4: نیک نامی
لِسَانُ الصِّدْقِ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ خَیْرٌ لَهٗ مِنَ الْمَالِ يُوَرِّثُهٗ غَیْرَهٗ۔ (خطبہ۲۳)
اللہ جس شخص کا سچا ذکر خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔
انسان نے زندگی میں کیا کمایا اور دنیا سے جانے کے بعد کیا کچھ ورثہ میں چھوڑا یہ دو سوال اکثر ذہنوں میں آتے ہیں۔ با کمال انسان اس زندگی میں مال و دولت سے بڑھ کر کیا کما سکتا ہے اور ورثہ میں’’نیک نامی‘‘ سے بڑھ کر کیا چیز چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ مال و دولت انسان جتنا بھی کما لے مرنے کے بعد اس کے ساتھ کچھ نہیں جاتا۔ مگر اس مال و دولت کو اگر نیکی اور خیر کی راہ میں خرچ کرے تو اس کے مرنے کے بعد وہ نیکیاں اور اچھائیاں اس کو معاشرے میں زندہ رکھتی ہیں۔ انہی اچھائیوں کے ذریعے لوگ اسے یاد کریں گے۔
مال اگر ورثہ کے لئے چھوڑے گا تو محدود مدت کے بعد وہ مال ختم ہو جائے گا۔ نیز وہ مال چند محدود ورثہ تک ہی رہے گا مگر معاشرے کی بہتری و ہدایت کے لئے اگر کوئی بڑا کام کر جائے تو اس سے مستفید ہونے والوں کا دائرہ بڑھتا رہے گا اور وہ دیر پا ہوگا۔ کوئی ہسپتال بنا گیا، کوئی مرکز تعلیم قائم کر گیا، تو یہ اس کی نیک نامی کا سبب بنے گا۔
کئی بار یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی نیک نام کے ورثا کو بھی اس شخص سے رابطہ و تعلق کی وجہ سے عزت و مقام ملتا ہے اور نسل در نسل اس کی اولاد بھی اس پر فخر کرتی ہے۔ اس عزت کی خاطر انہیں بھی کارخیر کا حوصلہ ہوگا۔ نیک نامی کوئی ایسی میراث ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جیسے خلیل خدا بھی دعا کر رہے تھے پروردگارا مجھے بعد والوں میں نیک نام بنا دے۔