19۔ جوانی سے استفادہ
هَلْ يَنْتَظِرُ اَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ اِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۸۱)
کیا یہ بھرپور جوانی والے، کمر جھکا دینے والے بڑھاپے کے منتظر ہیں؟
انسان کی زندگی کا حسین ترین اور قوت و طاقت کا دور جوانی کا دور ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنے کلام میں بار ہا لفظ بدل بدل کر اس جوانی کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔ اس فرمان میں سوال کی صورت میں واضح فرمایا ہے کہ جوانی کے بعد کمر جھکا دینے والا بڑھاپا ہے اور بڑھاپے میں درد، دکھ اور غم ہی ہیں۔ اس لئے جوانی کے موقع کو غنیمت جانیں اور جوانی کے آئینے میں بڑھاپے کو اور طاقت کے وقت جھکی ہوئی کمر کو دیکھیں۔
دنیا اگر کمائی جا سکتی ہے تو اس جوانی میں اور اگر روحانی طور پر کسی کمال کو حاصل کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی جوانی میں۔ جوانی میں جو کل پر کام ڈالتے رہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور جو خود کامیاب نہیں ہوتا وہ بڑھاپے میں کسی کو کامیابی کی راہیں بھی نہیں بتا سکتا یعنی بڑھاپے میں اس قابل نہیں ہوتا کہ لوگ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔
امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ مجھے جوان کی طاقت سے زیادہ بوڑھے کی رائے پسند ہے۔ اگر کوئی شخص دنیا کی حقیقت کو سمجھ لے اور اس کے عارضی ہونے پر یقین کر لے تو وہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے گا۔
اس خطبے کے ایک حصے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ان حقائق کو سمجھنے والا اور دنیا کی نعمات کو عارضی جاننے والا کبھی خوش فریبیوں میں مبتلا نہیں ہوتا اور مبہم و مشتبہ باتیں اس کی آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالتیں، اچھائیوں کے لئے جوانی میں تیزی سے قدم اُٹھاتا ہے اور برائیوں سے دور رہتا ہے آج کے دن کل کا خیال رکھتا ہے اور پہلے سے اپنے آگے کی ضرورتوں پر نظر رکھتا ہے۔