27۔ حقیقی عالم
اَلْعَالِمُ مَنْ عَرَفَ قَدْرَهُ وَ كَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا اَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَهُ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۰۱)
سمجھدار و دانا وہ ہے جو اپنا مرتبہ شناس ہو اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے۔
انسان خود کو پہچان لے اور یہ جان لے کہ اس کائنات کے ارض و سماء اور کوہ و دریا کے سامنے یہ کتنا چھوٹا سا ذرہ ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے بارے میں اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اس سے بھی آگاہ ہو جائے کہ اسے اس جہاں میں کون لایا ہے، کیوں لایا ہے اور یہ کیا کر رہا ہے، تو نتیجے میں اسے اپنی قدر و منزلت اور حقیقت و حیثیت سے آشنائی ہو جائے گی۔ اُسے اندازہ ہوگا کہ خالق نے اُسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور کائنات کی ہر شے اس کے لئے مسخر کر دی ہے۔ پیدا کرنے والے نے اسے اپنے جیسے انسانوں کے درد دل کے لیے پیدا کیا ہے، اور اسے حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے پر اجر کا وعدہ کیا ہے۔ خالق نے اسے عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے تاکہ اپنی اور اپنے جیسوں کی بہتری کے ذرائع تلاش کرے۔
انسان جب اپنی قدر و منزلت کو بھلا دیتا ہے تو یہ اس کی نادانی کی انتہا ہوتی ہے۔ وہ اپنے مقام کو بھلا کر بہت کچھ ایجاد کرنے میں تو مشغول رہتا ہے مگر انسانیت کھو دیتا ہے۔ قتل و کشتار کے آلات بنانا شروع کر دیتا ہے۔ چوری اور ڈاکے کی سوچوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔ دوسروں پر جائز و ناجائز طریقے سے حکومت کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ انسانوں کی بہتری و اصلاح کے بجائے فتنہ و فساد کھڑے کرتا ہے۔ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایٹم بم جیسے ہتھیار بنا کر اسے علم کا نام دیتا ہے۔
مگر امیر المومنینؑ کے فرمان کے مطابق اس کی یہ سوچ اس کی جہالت کی نشانی ہے۔ انسان کو اس معلم انسانیت کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو پہچاننا چاہیے اور خود کو پہچانے گا تو خدا کو پہچانے گا اور مخلوق کو اپنے جیسا سمجھے گا، یوں دوسروں کے ساتھ ویسا سلوک کرے گا جیسا چاہتا ہے کہ لوگ اس سے برتاؤ کریں اور کسی پر ظلم کرے گا نہ کسی کی غلامی۔