44۔ ظلم
اَمَّا الظُّلْمُ الَّذِيْ لَا يُتْرَكُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۴)
وہ ظلم جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔
انسانی زندگی میں اگر برے اعمال کی فہرست مرتب کی جائے تو ظلم سر فہرست ہوگا۔ ظلم یعنی جو جس کا حق ہے وہ اس کو نہ دیا جائے یا جو جس کا مقام ہے اس سے اسے دور رکھا جائے اور جو کسی کی حیثیت ہے وہ نہ مانی جائے۔ اشیاء میں سے بھی اگر کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا کر رکھا جائے، مثلاً جوتے کو سر پر اور ٹوپی کو پاؤں میں، تو یہ ظلم کہلاتا ہے۔
امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ظلم کی تین اقسام کا ذکر کیا جس میں سے دوسری قسم یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ دوسرے بندے پر ظلم کرتا ہے تو اس کے اس عمل و کردار کی اسے جلد یا بدیر سزا ضرور ملے گی اور اس کے اس ظلم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امیرالمؤمنینؑ کی عدالت زبان زدِ عام ہے اور ایک مسیحی مصنف تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کا قتل ہی عدالت کی سختی و شدت کی وجہ سے ہوا۔ انھوں نے ایک مفصل کتاب لکھی (علیؑ عدالت انسانی کی آواز)۔ یہاں امیرالمؤمنینؑ نے انسان پر کیے جانے والے ظلم کو نظر انداز نہ کیے جانے کا ذکر کیا اور یوں اس کے نقصانات کو واضح فرمایا۔
اگر انسان ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں۔ جس کا جو مقام ہے وہ اس کے قائل ہو جائیں تو دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے اور دنیا کی سب سے بڑی ترقی یہی ہے کہ اس میں عدل و انصاف قائم ہو اور جو اس عدل کو قائم کرے گا یقیناً وہ کامل انسان ہوگا۔ دنیا میں قتل، مال پر ڈاکا و غصب، کسی کی توہین، کسی کی اہلیت کے ہوتے ہوئے اسے کسی عہدے سے دور رکھ کر نا اہل کو اس عہدے پر بٹھانا اگر ایسے اعمال رک جائیں تو زمانے کی تقدیر بدل جائے۔
البتہ معاشرے میں ظلم ختم نہیں ہوتا تو جن پر ظلم ہوتا ہے ان کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، آخر جیت عدل و انصاف کی ہوگی اور ظالم کا سر جھکے گا۔ قرآن مجید نے جناب یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے جس میں ہے کہ بھائیوں نے ظلم کیا تو یوسفؑ نے بدلے میں ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے مقام کے لحاظ سے معاف کر دیا اور اس کا بدلا جناب یوسفؑ کو زندگی میں ہی مل گیا۔ وہی بھائی سوالی بن کر جناب یوسف ؑکے سامنے آئے۔ اس لیے کامل انسان وہ ہے جس پر ظلم ہو بھی تو وہ ظلم نہیں کرتا۔