لَعَنَ اللهُ الْآمِرِینَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِکِینَ لَهُ وَ النَّاهِینَ عَنِ الْمُنْکَرِ الْعَامِلِینَ بِهِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۲۷)
اللہ لعنت کرے جو اوروں کو بھلائی کا حکم دیں اور خود اُسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود اُن کو انجام دیں۔
انسان معاشرے میں عزت سے رہنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ معاشرے کا حصہ بن کر رہے، معاشرے کی اچھائیوں کو اپنائے اور معاشرے میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان سے دور رہے۔ معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرے۔ فقط اپنی ذات ہی کے فوائد کو مدنظر نہ رکھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے دوسرے افراد کے لیے اچھائیوں میں راہنما بن کر رہے اور جس کار خیر سے آشنا ہے دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے۔ جہاں کسی چیز کو معاشرے کے لیے برا اور نقصان دہ سمجھتا ہے اس سے معاشرے کے دوسرے افراد کو روکے۔ یہ عظیم اجتماعی پہلو ہے، اسے جہاد قرار دیا گیا ہے۔ اسے انجام دینے والے کو کامیاب انسان قرار دیا گیا ہے اور اس مشکل کام کے انجام دینے والے کو سراہا گیا ہے۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق گھاٹے سے وہی انسان بچ سکتا ہے جو اپنے عقیدہ و ایمان کے ساتھ دوسروں کو بھی حق و حقیقت کی وصیت کرتا ہے، اگرچہ اس راہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انجام دینے والے کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ایک اہم امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ اس فریضہ کو انجام دینے میں زیادہ اثر تب ہو گا اور معاشرے کی بہتری کے درد کا واقعاً ثبوت یہ ہو گا کہ انسان جس اچھائی کا دوسرے سے تقاضا کر رہا ہے اسے خود ترک نہ کرے اور جس کمزوری اور برائی سے معاشرے کو بچانا چاہتا ہے اس سے خود بھی بچ کر رہے۔ جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے اور اللہ کی لعنت کا مستحق ہے۔