36۔ جلد بازی
لَا تَعْجَلْ فِي ْعَيْبِ اَحَدٍ بِذَنْبِهٖ، فَلَعَلَّهٗ مَغْفُورٌ لَهٗ۔ (نہج ا؛بلاغہ خطبہ۱۳۸)
کسی پر گناہ کا عیب لگانے پر جلدی نہ کریں شاید اُس کو معاف کر دیا گیا ہو۔
ہر انسان کی کچھ عزت ہوتی ہے اور وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اُس کی وہ عزت محفوظ رہے۔ اُس سے اگر کوئی ایسا عمل سرزد ہو جو اُس کی عزت کو نقصان پہنچائے تو یا اُسے چھپاتا ہے یا جس عمل کی وجہ سے اُس کی عزت کو نقصان پہنچا ہو اُسے دور کرتا ہے۔
امیرالمؤمنینؑ یہاں فرماتے ہیں کہ کسی کے عیب و گناہ کو آپ نے دیکھا تو اُس کے عیب کے بیان میں جلدی نہ کریں۔ ممکن ہے وہ یہ غلطی جہالت کی وجہ سے کر رہا ہو جب اسے اس غلطی کا احساس ہوگا تو اُس پر نادم ہوگا اور معافی مانگے گا۔ ممکن ہے یہ غلطی اس سے کوئی مجبوری کروا رہی ہو جب وہ مجبوری دور ہو جائے تو وہ غلطی کو ترک کر دے یعنی دوسرے کی غلطی دیکھیں بھی تو اسے بیان نہ کرنے لگ جائیں۔ سب سے پہلے خود کو پاک کریں پھر وہ ہنر سیکھیں جس کے ذریعے دوسروں کو عیب سے پاک کر سکیں۔ عیب بیان کر کے دوسروں کی عزت و شرافت کو خاک میں مت ملائیں ورنہ اس خاک سے اڑنے والا غبار آپ کو بھی غبار آلود کر دے گا۔
مولانا روم نے خوب کہا کہ بڑا عیب یہ ہے کہ عیب کے علاوہ دوسروں میں کچھ نظر ہی نہ آئے۔ کوشش کریں کہ دوسروں کے عیب دیکھ کر وہی عیب اپنے اندر تلاش کریں۔ کہیں آپ کے اندر بھی تو موجود نہیں اگر آپ کے اندر وہی عیب ہے تو اُسے دور کریں۔ اپنے ایک عیب کی تلاش دوسروں کے دسیوں عیب تلاش کرنے سے بہتر ہے۔