28۔ نصیحت
اِسْتَصْبِحُوا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحٍ وَّاعِظٍ مُتَّعِظٍ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۰۳)
با عمل نصیحت کرنے والے کے چراغ کی روشنی سے اپنے چراغ روشن کر لو۔
انسان دنیا میں اپنے راستوں کو روشن کرنے کے لیے چراغ جلاتا ہے۔ یہ چراغ اسے تاریکیوں سے نجات دیتے ہیں۔ راہ کے گڑھوں میں گرنے سے بچاتے ہیں۔ راہ سے بھٹک جانے سے محفوظ رکھتے ہیں اور راہ کے خطرات سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح ایک باعمل ناصح فکری و اخلاقی راہوں کے طے کرنے میں چراغ کا کام دیتا ہے۔ دنیا میں عزت سے زندگی گزارنے اور دوسروں کو عزت دینے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس واعظ و ناصح کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے نصیحت و موعظہ کرتا ہے، ایسے شخص کی روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پھر چراغ سے چراغ جلتا ہے کے مقولے کے مطابق خود بھی انسان کو چراغِ راہ بن جانا چاہیے۔
اس فرمان میں اُس ناصح و واعظ سے آپؑ نے اپنی ذات مراد لی ہے۔ قرآن نے پیغمبر اسلامؐ کو روشن چراغ قرار دیا ہے۔ امیر المومنینؑ خود نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں تمھارے درمیان میری مثال ایسی ہے جیسے اندھیرے میں چراغ۔ چراغ راہ کے طور پر امیرالمؤمنینؑ بہترین ذریعہ ہیں۔ انسان اس چراغ علوی سے اپنی راہوں کو طے کر کے خود کو دوسروں کے لیے راہنما بنا سکتا ہے۔