13۔ دُنیا کی حقیقت
فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُولِ کَفَیْءِ الظِّلِّ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۶۱)
دنیا عقل مندوں کے نزدیک ایک بڑھتا ہوا سایہ ہے۔
انسان کے لیے دنیا کھیت کے مانند قرار دی گئی ہے کہ جو جیسا بوئے گا ویسا کاٹے گا اور امیرالمؤمنینؑ ایک مقام پر اسے تجارت گاہ قرار دیتے ہیں۔ انسان سے جو چیز سب سے زیادہ خطائیں کرواتی ہے ان میں سے ایک دنیا کی محبت ہے اور جب یہ محبت کسی کے دل میں سما جاتی ہے تو پھر وہ باقی ساری محبتیں اس کی خاطر قربان کر دیتا ہے۔
امیرالمؤمنینؑ بار بار دنیا کی حقیقت سے آگاہ فرماتے ہیں اور اس فرمان میں بھی دنیا کو سائے کے مانند قرار دیاہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ دنیا عقل مندوں کے لیے سائے کے مانند ہے کہ ابھی ایک طرف سے سورج یا کوئی اور روشنی ظاہر ہوئی تو یہ سایہ بڑھنے لگا اور یہی روشنی جب رخ بدلتی ہے تو یہ سایہ بھی رخ بدل لیتا ہے۔ ابھی یہ سایہ بڑھا ہوا تھا پھیلا ہوا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھٹ گیا اور سمٹ کر رہ گیا۔
دنیا کی حقیقت کے بیان کے لیے یہ خوب صورت تشبیہ ہے۔ انسان اگر دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو یہی دنیا اس کے لیے کمال کا ذریعہ بن سکتی ہے اور یہی دنیا اس کے نام و عزت کے ہمیشہ بلند ہونے کا سبب واقع ہو سکتی ہے۔ آپؑ اکثر دنیا کے خطرناک پہلو بیان فرماتے ہیں چونکہ اکثر لوگ اس کے خطروں میں گھر جاتے ہیں، مگر اس فرمان میں آپؑ نے عقل مند کو معیار قرار دیا کہ وہ دنیا کو کیسے دیکھتا ہے۔ آپ اگر عقل مند ہیں تو دنیا کو سایہ ہی سمجھیں۔ بہ الفاظ دیگر جو دنیا کو سایہ سمجھتے ہیں وہی حقیقت میں عقل مند ہیں۔