شمع زندگیھوم پیج

34۔ شکر

نَحْمَدُهٗ عَلیٰ مَآ اََخَذَ و اََعْطٰى وَ عَلٰی مَا اَبْلٰى وَابْتَلٰی۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۳۰)
اللہ جو کچھ لے اور جو کچھ دے، جو عطا کرے اور جن امتحانوں میں ڈالے ہم سب پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔

انسان کی زندگی میں کبھی غم تو کبھی خوشی، کبھی فقر تو کبھی دولت کی دھوپ چھاؤں رہتی ہے۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ اُسے دیا جائے تو راضی اور ساری زندگی دینے کے بعد مختصر وقت کے لیے روک لیا جائے تو شکوہ و شکایت۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا درس دیا ہے اور فرمایا کہ ہمارا طریقہ زندگی یہ ہے کہ وہ لے لے تو ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں، دے تو بھی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ وہ آزمائشوں میں ڈالے تو بھی حمد اور عطا کرے تو بھی حمد۔

یعنی اُس کے روک لینے پر یا پلٹا لینے پر مایوس نہیں ہونا چاہیے اور دے تو دینے والے کو بھول نہیں جانا چاہیے۔ اس اندازِ زندگی سے محسن کا شکریہ بھی ادا ہوگا اور نہ ہونے کے باوجود زندگی میں سکون بھی ہوگا۔ یہ طریقہ اللہ سبحانہ کے حضور بھی اپنانا چاہیے اور دُنیا میں احسان کرنے والے افراد کے ساتھ بھی اپنانا چاہیے۔

کسی حاکم کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ اُس کا ایک بڑا چہیتا نوکر تھا، وہ ہر خوشی میں اُسے شامل کرتا، اپنا پسندیدہ کھانا اپنے ساتھ اُسے کھلاتا۔ ایک بار ایک خربوزہ پیش کیا گیا تو اس نے خود کھانے کے بجائے نوکر کو دیا۔ نوکر نے بڑے مزے سے اُسے کھانا شروع کیا اور چہرے سے خوشی کے اثرات نظر آئے۔

حاکم نے کچھ خربوزہ نوکر سے لے کر خود کھایا تو وہ اتنا کڑوا تھا کہ کھانے کے قابل نہ تھا۔ حاکم نے نوکر سے پوچھا اتنا کڑوا خربوزہ اتنے مزے سے کیسے کھا رہے تھے، تو نوکر نے کہا ساری زندگی پسندیدہ کھانا آپ نے دیا اور میں مزے سے کھاتا رہا اگر ایک بار کڑوا آپ کی طرف سے آ گیا تو اسے بھی آپ کی عطا سمجھ کر مزے سے کھا رہا ہوں۔

اگر اللہ کے دیے ہوئے یا اپنے محسن کی عطا پر اس انداز سے برتاؤ کیا جائے تو انسان کی زندگی سکون و اطمینان سے مالا مال ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button