصیت کرتا ہوں اور دوسرا اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ اپنے تمام معاملات میں نظم و ضبط پیدا کرو۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام کاموں کے لئے بہترین پروگرام بنائے اور اس کی زندگی کے اوقات میں ایک خاص توازن کا ہونا ضروری ہے۔ اور زندگی ایک ٹائم ٹیبل ہونا ضروری ہے۔ لہذا امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ” للمؤمن ثلاث ساعات کہ ہر مومن کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ فساعۃ یناجی فیھا ربہ اس میں ایک وہ وقت ہے جب انسان اپنے پروردگار کی بندگی کرے و ساعۃ یرم معاشہ اور ایک ایسا وقت ہے جس کے میں ہمیں اپنی معاش اور کاروبار کے لئے جد وجہد کرنی چاہیے۔ و ساعۃ یخلی بین نفسہ و بین لذتھا فیما یحل و یجمل اور اوقات میں سے ایک وقت اسے اپنی حلال اور خوبصورت لذتوں میں گذارنا چاہیے۔ اور پھر فرمایا لیس للعاقل ان یکون شاخصا غیر ثلاث کہ عاقل انسان کے لئے ہر گز درست نہیں کہ وہ تین امور کے علاوہ کسی شی کو اپنی زندگی میں کبھی کوئی قدم اٹھائے۔”مرمۃ لمعاش و خطوۃ للمعاد و لذۃ فی غیر محرم "اپنی زندہ رہنے کے لئے وسائل کی فراہمی یا پھر آخرت کے لئے ایک قدم اٹھانا اور یا پھر حلال لذتوں کے حصول کے لئے کوشش کرے۔ پس انسان کے تمام اوقات کو منظم اور ہماہنگ ہونا چاہیے تاکہ اس کی زندگی با برکت ہو سکے اور اس کے اوقات ضائع نہ ہوں۔ اور پھر امام علیہ السلام نے مالک اشتر کو لکھ کر بھیجا کہ اپنے ہر دن کے کام کو اسی دن کرنے کی کوشش کرو اور اسے اگلے دنوں پہ ہر گز نہ چھوڑو۔ جیسے کہتے آج کا کام کل پہ مت چھوڑو چونکہ کل کبھی نہیں آتا۔ فرمایا” وامض لکل یوم عملہ فان لکل یوم ما فیہ ” ہر دن کے کام کو اسی دن انجام دو اور اس کام کے لئے سارے وسائل اسی دن میں رکھے گئے ہیں۔ جیسا کہ قران کریم نے فرمایا وکل یوم ہو فی شان” ہر دن کی اپنی ایک خصوصیت اور شان رکھی گئی اور ہر دن اپنے ساتھ بہت سی برکات لے کر آتا ہے۔
5۔ فرصت کو غنیمت شمار کرنا
وقت کی اہمیت کسی انسان سے پوشیدہ نہیں اور آج کی تجارتی زبان میں کہتے ہیں کہ وقت حقیقت میں پیسہ ہے اور مذہبی دنیا میں قرآن نے کریم میں اللہ کی ذات وقت اور زمانے کی قسم اٹھائی۔ لہذا اگر کسی انسان کو فرصت مل جائے تو اگر وہ شخص اس فرصت سے صحیح استفادہ نہ کرے تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لیکن کامیاب لوگ فرصت کو کبھی اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے۔ اور مولائ کائنات امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ ارشاد فرماتے ہیں۔ کہ الفرصۃ تمر مر السحاب۔ فرصتیں بادل کی مانند آتی ہیں اور بہت جلد چلی جاتی ہیں۔ جیسے بادل بھی آتے ہیں گذر جاتے ہیں۔ اور پھر جب انسان کے ہاتھوں فرصت چلی جاتی ہے تو انسان اس پہ غصہ کھاتا ہے اور ہاتھ ملتا رہتا ہے ۔ لہذا امام فرماتے ہیں۔ "إضاعة الفرصة غصة” فرصت کا ضایع ہو جانا غم و غصّے کا باعث ہے ۔ اور انسانی زندگی میں اللہ کی ذات ہر انسان کو کچھ توفیقات دیتی ہے اور اگر ان توفیقات سے استفادہ نہ کیا جائے تو پھر وہ واپس لے لی جاتی ہیں۔
بسا اوقات انسان کے پاس فارغ اوقات ہوتے ہیں کہ جن میں انسان بہت سے کام کر سکتا ہے۔ لیکن جب انسان مصروف ہو جاتا پھر وہ فراغتیں دوبارہ نہیں ملتیں۔ لہذا امیر المومنین فرماتے ہیں کہ فلیعمل العامل منکم فی ایام مھلۃ قبل ارھاق اجلہ۔ تم میں جو بھی اہل عمل ہے اسے چاہیے کہ جب تک اس کے پاس مہلت ہو اس سے بخوبی استفادہ کرے قبل اس کے کہ موت یہ مہلت ہم سے لے یا یہ کہ وہ مہلت ہمارے ہاتھوں سے چلی جائے۔ پھر فرمایا کہ فی فراغہ قبل اوان شغلہ کہ اپنی فراغت کے اوقات سے استفادہ کرے قبل اس کے کہ وہ فراغت اس کے ہاتھوں سے نکل جائے۔
اہم نکتہ جو ضروری ہے وہ یہ کہ فرصت سے صحیح استفادہ کرے۔ يعني درست سمت میں استفادہ کرنا ضروری ہے تا کہ انسان مطلوب مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔